کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت اور بھارتی جنگی عزائم نے ملک کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ کی سیاست میں بھی کافی سنجیدگی پیدا کردی ہے۔سندھ اسمبلی کے اجلاس 21ستمبر سے 30ستمبر تک جاری اجلاس میں پاناما لیکس کی اپوزیشن کے ضابطہ کار کے مطابق تحقیق، ایم کیو ایم بانی الطاف حسین کیخلاف غداری کا مقدمہ قائم بنانے اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور بھارتی جارحیت کی مذمتی قراردادیں منظور کی گئی۔آخرالذکردونوں قراردادیں متفقہ طورپر منظورہوئی، تاہم پاناما لیکس کی قرارداد پر ایم کیوایم اور فنکشنل لیگ لاتعلق رہیں،جبکہ (ن) لیگ کی ایوان میں موجود واحد خاتون سورٹھ تھیبو نے بھر پور احتجاج کیا لیکن قرارداد کی منظوری کے وقت واک آوٹ پر تھیں ،جس پر اسپیکر نے قرارداد متفقہ طور پرمنظور ہونے کا اعلان کیا اگرچہ عملاً ایسا نہیںہے۔
بھارتی جارحیت اور جنگی عزائم کیخلاف تمام سیاسی ، مذہبی، سماجی قوتیں یکجاں ہیں اور عوام ملکی سلامتی و بقاء اور کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی اور ان کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی مدد کیلئے ہر ممکن تیار ہیں، تاہم ملکی سلامتی، کنٹرول لائن پربھارتی جارحیت اور کشمیر اخلاقی حمایت کے لئے ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بائیکاٹ کا اعلان، جہاں ملک کے دیگر حصوں کی عوام کیلئے حیران اور پریشان کن ہے وہیں سندھ کے عوام بھی تشویش میں ہے۔ مبصرین کے مطابق اس موقع پر جب پاکستان کا دشمن ملکی سلامتی پر حملے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے ہر حربہ استعمال کررہا ہے۔ ہمیں ملک میں اتحاد ویکجہتی کے بھرپور اظہار کی ضرورت ہے، لیکن خان صاحب کافیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ بھارتی لابی خان صاحب کے بائیکاٹ کو پاکستان کے اندر انتشار یا سیاسی عدم استحکام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریگی، جس کے اثرات بھارتی میڈیا میں دکھائی بھی دے رہے ہیں۔عمران خان کا فیصلہ موجودہ صورتحال میں غیر سنجیدہ ،جزباتی اور بے موقع ہے ،اس فیصلے کے منفی اثرات نہ صرف ملکی سیاست بلکہ خوفناک حدتک تحریک انصاف کے اندر بھی مرتب ہوسکتے ہیں ۔
بعض حلقوں کی رائے ہے کہ اس موقع پر عمران خان کا ” پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان اور 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی جانب سے ڈھاکہ جانے والے ارکان کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی بہت حد تک مماثل ہے”۔مزید یہ کہ خا ن صاحب کے اقدام نے ان خدشات کو تقویت بخشی ہے کہ مستقبل قریب میں سیاسی تلخی بھرپور تصادم کی شکل اختیار کرسکتی ہے اور اللہ نہ کرے ایسا ہوا، گر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ سندھ متاثر ہوگا۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں عدم استحکام جہاں بھارت کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا وہی میں سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی بعض قوتیں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ اس ضمن میںمبصرین ایم کیوایم کے اندر گروپ بندی کو بھی اہم قراردے رہے ہیں ۔ایم کیو ایم کے مرکز 90کے قریب گھر سے5اکتوبر کو جدید اور جنگی اسلحے کی بڑی کھیپ کی برآمدگی بھی اس جانب اشارہ کر رہی ہے۔
ایم کیوایم کے اندر 22اگست اٹھنے والا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہاہے،۔ایم کیوایم پاکستان نے نہ صرف ایم کیوایم لندن کے رہنماؤں بلکہ اپنے قائد سے بھی مکمل لاتعلقی اور برات کا اعلان کیا جس کے جواب میں ایم کیوایم لندن نے ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی بنیادی رکنیت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ارکان اسمبلی اور سنیٹرز کو مستعفی ہونے کی ہدایت کی تاہم اب تک ایم کیوایم کے 8سنیٹرز 23ارکان قومی اسمبلی اور 46ارکان سندھ اسمبلی سے صرف ایک رکن قومی اسمبلی صفیان یوسف نے ہی مستعفی ہونے کا اعلان کیاہے۔ اب تک بظاہر ایم کیوایم کا پارلیمانی گروپ اور بلدیاتی نمائندے ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ ہیں۔
دوسری جانب ایم کیوایم لندن پاکستان میں تنظیم سازی کی کوشش کر رہی ،لیکن ان کے لئے مشکل یہ ہے کہ ہمدردوں اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی کے باوجود موجودہ صورتحال میں بر سر زمین کوئی تنظیم کا حصہ بننے کیلئے تیارنہیں ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت ایم کیوایم پاکستان کی گرفت کافی حدتک مضبوط ہے، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ایم کیوایم کے لندن کے حامیوں اور ہمدردوں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ ایم کیوایم پاکستان کوآل پارٹیز کانفرنس میں ملنے والی پذیرائی بھی ایم کیوایم لندن کیلئے یقینا تشویش کا باعث ہوگی جودونوں میں مزید دوریوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ایسی صورتحال میں ایم کیو ایم لندن کوئی بڑا قدم اٹھا سکتی ہے ۔
موجودہ صورتحال میں اگر حالات کی نزاکت اور وقت کے تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے نہیں کیے گئے تو آگے جاکر تصادم کے بہت زیادہ خدشات ہیں ،حکومت ، قومی اداروں اور تمام سیاسی وسماجی ومذہبی قوتوں کو چاہئے کہ وہ ایم کیوایم پاکستان پر الزام تراشی اورسختی کی بجائے انہیں قومی دھارے میں زیادہ سے زیادہ جگہ فراہم کرنے کیلئے کوشش کریں،کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں آج بھی ایم کیوایم ہی واحد عوامی نمائندہ قوت ہے جبکہ دیہی علاقوں میں پیپلزپارٹی نے اپنی پوزیشن پہلے سے زیادہ مستحکم کی ہوئی ہے۔
دیہی سندھ میں اب شاید ہی کوئی علاقہ ایسابچا ہو جہاں پر پیپلزپارٹی کو کوئی قوت باآسانی شکست دے سکے، اس کی بنیادی ذمہ داری مسلم لیگ(ن) مسلم لیگ(ف) اور دیگر قوتوں پر عائد ہوتی ہے۔2013کے انتخابات کے بعدا یسا لگتاہے کہ مسلم لیگ(ن) نے سندھ میں اپنی تنظیم سازی نہ کرنے اور پارٹی کو فعال نہ بنانے کا پیپلزپارٹی سے معاہدہ کیاہے ،غالبا یہی وجہ ہے کہ اب ن لیگ کے مایوس رہنماء پیپلزپارٹی کا رخ کررہے ہیں ۔2013کے عام انتخاب میں سندھ سے ن لیگ کی ٹکٹ پر ایک ہی رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ کامیاب ہوئے ۔انہوں نے25ستمبر کو وزیر اعلیٰ ہائوس میں پریس کانفرنس میں وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف پر بدعہدی سمیت کئی الزامات لگاکرقومی اسمبلی کی رکنیت اور ن لیگ کی ممبر شپ سے مستعفی ہوکراور پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے قبل سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی ن لیگ سے الگ ہوکر اپنی پارٹی تشکیل دے چکے ہیں ۔2013کے انتخاب کے بعد شامل ہونے والے شیرازی برادران اور اتحادی جتوئی برادران بھی ن لیگ کی قیادت سے سخت نالاں ہیں ۔سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر غلام ارباب غلام رحیم بھی ن لیگ سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ممتاز بھٹو نے (ن) سے الگ ہوکر اپنی سابقہ پارٹی بحال کردی ہے۔ شنید ہے کہ سندھ میں اور کئی لیگی رہنماء پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کیلئے نہ صرف تیار بلکہ معاملات بھی کافی حدتک طے پاچکے ہیں، اس ضمن میں سابق صوبائی وزیر عرفان اللہ خان مروت سمیت کئی اہم رہنماوں کے نام لیے جارہے ہیں ۔ مسلم لیگ (ف)اور تحریک انصاف کا ایک بڑا گروپ بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کیلئے تیارہے۔
امکان تھاکہ ن لیگ کی کمزوری کا فائد تحریک انصاف کو ملے گا،لیکن ایسا نہ ہوسکابلکہ تحریک انصاف مزید کمزور ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔ خود تحریک انصاف میں نصف درجن کے قریب چھوٹے بڑے گروپ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف رائیونڈکے 30اکتوبر کے جلسے کیلئے سندھ سے چند سو لوگ بھی نہ نکال سکی۔ تحریک انصاف کے قافلے میں کراچی سے اوباڑہ تک شامل میڈیا نمائندوں کے مطابق شرکاء کی تعداد،400سے بھی کم تھی ۔ان میں سے بھی بیشترافراد کی شرکت کا کریڈٹ بھی صوبائی سینئر نائب صدر حلیم عادل شیخ کو جاتاہے ۔ اگر سندھ کی سیاسی صورتحال2018کے انتخابات تک اسی طرح رہی تو پیپلزپارٹی سندھ کی70 فیصد سے زائد نشستوں پر بآسانی کامیاب ہوگی، جبکہ شہری نشستوں پر ایم کیوایم کی گرفت دیگر کے مقابلے میں بہتر رہے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں موجودہ جمہوری نظام کے تحت انتخابات ہوتے ہیںیا پھر کوئی اور قوت مداخلت کرکے انتخابی عمل کو روکتی ہے۔