کالمز

سوشل میڈیا اور تہذیب 

’’ سوشل میڈیا ‘‘ انگریز ی کی اُن ترکیبات میں سے ہے جنکو اردو میں جا و بے جا استعمال کہاجاتا ہے اور بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے یہ ترکیب یا اصطلاح گذشتہ عشرے کے دوران ہماری گفتگو میں شامل ہوئی او رتحریروں میںآگئی اس کا سلیس ترجمہ ہے ’’ سماجی ذرائع ابلاغ‘‘ اس سے مراد لیا جاتا ہے انٹرنیٹ پر تبادلہ خیالات ، فیس بک ، ٹو ئیٹر اور سماجی رابطوں کے بے شمار ویب سائٹس کو استعمال کر کے خبر پھیلا نا خبراچھی بھی ہوتی ہے ، بری بھی ہوتی ہے مثلاً بلا ل کی سنت کی رسم 4 سال کی عمر میں ادا ہوئی بچے کی خوبصورت تصو یر کے ساتھ خبر سوشل میڈیا پر آگئی ، 700 دوستوں نے پسند کیا ، 475 دوستوں نے آگے دوسروں کو اس خبر کی اطلاع دیدی اور 184 دوستوں نے اس پر مختلف انداز میں تبصرہ کئے آدھ گھنٹے کے اندر یہ سب کچھ ہوا جو روزنامہ اخبار ، ریڈیو یا ٹیلی وژن کے ذریعے ممکن نہ تھا محمد عارف نے 12 سال اپنے دوست کو نہیں دیکھا تھا 12 سال بعد فیس بک پر پیغام بھیجا 5 منٹ کے اندر جواب آیا تو پتہ لگا کہ محمد عارف کرم ایجنسی سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور منتقل ہوا ہے اور اس کا دوست پشاور کو چھوڑ کر چترال چلا گیا ہے 5 منٹ کے اندر دونوں کی ملاقات کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا

اس طرح کی لاکھوں کروڑوں مثالیں ہیں جو سوشل میڈیا کی خوبیوں پر دلالت کرتی ہیں مگر یہ پوری کہانی نہیں ہے اس کہانی کا ایک دوسرا رُخ ہے جو تھوڑا سا پرُفریب ہے دھو کہ دیتا ہے ، اندھیر ے میں رکھ کر غلط فیصلے کر واتا ہے سوشل میڈیا کے ذریعے دوستی ہوتی ہے جو شادی میں بدل جاتی ہے اور بہت جلد طلا ق کی منزل پر آکر دم توڑ دیتی ہے کیونکہ عملی زندگی میں دونوں کا کوئی جوڑ نہیں تھا دونوں کی آپس میں کوئی مماثلت نہیں تھی دونوں کا ایک ساتھ رہنا اور زندگی گذارنا محال تھا یہ سوشل میڈیا کے فریب کا ایک حصہ ہے اس فریب کی دوسری مثال بھی ہے ایک سیاسی لیڈر فیس بک اور ٹو ئیٹر پر دیکھتا ہے اُس کے چاہنے والوں کی تعداد 22 کروڑ ہے سوچتا ہے کہ پاکستان کی 18 کروڑ آبادی اور 14 کروڑ ووٹروں سے میرے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ ہے وہ سیاست میںآتا ہے سیاسی پارٹی بنا تا ہے مگر ناکامی سے دوچار ہوتا ہے کیونکہ اُس کے چاہنے والے ہوا میں موجود ہیں ہوائی لہر وں پر اس کو چاہتے ہیں جس پر نہ خرچہ آتا ہے نہ جس میں تکلیف ہوتی ہے نہ قربانی دینی پڑتی ہے جب زحمت اُٹھا نے کی باری آتی ہے قربانی دینے کا وقت آتا ہے تو وہ میدان میں اکیلا رہ جاتا ہے یہ سوشل میڈیا کا فریب اور دھو کا ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان ، جسٹس افتخار محمد چو ہدری اور عمران خان اس فریب کی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کے لئے یہ تین نا م کافی ہیں۔

سوشل میڈیا کا تیسرا رُخ بہت خوفناک اور بھیا نک ہے اس کو سوشل کہ جگہ ان سوشل ( Un-Social ) کا نام دینا زیادہ مناسب ہوگا یہ میڈیا کی وہ صورت ہے جس میں گالیاں دی جاتی ہیں نفرتیں پھیلا ئی جاتی ہیں ، بدامنی کی ترغیب دی جاتی ہے دشمنی اور رقابت کے بیج بوئے جاتے ہیں ایک شخص اپنے دشمن کو اُس کے سامنے گالی نہیں دے سکتا ، اخبار میں گالی نہیں دے سکتا مسجد کے منبر پر گالی نہیں دے سکتا وہ سوشل میڈیا پر آکر دل کی بھڑاس نکالتا ہے یہاں ’’ تہذیب ‘‘ کا عمل دخل نما یا ں ہو کر سامنے آجا تا ہے مہذب معاشرے میں کوئی شخص نہ بازار میں کسی کو گالی دیتا ہے نہ ڈائس پر کھڑے ہو کر کسی کو گالی دے سکتا ہے نہ منبر پر بیٹھ کر کسی کو گالی دیتا ہے کہ کتاب اور اخبار میں گالی دے کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہے نہ سوشل میڈیا کو گالی دینے کے لئے استعمال کر تا ہے لکھنو میں دو آدمی آپس میں جھگڑرہے تھے دونوں غصے میں تھے ایک نے کہا ’’ جناب عالی ! اگر آپ باز نہیںآئے تو میں آپ کی امی جان کے بارے میں نازیبا الفاظ کہوں گا‘‘ دوسرے نے جواب دیا ’’ دیکھئے حضور ! اگر آپ نے میرے پیاری امی کے بارے میں ایک لفظ بولا تو میں بھی آپ کی والد ہ محترمہ کی شان میں گستاخی کرونگا ،دیکھئے حضور!ایسا ہر گز نہ کیجئے ‘‘ یہ تہذیب کی نشانی ہے اس کے مقابلے میں بد تہذیبی اور بداخلاقی ہے جس کے نمونے ہمیں پنڈی ، لاہور ، ملتان ، کوئیٹہ ، کراچی اور پشاور کے بازاروں میں جا بجا ملتے ہیں۔

جب سے کمپیوٹر ، موبائیل فون اور انٹرنیٹ پاکستانی نوجوانوں کے ہاتھوں میںآیا ہے وہ بد تہذیبی اور بد اخلاقی دیکھنے کو مل رہی ہے جس سے شیطان بھی پناہ ما نگتا ہوگا اس کی دو بڑی و جو ہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں اور گھر وں کے اندر بچوں کی اخلاقی تربیت نہیں ہوتی بڑوں کی زبان پر اچھی باتیں نہیں ہوتیں معاشرتی رویوں میں مثبت رویے نہیں ملتے معاشر تی اور سماجی زندگی میں اچھی باتوں کو نہیں دہر ایا جاتا برائی کو دہرا یا جاتا ہے اس بنا ء پر نئی نسل کے ذہن پر نیکی اور بھلائی کی جگہ برائی کا نقش اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور برائی ہمیشہ سامنے رہتی ہے سیاسی لیڈربرائی کا ذکر پسند کرتے ہیں مذہبی رہنما ؤ ں کی زبان پر برائی کا ذکر ہوتا ہے عدالتوں میں برائی کا ذکر ہوتا ہے مسجدوں میں برائی کا ذکر ہوتا ہے سکولوں ، کالجوں اور مدرسوں میں برائی کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اس لئے نئی نسل یہ سبق لیتی ہے کہ برائی ہی سب کچھ ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی نظر نہیںآتی ہے قتل ، چوری ، ڈکیتی کی روک تھام کے لئے قوانین موجود ہیں مگراُن پر عمل نہیں ہوتا کسی بھی ملزم کو قانون کے مطابق سز ا نہیں ملتی سوشل میڈیا پر جو جرم ہوتا ہے وہ سائبر کرائم کہلاتا ہے۔

وطن عزیز میں سا ئبر کرائم کے سد باب کے لئے کوئی قانون نہیں ہے اگر سائبر کرائم کا قانون آیا اور اس قانون کے تحت سوشل میڈیا کو غلط مقاصد اور مذحوم عزائم کے لئے استعمال کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا تو معاشر ہ تباہی سے بچ جائے گا سیاسی قیادت ، سول بیوروکریسی اور عد لیہ سے اُ مید رکھنا بے معنی ہے پاک فوج اور آرمی چیف سے اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ سوشل میڈیا کے کند ھے پر بندوق رکھ کر دہشت گردی کر نے والوں کے خلاف بھی ایک ضرب غضب کی آغاز کر یں اور ہمارے معاشرے کو انٹر نیٹ کی دہشت گردی سے نجات دلائیں ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button