تعلیم

آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ کے زیر اہتمام کراچی میں پرنسپلز کانفرنس کا انعقاد

گلگت(خبرنگارخصوصی)آغاخان یونیورسٹی۔ایگزامینیشن بورڈ (اے کے یو۔ای بی) اور اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس (او یو پی) نے کراچی میں مشترکہ طور پر دوسری ‘پرنسپلز کانفرنس’ کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کا مقصد درس و تدریس کے میدان میں قائدین کو منظم تعلیم کے مواقع فراہم کرنا اور مقامی اور بین الاقوامی تناظر میں اسکولوں کی ترقی کے حوالے سے بصیرت حاصل کرنا تھا۔ اس کانفرنس میں گلگت ۔ بلتستان اورچترال سمیت ملک بھر سے ماہرین تعلیم نے شرکت کی اور اسکولوں کے نظام کو بہتر بنانے اور مشکلات سے نبردآزما ہونے کی تدابیر کے حوالے سے مباحث کیے تاکہ ملک بھر میں درس وتدریس کی بہتری کے لیے حکمت عملی وضع کی جا سکے۔کانفرنس میں شریک ماہرین تعلیم نے پاکستان کے موجودہ تعلیمی مسائل کے حوالے سے بات کی۔ پرنسپلز کے لیے یہ کانفرنس ایک ایسے پلیٹ فارم کی مانند ہے جہاں وہ ہم عصر اساتذہ اور صدرو مدرس کے ساتھ روابط کو فروغ دے سکتے ہیں اور ان کے تجربات اور کامیابی کے واقعات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے لیے بہترین طریقہ چن سکتے ہیں۔ شرکا نے اساتذہ کی سطح پر بہتر اشتراک کے طریقوں کے حوالے سے بات کی تاکہ ایک تعلیمی مرحلے سے دوسرے میں ترقی کے دوران طلبا کی بہتر معاونت کی جا سکے۔ اسکولوں کی قیادت کو مزید تقویت دینے اور اس کی صلاحیت سازی کو مدنظر رکھتے ہوئے اے کے یو۔ای بی نے اس کانفرنس کے موقعے پر پاکستان کے پہلے ‘پرنسپلز نیٹ ورک’ کا بھی آغاز کیا۔ اس نیٹ ورک کا مقصد پاکستان بھر میں موجود تعلیمی اداروں کے پرنسپلز،سربراہان اور دیگر قیادت کو ایک دھارے میں شامل کرنا ہے تاکہ وہ نئے خیالات، اختراعات اور بہترین طریقہ تدریس کا تبادلہ کر سکیں اور یوں ہر تعلیمی ادارے کی بہتری کے پروگرامز کے اطلاق اور ان کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔

اے کے یو۔ای بی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزاد جیوا نے استقبالی کلمات ادا کرتے ہوئے کانفرنس کا افتتاح کیا۔ انھوں نے کہا، "مربوط تعلیم و تدریس طلبا کے علم، مہارت اور رویے کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے کی صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ طلبا کی سوچ اور انداز فکر کو نئے افق دکھلاتی ہے اور وہ ایسے علم کے حصول میں مصروف ہو جاتے ہیں جو انھیں اعلی درجے کی تنقیدی سوچ اور تفکر کے لیے تیار کرے۔”

ایجوکیشن ٹرسٹ ناصرہ اسکولز کی ٹرسٹی اور شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (زیبسٹ) کی صدرمحترمہ شہناز وزیر علی اس کانفرنس کی مہمان خصوصی تھیں۔ انھوں نے اس موقعے پر بات کرتے ہوئے کہا، "ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جب انسانی ذہن علم کی تلاش میں ایک جانب خلا کی وسعتوں کو آشکار کر رہا ہے اور دوسری جانب سمندروں کی اتاہ گہرائیوں تک اتر چکا ہے؛ اور نئی دریافتوں، ایجادات اور اختراعات کے ذریعے علم کے بحر بے کراں کو عبور کر رہا ہے۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بچے ا بھی تک ایک ایسے تعلیمی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جو فرسودہ ہے، بے لچک ہے اور صدیوں پرانے روایتی تعلیمی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ اب یہ ناگزیر ہے کہ تعلیمی نظام میں انقلابی اقدامات کیے جائیں؛ اور ایسے انداز تدریس اپنائے جائیں اور نصاب تخلیق کیے جائیں جو مستند اور موثر ہوں۔”انھوں نے مزید کہا، ” درس و تدریس کے مثبت نتائج طلبا کے علم اور مہارت کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول اور ایک عظیم ترقی کے لیے (تاکہ ہر بچہ اپنی صلاحتیوں کو مکمل طور پر استعمال کر سکے) ہمیں غیر ضروری ضوابط اور مرکز پر انحصار جیسی پابندیوں کو ختم کرنا ہو گا۔ معیاری درس و تدریس کے لیے ذرائع و وسائل کی تلاش کے علاوہ ارتقا کے عمل میں ‘طالب علم’ اور ‘استاد’ کو مرکزی حیثیت دینا ہوگی۔ ‘پرنسپلز کانفرنس’ نے دراصل تبدیلی کے محرکین یعنی ‘اساتذہ کے قائدین’ کو ایک جگہ جمع کیا ہے اور یہ تعلیمی اداروں کے ارتقا کی جانب ایک اہم قدم ہے۔”کانفرنس کے دوران قومی اور بین الاقوامی سطح پر ممتاز مقررین اور پینل میں شریک ماہرین نے فکر کو مہمیز دینے والے سیشنز کروائے۔

او یو پی کے ایک ممتاز لکھاری اور ٹیکسٹ بک مصنف نکولس ہورسبرگ نے ‘اونرشپ اینڈ انگیجمنٹ’ کے موضوع پر ایک خصوصی سیشن کروایا۔غلامان عباس اسکول کے پرنسپل شاہد بادامی اور آئی بی اے پبلک اسکول، سکھر کے پرنسپل علی گوہر چنگ نے اپنے اسکولز کے متاثر کن واقعات حاضرین کو بتائے کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں معیاری تعلیم کی فراہمی اور ترقی کے لیے کام کیا۔

اس کے بعد ماہرین کے ایک پینل نے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے۔ آغا خان یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف سائکائٹری کی چیئر ڈاکٹر عائشہ میاں اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن (بی آئی ایس ای) پشاور کے چیئرمین محمد شفیع آفریدی پینل میں شامل تھے۔ ‘ری امیجنگ دا ٹیکسٹ بک’کے موضوع پر ایک دلچسپ بحث ہوئی جس میں پینل کے فرائض تجربہ کار ماہرِین نے انجام دیئے جن میں شامل ہیں: ڈاکٹر نکی ساروکا، فیکلٹی، حبیب یونیورسٹی؛ راحیلہ اشرف، جنرل مینیجر، ایجوکیشن، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس؛ کرمین پاریکھ، بائی ویر بائی جی سپاری والا )بی وی ایس( پارسی ہائی اسکول اور ڈاکٹر عظمی جاوید، ڈائریکٹر، اسٹڈیز، دی سٹی اسکول، لاہور۔

کانفرنس کا اختتام ٹیچرز ڈیویلیلپمنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر عباس حسین کے ‘ورلڈ کیفے’ نامی سیشن پر ہوا جس میں حاضرین نے بھی شرکت کی۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی مینیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا، "انسانی تاریخ کی ابتدا سے لے کر اب تک، تعلیم کی اہمیت مسلم رہی ہے۔ لیم فرد اور اقوام کے مستقبل تخلیق کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ آج دنیا میں سات بلین سے زائد افراد بستے ہیں اور وہ سب ہی اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ فی زمانہ بقا اور ترقی کے لیے تعلیم کی وہی حیثیت ہے جو ہوا اور پانی کی ہے۔ تعلیم دراصل ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے حاصل کیے جانے والے علم کے فہم، تقسیم اور اطلاق کا نام ہے اور تعلیم ہی علم اور زندگی دونوں کی اصل بنیاد بھی ہے۔”

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button