کالمز

بلوچستان کے جو نیپر کے جنگلات کا ایکوسسٹم پاکستان میں سب سے زیادہ خطرات کا شکار

تحریر ۔۔۔۔۔۔محمد نواز (سمسٹر پنجم)

قدیم انسانی تاریخ میں انسان کا تعلق جنگل سے اتنا گہرا تھا کہ جتنا کہ آج اس کا شہروں سے ہے ۔یہ جنگل ہی تھے جو اسے پیٹ بھرنے کیلئے ، خوراک ، سر چھپانے کیلئے سائبان ، جسم ڈھانپنے کیلئے اوڑھیناں، بیمار پڑنے پر ادویاتی پودے، محظوظ ہونے کیلئے قدرتی نظارے، صحت مند رہنے کیلئے تازہ ہوا اور سماجی میل ملاپ کیلئے ماحول اور جگہ فراہم کرتے تھے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی بودوباش کے ارتقائی سفر نے اسے جنگلوں سے نکال کر دریاؤں کے کنارے میدانوں میں آباد کرنا شروع کر دیا۔ یوں اس کا جنگل سے صدیوں سے قائم ناطہ کمزور پڑنا شروع ہوا اور وہ قدرت کی اس عظیم فیاضی کی اہمیت سے لاتعلق سا ہوتا چلا گیا۔یوں کرہ عرض پر حیاتیاتی زندگی کا ضامن "شجر”آج ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدت سے انسانی ضروریات کی نظر ہو رہا ہے۔ایک طرف تو شہر اور کھیتوں کی توسیع کی راہ میں آنے والے ہر پیڑ کو کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔تو دوسری جانب لکڑی کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی مانگ اس تحفہ قدرت کے وجود کے در پے ہے۔توسیع اور ضرورت کے ان رجحانات کے باعث آج زمین تیزی سے بے شجر ہو رہی ہے۔ اس تیز تر شجر کٹائی کے باعث آج دنیا بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی لپیٹ میں ہے۔جس سے کرہ عرض پر موسمیاتی تغیرات کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس نے ویرانیوں کو نخلستانوں اور نخلستانوں کو ویرانوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے ۔ کہیں بارشیں سیلابوں کی صورت اختیار کر جاتی ہیں تو کہیں انسانی قطرہ قطرہ ابر رحمت کیلئے دعا گو ہیں۔ کہیں سردیوں کے شب روز میں اضافہ اور تبدیلی واقع ہو رہی ہے ۔ تو کہیں انسان کو جھلسادینے والی حرارت کا دورانیہ تبدیل اور طویل ہوتا جا رہا ہے اور سطح سمندر میں اضافہ کی نوید بھی سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہے۔درخت بنی نوح انسان کیلئے خداوند کریم کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔یہ نہ صرف ایک نعمت ہے بلکہ ایک ایسی نادر چیز ہے جو ایک طرف تو اپنے وجود سے انسانی اور دیگر حیاتیاتی زندگی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور دوسری طرف ماحول کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن کرہ عوض پر بسنے والی زندگی اور ماحول کا دوست درخت اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود کلہاڑیوں کی ضربوں اور آریوں کی تھرتھراہٹ کی نظر ہو رئے ہیں۔ درختوں کی اہمیت سے آگاہ وہ ممالک جنہوں نے درختوں کی حفاظت کے خیال کو مد نظر رکھا اج حقیقی طور پر خوشحال ممالک کہلاتے ہیں کیوں کہ انھوں نے اپنے آپ کو درختوں کی کمی کے باعث آنے والی قدرتی آفات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات سے کسی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔جبکہ اس کے برعکس وہ ممالک جو اپنے سرمائے کو ضائع کرنے کے در پے ہیں اس خسارے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں یا بھگتنے والے ہیں۔

پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے ۔ جو اس قیمتی اثاثے کی عدم حفاظت کے باعث تیزی سے مسائل کی طرف بڑھ رہا ہے ۔اور صوبہ بلوچستان تو جنگلات کے حوالے سے شدید کمیابی کا شکار ہے۔ صوبے کا صرف 1.7%رقبہ جنگلات کے زیر سایہ ہے۔ جن میں نمایاں جنگلات جونیپر کے ہیں۔ یہ جنگلات پانچویں مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے چھ اضلاع زیارت، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، پشین، کوئٹہ اور قلات کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ امر قابل حیرت ہے ۔ کہ آج تک ان جنگلات کے کسی ایک متفق رقبے پر اتفاق نہیں ہو سکااور مختلف ماہرین جونیپر جنگلات کی مختلف پیمائش بتائی ہے۔ 1955کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں جونیپر کے جنگلات کارقبہ 200 مربع میل ) ایک لاکھ اٹھائیس ہزارایکڑ) بتایا گیا ہے جبکہ 1968کی رپورٹ میں اسے تین لاکھ انتیس ہزار ایکڑ اور 1981میں دو لاکھ پچاس ہزار ایکڑ بتایا گیا ہے۔ 1977کی رپورٹ میں جونیپر کے جنگلات کا رقبہ ایک لاکھ اکتالیس ہزار ایکڑ بتایا گیا ہے۔قابل توجہ امر یہ ہے کہ بلوچستان کے ان قدیم شہرہ آفاق جنگلات کے حوالے سے تحقیق کی صورت حال بہت محدود اور پرانی ہے ۔اور اعداد و شمار میں یکسانیت کو فقدان ہے۔جو سرکاری اور غیر سرکاری ادروں جو ماحول کی بہتری اور قدرتی مسائل کی حفاظت کے سلسلے میں سرگرم عمل ہیں کیلئے توجہ طلب پہلو ہے۔بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات دو پہاڑی سلسلوں پر پائے جاتے ہیں۔ جن میں توبہ کاکڑ رینج کا سلسلہ کوہ سفید سے نکلتا ہے۔جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ شمال کی طرف ژوب اور پشین کے علاقوں میں ہے۔ یہ سلسلہ ہمالیہ کا حصہ ہے۔توبہ کاکڑ رینج کے بالائی حصے پر جونیپر کے جنگلات ہیں ۔ جو ضلع قلعہ سیف اللہ اور پشین کے درمیان ہیں۔ اسی طرح وسطی براہوئی رینج کا سلسلہ متوازی پہاڑوں پر مشتمل ہے جو کوئٹہ کے شمال سے ہوتا ہوا قلات کی طرف جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تنگ وادیاں ہیں اور صوبے کی تمام اونچی چوٹیاں اس سلسلے کا حصہ ہیں۔ جن میں خلیفت ، زرغون، تکاتو، کوہ ماراناور ہربوئی شامل ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے پر زیادہ جونیپر کے جنگلات ہیں ۔

آئی یو سی این کی رپورٹ جونیپر فارسٹ ان بلوچستان پاکستان کے مطابق جونیپر کی دنیا میں پچیس اقسام پائی جاتی ہیں۔جن میں سے چار پاکستان اور انڈیا میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پائی جاتی ہیں۔ اور ان میں سے ایک جنوب کی طرف بلوچستان میں ہے۔ایکسلیسا(Excelsa)جونیپر کے جنگلات بنیادی طور پر بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔لیکن نیپال میں بھی جونیپر کی یہ قسم موجود ہے پاکستان کے علاوہ افغانستان ، ایران ، مسقظ، شام، ترکی، روس )بلقان ریاستیں ، آرمینیا وغیرہ )یونان ،یوگوصلاویہ، امریکہ ، میسیکو، سوئزرلینڈ میں بھی جونیپر کے جنگلات پائے جاتے ہیں جبکہ ایک اور رپورٹ میں جونیپر کی 54اقسام کا ذکر کیا گیا ہے۔اور پاکستان میں جونیپر کی چھ اقسام بیان کی گئی ہیں۔بلوچستان میں جونیپر کی جنگلات کو سب سے بڑا ٹکڑا زیارت کے ارد گرد موجود ہے۔جو مردم شماری رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ پچیس ہزار دو سو ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔یہ رقبے کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا جونیپر کا جنگل ہے اور اس دنیامیں کیلیفورنیا کے بعد دوسرا قدیم ترین جنگل ہے۔اسی طرح ملکی سطح پر زرغون کے علاقے میں دوسرا اور ہربوئی قلات کے مقام پر تیسرا بڑا جونیپر کا جنگل ہے۔بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات کی قسم کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ٹکڑا ہے۔ اگرچہ یہ قسم کرم ایجنسی اور پاکستان کے شمالی حصوں میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن اس کے قطعے بہت چھوٹے ہیں۔جونیپر کے درخت سطح سمندر سے سات سے آٹھ ہزار فٹ کے بلندی میں کم نمی کے حامل علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں اوسطاََ سالانہ بارش کا تناسب دو سو سے چار سو ملی میٹر ہو۔بلوچستان میں جونیپر کے جنگلات بنیادی طور پرOpen Typeہیں ۔ درخت بکھرے ہوئے اور نر اور مادہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں ۔ اوسطاََ دونوں صنفی اقسام کے درختوں کی فی ایکڑ تعداد 28ہے۔ جونیپر کے جنگلات کا شمار اپنی آہستہ افزائش کے باعث دنیا کے قدیم ترین جنگلات میں ہوتا ہے۔ جونیپر کا درخت سال میں اوسطاََ 25ملی میٹر لمبائی اور ایک ملی میٹر چوڑائی میں بڑھتا ہے۔ علاقے میں آج بھی ایسے درخت موجود ہیں جن کی عمر پانچ سے سات ہزار سال پر محیط ہونے کا اندازہ لگایا گیاہے۔

ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے چائیے جو ہمارے ملک کے فارسٹ کو بچا سکیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button