قدرت نے گلگت بلتستان کو بے شمار اور گونا گوں حسن فطرت سے نوازا ہے۔ اس حسن فطرت کا مشاہدہ کرنے اور بلند و بالا خاموش پہاڑوں کو دیکھنے کے لئے پہلے تو صرف غیر ملکی سیاح آتے تھے لیکن اب ملکی یعنی پاکستانی سیلانی بھی اس علاقے کو دیکھنے کیلئے بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے ان علاقوں میںیاسین اپنی فطری اور دلفریب لیکن دوسرے علاقوں سے قدرے مختلف حسن فطرت کو لئے ہوے ، اپنے دلفریب نظاروں ، نہایت خاموش اور خشک بلند و بالا پہاڑوں اور ان کے درمیان حد نظر وسیع میدان وادی میں ہر آنے والے کو دیدہ فرش راہ کیا ہوا تمام سیاحوں کو خوش آمدید کہتاہے۔
وادی یاسین میں سیلی ہرنگ سے درکوت اور تھوئی کے اشَقم غورو تک کوئی ستر سے زیادہ گاوں ہیں اور سلطان آباد، ان میں سے ایک نہایت ہی مختلف گاوں ہے۔ اس کا پہلا اور قدیم نام ہویلتی ہے ، اس کا جدید نام سلطان آباد ہو نے کے باوجود بہت سے لوگ آج بھی ہویلتی کہنا پسند کرتے ہیں۔ مشہور سماجی اور ہر دل عزیز شخصیت اور ایک ماہر قانون دان اور علم کا خزانہ جناب سید صاحب جان صاحب کا کہنا تھا کہ لفظ ہویلتی جو کہ ہے ویلتی سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے اُس پار یا دریا کے پار ۔ جو کہ کھوار زبان کا لفظ ہے اور زمانے کی ارتقاء کے ساتھ ساتھ یہ بھی بگڑ کر ہویلتی بن گیا اور کسی اور کا کہنا ہے کہ یہ لفظ بروشاسکی کے ہو یل چیمی یا ہو یل چی سے بگڑ کر ہو یلتی بن گیا جس کا مطلب ہے کہ اکیلے ہی زمینوں کو سیراب کرنا اس کا دلیل یہ ہے کہ ہویلتی میں آبادی نہیں تھا صرف ایک ہی گھرانہ تھا تو کسی نے کہا کہ اس کی تو مزے ہیں اکیلے ہی اپنی زمینوں کو سراب کرتا ہے یعنی ہو یل چی ، وللہ عالم بلصواب ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ صحیح معنی کیا ہے۔
کیومکہ یاسین کے زیادہ تر گاوں کے نام کا مطلب معلوم نہیں مثلاََ بر کولتی، قرقلتی، تھوئی، غوجلتی، گندائے، ہلتر ، اسی طرح بہت سے گاوں ہیں جن کا معنی کم سے کم مجھے تو نہیں آتا ۔ کہ یہ کس قدیم زبان کے الفاظ ہیں یا قدیم بورشاسکی ہی کے شاید الفاظ نہ ہوں۔ اس گاوں کے چار حصے ہیں ۔ ہویلتی کے پائین کو مت کہا جا تا ہے، اس سے اگلہ حصہ گموئی یا للے دھ کہلاتا ہے اور درمیان کا علاقہ یا حصہ ہویلتی اور آخری حصہ یاچی یا وارز کہلاتا ہے۔ مت میں برانداس کے پیر سید جلال صاحب جو کہ ایک صاحب کرامت بزرگ تھے کا ایک چشم چراغ جناب حاجی جان صاحب اقامت پزیر تھے ۔ جنھوں نے 1960 ء کی دھائی میں اپنے گھر کے نزدیک ایک مٹی کے اونچے ٹیلے پر پتھروں کی مدد سے اانگریزی حروف میں سلطان آباد لکھو ا کر اس گاوں کے جدید نام کی بنیا د رکھ دیا اور آہستہ آہستہ اس پورے گاوں (ہویلتی ) کا رجسٹرڈ نام ہی سلطان آباد پڑگیا اور اتنا مشہور ہو گیا کہ اس چھوٹے سے گاوں کے نام پر ، بڑے بڑے گاوءں مثلاََ طاوس، سندی، غوجلتی ، قرقلتی اور ہویلتی پر مشتمل پورے ایک حلقے کا سرکاری نام ہی سلطاں آباد رکھاگیا اور یہ یاسین کا حلقہ نمبر دو سلطان آباد کا حلقہ کہلاتا ہے۔
اس کے علاوہ شیعہ امامی اسماعیلی کونسلات میں سے ایک لوکل کونسل کا نام بھی لوکل کونسل سلطان آباد ہے، یہ گاؤں آبادی اور رقبہ دونوں لحاظ سے چھوٹا ہے ، سلطان آباد کے حدود آغا خان چوک سے شروع ہو تا ہے جو چراگاہوں کی نیاد پر قدیم سے تقسیم کیا گیا ہے یعنی طاوس بر ( طاوس کے نالہ) کا پانی جہاں سے گذرتا ہے وہاں سے شروع ہ کر گلنگ تک اس کے حدود ہیں ۔ یہ علاقہ تقریباََ چھ کلو میٹر سے بھی زیادہ لمبا ہے لیکن چوڑائی میں بہت کم ہے ، چونکہ اس کی چوڑائی کو دریائے یاسین کے معاون دریا، دریا سیلگا نوغ اور دریا ئے تھوئی نے کاٹ کاٹ کر کم کیا ہے اور لمبائی بہت زیادہ ہو نے کی وجہ سے پیدل چلنے والے زمانے میں کسی مسافر نے تنگ آکر کہا ہے کہ اگر اس گاوں کو پگڑ کر کھڑ ا کر دیا جائے تو آسمان تک پہنچ جائے گا۔
سلطان آ باد میں بھیر کے درخت
اس گاوں کی آبادی 1600 نفوس پر مشتمل ہے اور گھرانے تقریباََ دو سو ہیں تعلیم کا تناسب اللہ کے فضل سے یاسین میں سب سے شاید زیادہ ہے اور تقریباََ96 فی صد ہے، یہاں کے مکین بھی زیادہ تر روز گار کھیتی باڑی اور مال مویشیوں سے حاصل کر تے ہیں لیکن آج کل ملا زمتیں بھی زیادہ تر لوگ کر تے ہیں ۔ ملازمتوں میں زیادہ تر فوجی ہیں ، جو کہ تقریباََ اس طرح ہے۔ فوجی حاضر سروس کی تعداد 54 اور پنشن تقریباََ ۸۰ ، ڈاکٹڑ صرف ایک ہے ۔ لکچرار تین، وکیل دو، سکول ماسٹر حاضر سروس تقریباََ ۴۰ اور پنشنر ۱۰ سے ۱۵ ، نرسنگ ۱۶، نرسیں ۲۵، اور تعلیم یافتہ کی تناسب کچھ یوں ہے۔ ماسٹر ڈگری ہولڈرز ۳۵، گریجویٹ بی اے اور بی ایس سی ۱۰۰ سے زیادہ ہیں ، ایف اے اور ایف ایس سی ۱۵۰ سے زیادہ ، میٹرک تقریباََ ۴۰۰ اور مڈل پاس بھی کم از کم ۳۰۰ ہیں ۔ پولیس میں صرف چار بندے نوکری کر رہے ہیں ۔ اس گاوں کو سین جور ہویلتی بھی کہا جاتا ہے وہ اس لئے کہ اس گاوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں بھیر کے درخت بہت زیادہ ہوتے ہیں اور جب جون کے مہینے میں ان درختوں پر پھول کھلتے ہیں ، تو ان کی خو شبو اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ انسان مدحوش ہو جاتا ہے۔ اور طاوس سے شروع ہو کر برانداس تک ان کی خوشبو ساتھ رہتی ہے اس لئے اس کو سین جور یعنی بھیر کا ہویلتی کہا جاتا ہے۔ اس لئے آج کل جون کے مہینے میں شہد کی مکھیاں پالنے والے ان کے بناوٹی چھتوں کو سلطان آباد کے حدود میں رکھتے ہیں ۔ تاکہ بھیر کی شہد حاصل کیا جا سکے۔
میوہ جات: سلطان آباد پھلدار درختوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے ، پھلوں میں سیب، خوبانی، بادام، آڑو، آلو بخارا، ناشپاتی، گلاس (چیری)زردالو اور اخروٹ بہت مشہور ہیں۔ خوبانی کی بہت سی قسمیں ہیں ، مثلاََ دروکلی، میرزہ خانی، نو حیکان، چلی، قرومو، ٹھوشٹاکو، خرٹی، بیرانی ، ولیان، اور مو جاکی ۔ ناشپاتی کے اقسام کچھ اس طرح سے ہیں۔ چار نا غن، ناشپوتی، کھش نک، چی ماکی، شوغوری، پھی شھو، امبروز، بلاغون اور انگریزی امبروز، سیب کے اقسام یہ ہیں ، خوردوجی، شی نی بالت، دن بالت، شت بالت، فرانسی سی، اور ممو بالت وغیرہ۔
سبزی: گوبھی، آلو، مٹر، سبز لوبیہ، پالک، چائنہ پالک، بینگن، کدو، شلجم۔ ٹھپر، گونگلو، گاجر کے علاوہ حازگار، سوانچل، بار جو ہوئی، اشکرکا، ہونی مینازکی، پھی چلنگ، اشپی تنگ، وغیرہ، اور دالوں میں ، مسور، مونگ، ماش، لوبیہ، ۔
سلطان آباد میں سب سے پہلا سکول ڈائمنڈ جوبلی مڈل سکول 1960 ء میں قائم ہوا تھا، اس کا ھڈ ماسٹر سید فضل حسن جو کہ شہزادہ بلبل کے نام سے زیادہ مشہور تھے جو کہ سید جلال صاحب کے خاندان کے جناب حاجی جان صاحب کے فرزند تھے ، اس سکول کے لئے یہاں کے باشندوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کمرے بنائے تھے لیکن بد قسمتی سے جناب شاہ صاحب اور ان کے دو، دوسرے ساتھی ، حسن مشنری اور ماسٹر میر ا عظم نے سازش کر کے اس سکول کے مڈ ل سیکشن کو ہندور شفٹ کیا اور پرائمری سکشن کو یہی پر رکھا، مگر سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس سکول کو ایک سال بھی نہیں چلا سکے کیو نکہ ماسٹر میر اعظم نے بر کولتی میں ایک گورنمنٹ پرائمری سکول میں ملازمت اختیا رکیا اور حسن مشنری نے ملازمت چھوڑدیا اور جناب سید فضل حسن صاحب نے بھی سروس چھوڑ دیا اور سیاست میں چلے گئے۔ جس کی وجہ سے ایک بہترین سکول کا ستیا ناس ہو گیا ۔ کیو نکہ ان تینوں مدرسین کو بر کولتی سے دریائے تھوئی کو پار کر کے آنا پڑتا تھا اور دریا پر کوئی پل نہ تھا اس لئے ان لوگوں نے اپنے گھروں کے نزدیک اس سکول کو منتقل تو کیا لیکن چلا نہ سکے۔
لیکن اللہ کی شان دیکھئے سلطان آباد کی وہ پرائمری سکول 1970 کے عشرے میں مڈل بن گیا اور اس سکول کو بھی پائین سلطان آباد (مت) میں منتقل کیا گیا اور سلطان آباد کے غیور عوام نے اس سکول کے لئے بھی اپنی مدد آپ کے تحت عمارت تعمیر کیا اور سکول چلتا رہا اور جب 1977- 78میں ڈی جے سکولوں کو آغا خان ایجو کیشن سروسز کے نام سے جدید تعلیم کی غرض سے ایک نیا نظام دیا گیا اور مشہور ماہر تعلیم جناب دادو خان صاحب کو اس کی نظام کو سنبھالنے کے لئے مقرر کیا گیا تو تعلیم کا تیسرا دور شروع ہوا اور سلف ہلپ کی نظام کے تحت سلطان آباد کے عوام کو ایک بار پھر سے آزمایا گیا اور ان غیور عوام نے اشرف استقال کی سر براہی میں ایک بار پھر سے کمر کس لیا اور یاسین میں سب سے پہلے پروٹوٹائپ کا سکول بنانے میں پہل کیا اور آج بھی یہ سکول چل رہا ہے۔
لیکن جب یاسین میں ایک ہائی سکول قائم کر نے کے لئے AKESP کے چیر میں عاشق علی یاسین آگئے اور جگہ منتخب کرنے کی باری آئی تو سنٹر یاسین اور سندی کے عوام نے ایک جھگڑا بر پا کیا کہ سندی میں قائم کیا جائے یا سنٹر یاسین میں مگر اس بار بھی سلطان آباد کے لوگوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور ان لوگوں ( یاسین اور سندی والوں )کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہائی سکو ل کو یاسین سنٹر میں قائم کیا گیا ۔ جب کہ حق سلطان آباد کے لوگوں کا تھا، ۔ اللہ کی بڑی کرم نوازی ہے کی اس وقت سرکاری دس بستروں کا ہسپتال، گورنمنٹ کالج، ہائی سکول، کے علاوہ فوجی فونڈیشن کا ہسپتال کے علاوہ کوئی پانچ یا چھ پرائیویٹ سکول اور کالجز بھی سلطان آباد کے حدود میں قائم ہیں۔ یہ یہاں کے لوگوں کی اتفاق، اور نیک نیتی ہے جس کا صلہ ان کو اللہ نے ہر سہولت سے نوازا ہے،
جب AKDN نے AKRSP کے ذریعے دیہی تنظیموں کے قیام کر کے ترقیاتی اور سماجی بہبود کا کام کا آغاز کیا تو بھی سلطان آباد کے لوگوں نے سب پر سبقت لے گئے اور سب سے پہلا دیہی تنظیم شروع کیا اور ایک بہترین بچت کے ساتھ ساتھ کئی ترقیاتی کام بھی کیا ۔ اس گاوں کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ سب سے پہلی مٹریکولیٹ لڑکی بھی یہاں کی تھی،
جنگلات: جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ یہاں دریا کے ساتھ ساتھ ایک گھنے جنگل کا بہت بڑا رقبہ تھا لیکن دریا وں کی کٹاو کی وجہ سے یہ جنگل تباہ ہو گیا ۔ اب لوگوں کی اپنی ملکیتی زمینوں پر اگا کرعمارتی لکڑی اور جلانے کی لکڑی بھی حاصل کیا جاتا ہے اور جن کے پاس اپنے درخت نہیں ہیں ان کے لئے ایندھن کا کام بڑا مشکل ہے اور سردیوں کے لئے دور راز نالوں میں جاکر انتہائی مشکل سے چند من لکڑی حاصل کیا جاتاہے ، لیکن آج کل پھر بھی دوسرے علاقوں سے لکڑی لا کر انتہائی مہنگے داموں یاسین میں فروخت کیا جاتا ہے، ورنہ سردیوں میں بہت ہی مشکل ہو،
پینے کا پانی: اللہ کا شکر ہے اور آغا خان پلاننگ اور بلڈنگ سروس پاکستان کے شکر گذار ہیں کہ WASEP کی مدد سے دریا کے کنارے کنواں کھود کر لفٹ ایریگیشن کے ذریعے انتہائی شفاف پانی کا بندوبست کیا گیا ہے ۔
نہری پانی: اس گاوں سے دو بڑے بڑے پانی کے چینل گذرتے ہیں جو کہ سلطان آباد کے علاوہ طاوس بالا اور پائین کو سیراب کرتے ہیں ایک چینل کو کوہل پائین اور دوسرے کو کوہل بالا یا تھمو دلاح کہا جاتاہے۔ کیونکہ کوہل بالا کو راجہ شاہ عبد الرہیم جن کو یاسین کے عوام شاہ عبدالرحمت خان کے نام سے یاد کرتے ہیں نے تعمیر کرایا تھا ۔کہتے ہیں کہ اس کام کو شروع کر نے سے پہلے راجہ نے سلطان آباد، اس وقت کے ہویلتی کے عوام کو عشدر امان لال کے گھر پر جمع کیا اور ان سے اس نہر کی کھدائی کے لئے اجاذت مانگا اور کہا کہ آج تک لوگ مجھ سے
مانگتے تھے لیکن آج میں آ پ سے اس نہر کی کھدائی کے لئے اجاذت مانگتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پہلے ہویلتی کی زمینیں آباد ہو نگی اور بچا ہوا پانی طاوس والے استعمال کرینگے۔ اور اس کوہل یا نہر کی کھدائی میں راجہ صاحب نے خود بھی کام کیا ہے اور اس کو کامیاب کیا ۔ آج یہ نہریں اتنی چوڑی اور گہری ہیں کہ اگر کوئی جانور اگر اس میں گر جائے تو پھر شاید طاوس میں ہی نکل جائے۔ پائین نہر نے سلطان آباد کے بہت سے معصوم بچوں کو بہا کر طاوس میں نکالا ۔ لیکن سلطان آباد کے لوگ پھر بھی کچھ نہیں کہتے جب کہ طاوس کے لوگوں نے سلطان آباد کے عوام کو پینے کے نلکے کا پانی بھی بند کیا ، آخر میں WASEP کا ایک بار پھر شکریہ کہ ان کی مدد سے ہمیں پینے کا صاف پانی میسر آیا ، اور سلطان آباد کے عوام سے اپیل ہے کہ وہ اپنے سابقہ رویات کو بر قرار رکھتے ہوے آپس میں اتفاق اور اتحاد سے اور محبت سے رہیں ۔ اللہ ہم سب کا ہامی و ناصر ہے