شعر و ادب
عبدالحفیظ شاکر کی کتاب ‘زندگی’ کی تقریبِ رونمائی
جمشید خان دکھیؔ و غلام عباس نسیم
5نومبر 2016کے دن سہ پہر 2:00بجے فور سیزنز ہوٹل جوٹیال گلگت میں حلقہ ارباب ذوق (حاذ)کے زیر اہتمام معروف شاعر عبدالحفیظ شاکر کی شعری کتاب ’’ زندگی‘‘ کی رونمائی کی تقریب منعقد ہوئی جس میں اہل ذوق کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔اس تقریب میں معروف شینا /اردو شاعر اور سکریٹری واٹر اینڈ پاور جی بی جناب ظفر وقار تاج نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔ محفل میں جناب ثنا اﷲ خان سکریٹری تعلیم اور سابقہ نگران وزیر اعلیٰ جناب شیر جہان میرکو بھی مہمان خصوصی اور میر محفل کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن بوجوہ شرکت نہ کرسکے۔ اس تقریب میں مہمان خصوصی جناب ظفر وقار تاج کے ساتھ صوبائی وزیر جناب اکبر تابان نے بھی شرکت کی جس سے ان کے ادبی ذوق کا پتہ چلتاہے۔موصوف خود بھی ایک اچھے شاعر اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔اس محفل کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں موتی جامع مسجد گلگت کے خطیب مولانا خلیل قاسمی بھی شریک ہوئے جس سے شعر و ادب سے انکی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
راقم نے نظامت کے فرائض انجام دئے اور غلام عباس نسیم نے معاونت کی۔اس محفل میں ریٹائرڈ افیسران جناب میرافضل ،جناب محمد حنیف،جناب مظفر عباس بھی شریک ہوئے جبکہ جناب ولایت نور کنزرویٹر گلگت سرکل، جناب محمود غزنوی کنزرویٹر دیامر سرکل،اوپن یونیورسٹی کے دلدار صاحب، قراقرم یونیورسٹی کے ڈاکٹر انصار مدنی، نعمان بٹ اور پروفیسر محفوظ اﷲ ، سابقہ نگران صوبائی وزیر عنایت اﷲخان شمالی صاحب ،ٹیچرز ایسوسی ایشن کے شاہد اور نفیس صاحب ،ڈسٹرکٹ کنڑیکٹر ایسوسی ایشن کے صدر جلال احمد، معروف قلم کاراحمد جامی سخی ،امجدسدھوزئی، ہدایت اﷲ اختر،معروف صحافی اسرار احمد اسرار اور عیسیٰ حلیم کے علاوہ بہت سے لوگ شریک ہوئے۔ ریڈیو پاکستان گلگت کے پہلو میں یہ تقریب ہوئی لیکن دعوت کے باوجودان کے کسی نمائندے کو شرکت کی توفیق نہیں ہوئی ۔اس موقع پر اس کتاب کے کمپوزر محمود عالم ، اکبر حسین ہنزہ پرنٹنگ پریس اور نور کیبل کے احباب کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیاجن کی مساعی سے یہ کتاب منظر عام پر آئی۔
اس دوران محفل مشاعر ہ کابھی اہتمام کیاگیا تھا جس میں پروفیسر محمد امین ضیاء ، عبدالخالق تاج ،غلام عباس نسیم،محمد نظیم دیا، اشتیاق یاد،محمد عیسیٰ حلیم ،اقبال حسین اقبال ،شیر عالم شہباز،شاہ جہان مظطر ،سیف الرحمن آہی،رضا عباس تابش، نذیر حسین نذیر ،فاروق قیصر ،تہذیب برچہ،حسین علی،مظفر حراموشی اور راقم جمشید خان دکھیؔ کے علاوہ دیامر رائٹر فورم کے صدر اور معروف شاعر حلیم فیاضی نے بھی شرکت کی اور اپناشینا/اردو کلام سناکر لوگوں سے خوب داد سمیٹی جبکہ بعض شعراء نے عبدالحفیظ شاکر کو منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا۔
جن قلم کاروں نے عبدالحفیظ شاکر کی کتاب پر تبصرہ کیا ان میں معروف قلم کار احمد سلیم سلیمی، یونس سروش اور پروفیسر محمد امین ضیاء کے نام شامل ہیں۔یاد رہے کہ عبدالحفیظ شاکر حاذ کے ایک معروف شاعر اور سٹیج کے نامور فنکار اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔آپ 15-09-1965کو گلگت میں پیدا ہوئے آپ معروف عالم دین اور جنگ آزادی گلگت کے خاموش مجاہد مولانا ابو لفراح کے صاحبزادہ ہیں۔علاقے کے امن پسند علمائے دین میں ان کے والد محترم کا شمار ہوتاتھا۔شاکر کے والد محترم بھی درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ تھے۔مجھ سمیت ہمارے حلقے کے سینئر ز کے آپ استاد رہ چکے ہیں۔اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حفیظ بھی درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئے۔ایک اچھے شاعر اور مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک مشہور کالم نگار ،شینا کے منجھے ہوئے ڈرامہ نگار اور سٹیج کے نامور فن کار بھی ہیں۔
آپ نے 18سال کی عمر میں شعر و شاعری شروع کی اور ایک قلیل مدت میں نام کمایا۔آپ کی پہلی شعری کتاب’’میں نہیں ہوں‘‘2008میں منظر عام پر آچکی ہے جبکہ’’ زندگی ‘‘ان کا دوسرا شعری مجوعہ ہے۔
انکے کلام میں پیار،محبت اور امن و آشتی کا پیغام ہے۔ حفیظ مذہبی منافرت اور معاشرتی ناہمواریوں سے نہ صرف نالاں نظر آتے ہیں بلکہ انکے خلاف پوری قوت سے قلمی توانائیاں بھی صرف کررہے ہیں۔آپ نفرت کے قید خانے سے نکل کر الفت کا سورج بن کر مشرق سے طلوع ہونا چاہتے ہیں تاکہ محبت کی شعاعوں سے سارا علاقہ منور ہو جائے۔حفیظ شاکر حلقے کے سکریٹری اطلاعات کے علاوہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ان کاکلام سوزو گداز کی دولت سے مالامال ہے۔ان کا اسلوب نہ صرف صاف ہے بلکہ ان کے اشعار شوخی اور ظرافت سے بھی لبریز ہیں۔کسی زمانے میں غلام عباس نسیم، محمد نظیم دیا اور حفیظ شاکر کے مزاحیہ خاکے شائقین کے دل موہ لیتے تھے۔آپ کویہ بھی بتاتاچلوں کہ حاذ میں بھی معاشرہ کے دوسرے شعبوں کی طرح مختلف مزاج کے لوگ ہیں۔عزیزم ظفر وقار تاج نے شاکر کو مجموعہ اضداد کہاہے جس میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں لیکن حلقے کااپنا اصول بھی یہ ہے کہ ہم تمام شعراء اورقلم کاروں کو انکی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ مجھ(دکھیؔ ) جیسا شاعر بے کتاب اور گہنگار اس حلقے کا جنرل سکریٹری ہے اور میرے سینئر اور جونےئر پھربھی قبول کئے جار ہے ہیں۔ادب کے میدان میں شاکر کی ترقی کے امکانات بے حدوسیع ہیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں آسمان ادب میں انکی پرواز بہت بلند ہوگی۔مہمان خصوصی کی آمد کے ساتھ ہی دو ننھی بچیوں نے صوبائی وزیر جناب اکبر تابان اور مہمان خصوصی ظفر وقار تاج کو پھولوں کے گل دستے پیش کئے۔بعدا زاں حفیظ شاکرکے صاحبزادے شاکر حفیظ نے اپنے والد گرامی کانعتیہ کلام سنایا اور داد و تحسین حاصل کی ۔صوبائی وزیر اکبر تابان،مہمان خصوصی ظفروقار تاج اورپروفیسر محمد امین ضیاء اور صاحب کتاب نے اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کر تالیوں کی گونج میں کتاب ہذا کی رونمائی کی رسم ادا کی ۔سب سے پہلے کتاب کے مصنف اور شاعر جناب حفیظ شاکر نے تمام مہانوں کا شکریہ ادا کیا۔ آپ نے کہا کہ میدان ادب میں مہمان خصوصی ظفر وقار تاج جمشید خان دکھیؔ اور اپنے بھائی یونس سروش سے بہت کچھ سیکھاتاج اور ضیاء نے میری پذیرائی کی اورمیرے جگری یار غلام عباس نسیم کا مجھے اس مقام تک پہنچانے میں بڑا ہاتھ ہے۔جناب شیربازبرچہ اعتماد ی فدا علی ایثار ،احمد سلیم سلیمی ،سبطین شیرازی ،امجد سدھوزئی ،مولانا عثمان غنی ،سیف الرحمن آہی اور ان تمام دوستوں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس کتاب کے حوالے سے اپنی آراء سے نوازا ۔اس موقع پرپروفیسر محمد ضیاء نے اظہار خیال کرتے ہوئے عبد الحفیظ شاکر کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دیتے ہوئے شاکر کو اپنی مثال آپ قرار دیا۔آپ نے کہا کہ زندگی کو سمجھنے کے لئے اپنے نفس کو پہچاننا ضروری ہے۔ زندگی ایک بارملتی ہے اس لئے اسے خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے ۔آپ نے کہا کہ سابقہ حکومت نے حاذ کی بھرپور مالی مدد کی جس کی وجہ سے ادبی قافلہ رواں دواں ہے۔معروف عالم دین مولاناخلیل قاسمی نے اس موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غلام عباس نسیم اور حفیظ شاکر دونوں میرے استاد ہیں،میں ان کا شاگرد ہوں اور دونوں میرے لئے واجب لاحترام ہیں۔ آپ نے شاکرکی کتاب’’ زندگی‘‘سے اشعار پڑھے ۔آپ نے کہا کہ انسان مختصر زندگی میں نیک اعمال کے ذریعے ابدی سکون و راحت کی زندگی پاسکتاہے۔علاقے میں خوشگوار ماحول کے قیام کے لئے آئندہ حاذ کے ساتھ بھرپور تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
اس موقع پر صوبائی وزیر جناب اکبر تابان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زندگی آخرت کی کھیتی ہے اس لیے اسے خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت نے ادب اور کلچر کی ترقی کے لئے کرڑوں روپے مختص کیے ہیں جس سے حاذ بھی استفادہ کرے گا۔آپ نے حفیظ شاکر کے لئے مبلغ20,000/-روپے کے عطیہ کا اعلان کیا ۔معروف قلم کارو مدرس جناب یونس سروش نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں آج جس مقام پر فائز ہوںیہ سب کچھ حفیظ شاکر کے مرہون منت ہے۔ آپ نے ہمیشہ ایک استاد کی طرح میری سرپرستی کی ہے۔آپ نے زیر تبصرہ کتاب کے بارے میں سیر حاصل تبصرہ کیا اورگلگت بلتستان کے ادبی سرمایہ میں اسے ایک خوبصورت اضافہ قرار دیا۔
پروفیسر احمد سلیم سلیمی نے کتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گلگت کے بے رنگ ادبی ماحول میں شاکر صاحب کی ’’زندگی‘‘ نے کچھ ہلچل مچائی ہے امید ہے یہ سلسلہ جاری رہے گااور مزید کتب کی اشاعت بھی ممکن ہوگی اور ادبی رنگ ڈھنگ اور گہرے ہوں گے۔اگر یہ سلسلہ جاری رہیں تو مجھے یقین ہے کہ لوگ جدید میڈیاکی جادو نگری سے نکل کر کتب بینی کی طرف لوٹ آئیں گے۔ اسی سے ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ سکتے ہیں اسی سے ہماری قدریں اور ہماری ثقافت زندہ رہ سکتی ہے۔آپ نے سرکاری و غیر سرکاری اداروں پر زور دیا کہ معیاری کتب کی اشاعت کے لئے قلم کاروں کی مدد کی جائے۔
آخر میں مہمان خصوصی جناب ظفر وقار تاج کو دعوت خطاب دی گئی جو خود شنا/اردو کے قادرلکلام شاعر ہیں اور دو کتابوں کے مصنف بھی۔صرف اردو نہیں بلکہ شنامیں ان کا طوطی بولتاہے۔شناشاعری کو آپ جس انداز سے پروان چڑھا رہے ہیں لائق ستائش ہے۔آپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پروفیسر احمد سلیم سلیمی نے میرے احساسات کی ترجمانی کی۔حلقہ کا دائرہ کار وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔آپ نے حفیظ شاکر کو کتاب کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ حفیظ نے اپنے مشاہدے اورتجربے سے ایک مخصوص بحر میں شاعری کرکے ایک پختہ کار شاعر ہونے کا ثبوت دیاہے ۔آپ کی شاعری سلیس اورعام فہم ہے جو قارئین کو باآسانی سمجھ آتی ہے۔شاکر نے اپنی کتاب میں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے۔اپنی شاعری میں روحانیت کے ساتھ ساتھ سائنٹیفک انداز میں بھی باتیں کی ہیں۔آپ نے شاکر کے لئے مبلغ25000/- روپے عطیہ کا اعلان کیا۔اس موقع پرڈسٹرکٹ کنٹریکٹر ایسوسی ایشن کے صدر جلال احمد نے بھی حفیظ کو نقد5000/-روپے کا عطیہ پیش کیا۔یاد رہے کہ یہ کتاب جی بی بکُ سٹالوں پر خصوصی رعایت پر دستیاب ہے۔شام کی نماز کے بعد بھی جاری رہنے والی یہ تقریب تقریباً 6بجے کے بعدتناول ماحضر کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔زندگی کے حوالے سے جمشید خان دکھیؔ کے درج ذیل اردو قطعہ کے ساتھ اجازت چاہیں گے:
علم والے اک مہربانی کریں
زندگی پر اب نظر ثانی کریں
کچھ نہ معنی ہے و لیکن ،زندگی
ایک موقع ہے کہ بامعنی کریں