گلگت بلتستان

چیف کورٹ نے صوبے بھرمیں سرکاری اداروں میں کی جانے والی بھرتیوں کو خواتین، معذوروں اور اقلیتوں کے کوٹے کومشتہر نہ کرنے پر کالعدم قرار دیا

گلگت (ارسلان علی) سرکاری ملازمتوں میں خوا تین، معذوروں اور اقلیتوں کے کوٹے کو واضح طور پر مشتہر نہ کرنے پر چیف کورٹ گلگت بلتستان نے صوبے بھرمیں حالیہ مہینوں میں اخبارات کے ذریعے مشتہر کی جانے اور ان پرکی جانے والی تقرریوں کو کالعدم قرار دیئے ہیں۔ چیف کورٹ گلگت بلتستان کے چیف جج جسٹس صاحب خان اور جسٹس محمد عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے مختصر فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں گزشتہ کہیں مہینوں سے سرکاری اداروں میں کی جانے والی بھرتیوں کو خواتین ،معذروں اور اقلیتوں کے کوٹے کو واضح طور پر اشتہارات میں زکر نہ کرنے پر کالعدم قرار دیا ہے۔

گلگت بلتستان میں حالیہ دنوں مشتہر ہونے والی خالی اسامیوں پر خواتین ،معذوروں اور اقلیتوں کیلئے مختص کوٹہ کو شامل نہ کرنے اور قوانین (SROs) کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے خلاف معذوروں کے لئے کام کرنے والے معروف سماجی شخصیت ارشاد کاظمی ،سیدہ سلیمہ خانم اور تحریم بتول نے خواتین ،معذوروں اور اقلیتوں کے کوٹہ پر عمل درآمد کے حوالے سے چیف کورٹ گلگت بلتستان میں 450سے زائد آسامیوں پر تقریریاں روکوانے اور جہاں تقریریاں کی گئی تھی ان کو کالعدم قرار دینے اور آئندہ تمام اسامیوں پر کوٹہ پر عملد آمد کے حوالے سے 2مختلف پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ اس کورٹ کی مدعین کی جانب سے ایڈووکیٹ منصور شہید خاور جبکہ حکومت نے مقدمے کے خلاف پیروی کی ۔ان اسامیوں میں محکمہ تعلیم کی 14اسامیاں ،محکمہ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کی کل 122،کنزرویشن آف فاریسٹ بلتستان ریجن کی 10اسامیاں ،اکنام ٹرانسفیوژن گلگت بلتستان کی 24اسامیاں ،محکمہ صحت و بہبود آبادی کی تقریباً120سے زائد اسامیاں ،پولیس ڈیپارٹمنٹ کی 20اسامیاں محکمہ زراعت واٹراینڈ منیجمنٹ کی کل 67اسامیاں ،محکمہ تعلیم دیامر استور ریجن کی تمام آسامیوں اور دیگر محکموں کی تمام اسامیوں کو جہاں بھرتی کی گئی ہوں اور جو مشتہر کی گئی ہوں کو دوبارہ کوٹہ کا باقائدہ طور پر ذکر کرکے مشتہر کرنے اور جہاں تقریاں کی گئی ہیں ان کو کالعدم قراردینے کا حکم جاری کردیا ہے ۔

اس فیصلہ میں جنرل پوسٹوں پر تقر یاں کرنے سے قبل معذور ،خواتین اور اقلیتوں کے کوٹہ کو پر کرنے کی حکم جاری کی گئی ہے ۔اس حوالے سے معروف قانون دان و اس کیس کے مدعین کی جانب سے وکیل خاور ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ گلگت بلتستان کے تاریخ کا بہت بڑ فیصلہ ہے اور یہ قانون 1989ء سے گلگت بلتستان میں لاگو ہے۔ وفاق اور محکمہ سروسز گلگت بلتستان نے کوٹہ پر عمل درآمد کروانے کے لئے مختلف اوقات میں احکامات جاری کئے تھے جن کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جارہاہے۔ واضح رہے گلگت بلتستان کی کل آبادی کے 51فیصد خواتین ، معذورکل آبادی کے 15فیصد اور اقلیتوں کی تعداد 1فیصد بنتی ہے۔ یاد رہے گزشتہ ماہ اس حوالے سےوزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے خواتین ،معذوروں اور اقلیتوں کے کوٹہ پر عملدآمد کروانے کے واضح احکامات جاری تھے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button