کالمز

ایک صحافی کو حراساں کرنے کا نیاء طریقہ

مورخہ ۲۰ جنوری ۲۰۱۶ ؁ء کو محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کی طرف سے مقامی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کیا گیا تھا جس کا متن کچھ یوں تھا "مسمی شبیر سہام ، صحافی ڈیلی ٹائمز اسلام آباد کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ نے مورخہ ۲۸ نومبر ۲۰۱۶ ؁ء کو ڈیلی ٹائمز اخبار میں ایک بے بنیاد اور خود ساختہ خبر چھاپی ہے جس سے گلگت بلتستان کے عوام اور معزیز ممبران گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان کونسل کی پگڑیا ں اچھالنے کی وجہ سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے۔

اس بارے میں صوبائی حکومت نے معاملے کی چھان بین کے لئے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے سامنے آپ نے پیش ہونا تھا ۔ اس بابت آپ کو محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کی چھٹی نمبر(Inquiry)، SO (P) -1(30) 14 ۲۰ دسمبر ۲۰۱۶ ؁ء بذریعہ وزارت داخلہ اسلام آباد، میں متعلقہ کمیٹی کے سامنے مورخہ ۲۸ دسمبر ۲۰۱۶ ؁ء کو تمام ثبوتوں کے ساتھ پیش ہونے کا کہا گیا تھا لیکن آپ حاضر نہیں ہوئے۔

محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کی ایک اور چھٹی نمبر , (Inquiry) SO(P) -1(30)14مورخہ ۱۰ جنوری ۲۰۱۷ ؁ء بذریعہ اسلام آباد ایڈمنسٹریشن وزرات داخلہ کے ماتحت حکم دیا گیا کہ کمیٹی کے روبرو مورخہ ۱۷ جنوری ۲۰۱۷ ؁ء کو حاضر ہو جاؤ لیکن آپ پھر بھی کمیٹی کے سامنے حاضر نہیں ہوئے۔

اس لئے بذریعہ اشتہار ہذا آپ کو یہ آخری موقع دیا جاتا ہے کہ مورخہ ۲۷ جنوری ۲۰۱۷ ؁ء کو بروز جمعہ متعلقہ کمیٹی کے روبرو دفتر سیکریٹری داخلہ گلگت بلتستان میں تمام ثبوتوں (اگر کوئی ہے ) کے ساتھ پیش ہوجائیں ۔ حاضر نہ ہونے کی صورت میں آپ کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی جائے گی۔ منجانب۔ چیرمین انکوائری کمیٹی گلگت بلتستان ۔ "

محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کو یہ اشتہار شائع کرنے کی منطق یہ بتا ئی جاتی ہے کہ اسلام آباد میں مقیم گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے رپورٹر شبیر سہام کے نام سے ڈیلی ٹائمز میں مورخہ ۲۸ نومبر ۲۰۱۶ ؁ء کو ایک سٹوری چھپی تھی جس میں انہوں نے شالیمار پولیس سٹیشن میں درج ہونے والے ایک ۱۴ سالہ لڑکی کے اغواء کیس کا حوالہ دیکر لکھا تھا کہ اسلام آباد میں ایک گینگ ایسا ہے جو غریب اور کم عمر لڑکیوں کو جنسی کاروبار کے مقصد سے سپلائی کرتا ہے۔ یہ گینگ اس مقصد کے لئے کسی بھی لڑکی کو کسی با اثر شخص کے ہاں ایک مہنے یا کچھ دنوں کے لئے کام کرنے والی کی شکل میں بھیج دیتا ہے اور اس کے عوض ۷۰ ہزار کے لگ بھگ پیسے وصول کرتا ہے۔ اس کیس کے دو ملزمان پولیس نے پکڑے تھے جنہوں نے کئی انکشافات بھی کئے تھے مگر پولیس نے بعد ازاں ان دونوں کو کسی دباؤ کے تحت رہا کردیا۔ انہوں نے اس خبر میں یہ بھی الزام لگایا تھا کہ گلگت بلتستان کونسل اور قانون ساز اسمبلی کے کچھ اراکین، حکومتی عہدیدار اور بااثر افراد بھی اس دھندھے میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔

اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد گلگت بلتستان کے عوامی حلقے اور اپوزیشن جماعتیں سیخ پا ہوئیں اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس خبر کی صداقت کو جاننے کے لئے تحقیقات کرائی جائیں۔ اس مقصد سے گلگت بلتستان کی حکومت کی ہدایات پر محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کے زیر نگرانی ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ متعلقہ رپورٹر نے بھی حامی بھر لی تھی کی وہ کسی بھی مجاز فورم کے سامنے پیش ہوکر ثبوت پیش کرنے کے لئے تیار ہے۔

کمیٹی نے جب متعلقہ رپورٹر کو گلگت میں آکر کمیٹی کے روبرو پیش ہوکر ثبوت پیش کرنے کے لئے لیٹر لکھا تو متعلقہ رپورٹر نے گلگت آنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ گلگت میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ رپورٹر نے سوشل میڈیا کے زریعے بعض بیوروکریٹس اور سرکاری لوگوں پر الزام لگا یا کہ ان کو تردید شائع کرنے کے لئے دھمکیا ں دی جارہی ہیں۔

انہوں نے کمیٹی سے گزرارش کی کہ وہ اسلام آباد میں آکر میرا موقف لے لیں۔ کمیٹی نے اسلام آباد یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیا کہ کسی ایک شخص کاموقف لینے کے لئے کمیٹی کے تمام اراکین کا گلگت سے اسلام آباد جانا کمیٹی کی تو ہین ہے۔ اس کے بعد کمیٹی نے ایک اور خط لکھ کر پھرمتعلقہ رپورٹر کو کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کی دعوت دی۔ جس پر متعلقہ رپورٹر نے مذکورہ وجوہات کی بنا پرگلگت آکر کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا ۔جس کے بعد کمیٹی نے مقامی اخبارات میں مذکورہ اشتہار شائع کیا ۔ اشتہار میں کمیٹی نے پھر سے متعلقہ رپورٹر کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی دعوت دی ہے اور آخر میں متنبہ کیا ہے کہ اگر رپورٹر ۲۷ جنوری ۲۰۱۷ ؁ء تک اگر کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی جائے گی۔

اس اشتہار کے پڑھنے کے بعد مجھ یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ آخری جملے کی روشنی میں کمیٹی کا وہ یکطرفہ فیصلہ کیا ہوگا؟۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی کمیٹی کو سزا سنانے کا اختیار ہوتا ہے؟ ہماری دانست کے مطابق کوئی بھی کمیٹی صرف رپورٹ پیش کر سکتی ہے وہ کسی کو سزا نہیں سنا سکتی۔ کسی کو سزا سنانے کا اختیار صرف اور صرف عدالت کے پاس ہوتا ہے۔ ہا ں کمیٹی کی طرف سے یکطرفہ کارروائی صرف یہ ہوسکتی ہے کہ کمیٹی یہ رپورٹ تیار کرکے حکومت کو پیش کر سکتی ہے جس میں یہ بتا یا جاسکتا ہے کہ چونکہ متعلقہ رپورٹر کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا اس لئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ رپورٹر کی طرف سے شائع شدہ خبر جھوٹی اور بے بنیاد تھی۔

کسی خبر کی جھوٹی ہونے کے دو ہی ثبوت ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ متعلقہ اخبار اس خبر کو اپنی دانستہ یا نا دانستہ غلطی قرار دیکر اس پر معافی مانگے اور تردید شائع کرے دوسرا یہ کہ کسی مجاز کمیشن یا کمیٹی کی طرف سے چھان بین کے بعد اس کو جھو ٹی قرار دیا جائے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ چھان بین کی کارروائی درست طریقے سے کی جائے۔ اگر خبر دینے والا صحافی کمیٹی کے سامنے پیش ہی نہیں ہوا ہے تو اس بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خبر جھو ٹی ہے یا سچی ہے؟

لہذا کمیٹی متعلقہ رپورٹر کا موقف سنے بغیر رپورٹ تیار کیسے کرے گی؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون کسی کمیٹی کو یہ اختیا ر دیتا ہے کہ کسی شخص کو زبردستی اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ کمیٹی کے رو برو پیش ہو اور لازمی طور پر اپنا موقف پیش کرے؟

ہم نے اس ضمن میں جب قانون کے ماہرین سے رائے لی تو ان کہنا تھا کہ کسی شخص کو ماسوائے مجاز عدالت کے کوئی کمیٹی مجبور نہیں کر سکتی ہے کہ وہ اس کے سامنے پیش ہو۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب متعلقہ شخص یہ خدیشہ ظاہر کرے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔جیسے مشہور میمو گیٹ کیس میں کئی اہم فریقین کو ان کی سہولت کی خاطر سکائپ پر ان کا موقف لیا گیا حالانکہ اس کی انکوئری کے لئے عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔ کیونکہ قانون کی رو سے کوئی بھی شخص جب تک کسی مجاز عدالت سے سزا یافتہ نہ ہو تب تک وہ یہ حق رکھتا ہے کہ ان کے ساتھ ایک معزیز انسان کا جیسا سلوک کیا جائے ۔ کمیٹی آئین کے ایکٹ کی رو سے بنی ہو یا عدالتی کمیشن ہو دونوں صورتوں میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ متعلقہ شخص اپنا بیان دیتے وقت خوف یا دباؤ میں نہیں ہوگا۔وہ شخص جیسی سہولیات مانگتا ہے وہ بھی فراہم کی جائیں گی تاکہ اس پر دباؤ ہونے کا شبہ نہ ہو۔ ان شرائط کے پورے کئے جانے کے بعد ہی اس کو غیر جانبدار تحقیق کہی جا سکتی ہے۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی طرف سے متعلقہ صحافی کو یہ پیشکش کی گئی تھی کی اس کے تمام اخراجات اور سیکورٹی کی زمداری گلگت بلتستان کی حکومت براداشت کرے گی ۔ اس کے باوجود صحافی کا کہنا ہے کہ وہ کمیٹی کے سامنے گلگت آکر پیش نہیں ہو سکتا کیونکہ اسلام آباد سے گلگت آنا ان کے لئے خطرے سے خالی نہیں کیونکہ ان کو پہلے ہی جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاچکی ہیں۔ صحافی کا یہ بھی موقف ہے کہ گلگت نہ آنے کی واضع وجوہات بیان کرنے کے باوجود حکومت کا اس بات پر بضد ہونا کہ صحافی لازمی طور پر گلگت آجائے ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی ، یہ ایک صحافی کو حراساں کرنا اور ان پر دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے۔

انکوئری کمیٹی کا اس مسلے کی چھان بین کے لئے گلگت سے اسلام آباد جانے کو اپنا انا کا مسلہ بنانا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ کمیٹی نے یہ کہہ کر سب کو حیرت زدہ کردیا ہے کہ اس معاملے کی چھان بین کے لئے کمیٹی کا گلگت سے اسلام آباد جانا کمیٹی کی تو ہین ہے۔عام حالات میں ہےئر کٹنگ کے لئے بھی گلگت بلتستان کے حکمران اور بیوروکریٹس اسلام آبادجاتے ہیں مگر جب صحافی نے اپنی مجبوری کی وجہ سے کمیٹی سے اسلام آباد آنے کا مطالبہ کر دیا تو کمیٹی میں شامل بیوروکریٹس کی توہین ہو تی ہے۔ کسی بھی تحقیقاتی کمیٹی کا کام ہی تحقیق کرنا ہے چاہے اس کے لئے اس کو موقع وارداد میںیا متعلقہ لوگوں کے گھر ہی جانا کیوں نہ پڑے۔ اس کمیٹی نے صرف صحافی سے مواد نہیں لینا ہے بلکہ شالیمار پولیس سٹیشن اسلام آباد میں اغوا ء کا کیس درج کرانے والی بچی، اس کیس کے دو نامزد ملزمان اور متعلقہ پولیس حکام کا بھی موقف لینا ہے جو کہ تمام کے تما م اسلام آباد میں ہی مقیم ہیں۔ اگر صرف صحافی کے لئے نہ سہی مگر دیگر کرداروں کی چھان بین کے لئے بہر صورت اسلام آباد تو جانا پڑے گا۔

اس میں کمیٹی کے دائرہ اختیار اور دائرہ کار کا بھی سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ جسے مشہور شاہین ائیر لائن کیس میں ۱۶ جنوری ۲۰۱۷ ؁ء اور ۱۹ ستمبر ۲۰۱۶ ؁ء جبکہ جیو نیوز کے کیس میں۵ اپریل ۲۰۱۶ ؁ء کو آئین پاکستان کا آرٹیکل ۱(۲) کا حوالہ دیکر سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے یہ حکم جاری کیا تھا کہ گلگت بلتستان کی عدالت سے جاری کسی فیصلہ کاپاکستان کے کسی دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والے شہری پراطلاق نہیں ہوتا ہے۔

ڈیلی ٹائمز اخبار کا تعلق گلگت بلتستان سے نہیں ہے اور متعلقہ رپورٹر بھی گلگت بلتستان میں مقیم نہیں ہے۔ شبیر سہام کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے والد کا تعلق بلتستان سے ہے جبکہ ان کی اپنی پیدائش عراق میں ہوائی ہے اور وہ بچپن سے اسلام آبادمیں مقیم ہے۔ ایسے میں گلگت کی کوئی کمیٹی اسلام آباد جاکر ان سے تحقیق کیسے کرے گی؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب کسی بھی کمیٹی کو سزا دینے کا اختیا ر نہیں ہوتا وہ صرف رپورٹ ہی پیش کر سکتی ہے تو ایسے میں وہاں جاکر اس معاملے کی چھان بین کرنے کا اختیار کمیٹی کوکیسے مل سکتا ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسلہ کا حل کیاہے؟ اس کا عام سا حل یہ ہے کہ کوئی بھی خبر کو غلط ثابت کرنے کے لئے سب سے پہلے جن اداروں یا شخصیات پر الزام لگایا گیا ہے وہ اس خبر کے حوالے سے اپنا موقف پریس کانفرنس کے ذریعے واضع کریں، دوسرا یہ ہے کہ صحافی کو لیگل نوٹس دیا جائے تا کہ وہ ایک ہفتے میں خبر پر ڈٹے رہنے یا خبر کی تردید شائع کر نے کو تیار ہوجائے۔ اگر وہ تردید شائع کرتا ہے تو خبر بے بنیا د تصور ہوگی اگر تردید نہیں شائع کرتا ہے تو اس رپورٹر اور اخبار کو فریق بناکر گلگت بلتستا ن کی حکومت یا جی بی قانون سازاسمبلی اور کونسل، گلگت بلتستان یا پاکستان کی کسی معزیز عدالت میں ہتک عزت کا دعوی دائر کرسکتی ہے۔ اس کے بعد کورٹ میں قانون کی رو سے مسلے کی چھان بین ہوگی اور اس کا نتیجہ نکلے گا۔

اس کے علاوہ باقی تمام کوششیں وقت ضائع کرنے اور ایک صحافی کو حراساں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس مسلہ کا حل بہر صورت نکلنا چاہیے کیونکہ خبر اگر درست ہے تو متعلقہ لوگوں کو سزا ملنی چاہے اگر خبر درست نہیں ہے تو یہ گلگت بلتستان کی ایک منتخب اسمبلی، کونسل اور عوامی نائندوں کو بد نام کرنے کی سازش ہے جس کو ہر صورت میں بے نقاب ہونا چاہئے اور زمداروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اس کا م کے لئے بہترین فورم عدالت ہے نہ کہ کوئی کمیٹی؟ مگر گلگت بلتستان کی حکومت عدالت میں جانے کی بجائے کمیٹی بنا کر صحافی کو حراساں کرنے پر تلی ہے ۔ اپنی ساکھ کوبچانے کے لئے گلگت بلتستان حکو مت کی طرف سے مختلف بہانوں سے متعلقہ صحافی کو حراساں کرنا اور اس پر دباؤ ڈالنا آزادی اظہار رائے اور صحافت پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔غالبا یہ کسی صحافی کو حراساں کرنے کا نیاء طریقہ ہے۔جو کہ پاکستان کا نو زائیدہ انتظامی صوبہ گلگت بلتستان کی نام نہاد جمہوری حکومت نے اپنایا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button