کالمز

مادری زبانوں کا آخری معرکہ 

ہر سال 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور مادری زبانوں کے تحفظ کا عزم دہرایا جاتا ہے پاکستان میں 2017 کا 21 فروری ایسے وقت پر آیا جب خانہ شماری اور مردم شماری کے لئے تیا ریاں ہورہی ہیں پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ کی طرف سے مادری زبانوں کو مردم شماری میں باقاعدہ دستاویزی حیثیت دیکر دکھانے کے لئے ہدایات ملی ہوئی ہیں، شماریات ڈویژن اور مردم شماری کے محکمے نے اپنی طرف سے تیاریاں مکمل کی ہوئی ہے عملے کی تربیت کا کام ہو رہا ہے ایک مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا اب تک مردم شماری اور خانہ شماری کے عمل میں کسی یونیورسٹی کا تربیت یافتہ عملہ ،سو شل سائنسز کا تربیت یافتہ عملہ نظر نہیں آیا شماریات ڈویژن اور مردم شماری کے محکمے کے پاس مطلوبہ مہارت نہیں ہے خانہ شماری اور مردم شماری کے لئے جو تربیتی مواد تقسیم کیا گیا وہ 100 سال پرانا مواد ہے انگریزوں نے 1911 ء میں اس طرز پر مردم شماری کرائی تھی اب کمپیوٹر کا دور ہے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی دستیاب ہے اگر پشاور ،ایبٹ اباد ،کو ہاٹ ڈیرہ اسمعیل خان ،سوات اور چترال جیسے کثیر للسانی اضلاع کیلئے الگ فارم مہیا نہیں کئے گئے تو مادری زبانوں کے اعدادو شمار کس طرح حاصل ہونگے اور کس طرح ان کو مر دم شماری کی رپورٹ میں دکھا یا جائے گا ؟ ’’دیگزا کا خانہ 1911 سے آرہا ہے اس خانے پر نشان لگایا جائے تو 27 زبانیں اس کے اندر آجاتی ہیں بازار قصہ خوانی کے دونوں اطراف میں پختونوں اور ہندکوانوں کی آبادی ہے چترالی ،گوجر ،کو ہستانی ،توروالی بھی ان گلیوں میں آباد ہیں مر دم شماری کے فارم پر سندھی ،بلوچی ،پنجابی اور پشتو یعنی پانچ زبانوں کے نام ہیں آگے دیگر کا خانہ ہے دیگر کے اوپر نشان لگانے سے کس طرح معلوم ہوگا کہ ہندکو اس محلے میں کتنی آبادی کی مادری زبان ہے ؟ دیکر یا وغیرہ وغیرہ بلکل لغو لفظ ہے اس لفظ سے مادری زبان کا پتہ نہیں لگتا یہ بات کسی شک و شبے سے بالاتر ہے اور مسلمہ حقیقت ہے کہ پنجابی پنجاب کی ،پشتو خیبر پختونخوا کی اور سندھی سندھ کی اکثر یتی آبادی کی مادری زبا ن ہے تاہم آزاد کشمیر اور بلوچستان میں معاملہ اس کے بر عکس ہے دو جگہوں پر یہ بات طے ہونا باقی ہے کہ اکثریت کی مادری زبان کونسی ہے ؟ گلگت بلتستا ن کا بھی ایسا ہی مسئلہ ہوگا فر ض کیا خیبر پختونخوا میں 67فیصد پشتو بطو ر ما دری زبا ن بو لتی ہے ۔ با قی 33 فیصدمیں کتنے لو گوں کی آبا دی ہند کو بو لتی ہے ؟و غیرہ و غیرہ یا دیگر سے نہ 1911 میں اس کا پتہ لگتا تھا ہے نہ 1951میں معلوم ہوا نہ 1998میں اس کا سرا غ ملا فرض کیا کراچی میں60فیصد آبادی اردو بولنے والوں کی ہے دیگر وغیرہ پر نشان لگانے سے یہ تو معلوم نہیں ہوگا کہ سندھی ،بلوچی ،پشتو اور پنجابی بولنے والے لوگوں کی آبادی کتنی ہے اسلام آباد میں سوات ،چترال ،گلگت بلتستان کے لوگ کالونی بنا کر رہتے ہیں اُن کالونیوں کا اندر دیگر اور وغیرہ کے خانے پر نشان لگایا گیا تو گاوری ،توروالی ،شینا اور کھوار جیسی مادری زنانوں کو اردو ،پنجابی اور پشتو سے کس طرح الگ کیا جائے گا کمپیوٹر نے اس کا آسان حل نکالا ہے ایک فارم میں 500 زبانیں بھی آجاتی ہیں مگر یہ بات قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد ،پنجاب یونیورسٹی لاہور ،سندھ یونیورسٹی جا مشورو اور پشاور یونیورسٹی میں اکنا مکس ،سوشل سٹڈیز ،پاکستان سٹڈیز یا انتھروپولوجی کے پروفیسر وں کو معلوم ہے شماریات ڈویژ ن اور مردم شماری کے محکمے کا ’’بابو‘‘اس ٹیکنک کو نہیں جانتا اس کے پاس 1911 ء والا پرو فارما ہے وہ مکھی پر مکھی ما رتا ہے مادری زبانوں کے تحفظ کے لئے کا م کرنے والی تنظیموں اور مادری زبانوں میں لکھنے والے ادیبوں ،شاعروں ،صحافیوں نے گزشتہ 20 سالوں کے اندر مادری زبانوں کو مردم شماری میں شامل کرانے کے لئے انتھک محنت اور مسلسل جدو جہد کی ہے گندھارا ہند کو بورڈ نے چار بین لاقوامی کانفرنسوں میں اس قرار داد یں منظور کر وائیں مارچ 2014 ء میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اپنی جا مع سفارت مر تب کیں ان سفارشات کو کمیٹی کی چیر پرسن مار وی میمن نے حکومت سے منظور کروایا مادری زبانوں کو تحفظ دینے کا یہ آخری معرکہ ہے جو مردم شماری کے اندر مادری زبانوں کا خانہ الگ کرنے کیلئے ہے یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کی کسی بھی مر دم شماری رپورٹ میں ضلع چترال کی کالاش تقافت ،کالاش زبان اور کالاش مذہب کے اعداد و شمار نہیں دیے گئے 2002 ء میں جنر ل مشرف نے کالاش کو ’’ورلڈ ہیری ٹیج ‘‘قرار دینے کے لئے یونیسکو سے رجو ع کیا تھا UNESCO نے مر دم شماری رپورٹ منگوائی تو اس میں کالاش کا نام بھی نہیں تھا ڈاکٹر الہی بخش اختر اعوان مرحوم نے دوبارہ اقوام متحدہ کی ECOSOC ایکو ساک نامی کمیٹی سے ہند کو زبان کے تحفظ کے حوالے سے رجوع کیا دونوں بار مردم شماری رپورٹ منگوائی گئی اس میں ہندکو کا نام بطور مادری زبان درج نہیں تھا یونیورسٹی آف ہائیڈ ل برگ جرمنی میں ساوتھ ایشیا انسٹیٹوٹ کے پروفیسر آرنڈ (Prof:Arnd) نے 1998 ء کی مر دم شماری رپورٹ منگوائی رپورٹ ملنے کے بعد ان کو افسوس ہوا کہ انہوں نے اس رپورٹ کے لئے کیوں وقت اور پیسہ ضائع کیا اس میں مادری زبانو ں کی تفصیل آتی ہے نہ پاکستانیوں کے مذاہیب کا کوئی ذکر ہے نہ اقوام و قبائل کا ڈیٹا دیا گیا ہے محققین کے لئے اس رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں مادری زبانوں کا آخری معرکہ مردم شماری کے آغاز سے اختتام تک جاری رہے گا اگر شماریات ڈویژن اور مر دم شماری کے محکمے نے اپنی ضد نہ چھوڑی اور 1911 کے طرز پر مردم شماری پر اصرار کیا تو عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا آرمی چیف کی مدد بھی حاصل کی جائیگی مادری زبانوں کے آخری معرکے میں ناکامی کا آپشن نہیں ہے

سفینہ بر گ گل بنا لے گا قافلہ مو ر ناتواں کا

ہزار مو جوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے با ر ہوگا

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button