کالمز

دہشت گردی اور علمائے دیوبند کا مشترکہ موقف

 تحریر: امیرجان حقانیؔ

مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ علمائے دیوبند نے تحریک پاکستان میں صف اول کا کردار ادا کیا ہے۔ حضرت تھانویؒ کی ہدایت پر مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد تھانوی ؒ اور مولانا مفتی شفیع عثمانی ؒ اور ان کے ساتھیوں نے تحریک پاکستان کے لیے فکری اور نظریاتی جنگ لڑی ہے اور ہر میدان میں قائداعظمؒ اور ان کے رفقاء کے ساتھ دیا ہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے۔تاریخ پاکستان پر اتھارٹی رکھنے والے ڈاکٹر صفدر محمود بھی اکابرین دیوبند کی خدمات اور قربانیوں کے معترف ہیں۔دہشت گردی ایک لعنت ہے۔ یہ ایک طویل عرصے سے پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ مملکت عزیز میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے علماء دیوبند نے ہمیشہ اعتدال کا راستہ اپنا اور ہر صورت دہشت گردی کی مخالفت ببانگ دھل کی ہے۔ آج سے ٹھیک سات سے قبل ۱۵ اپریل ۲۰۱۰ء کو ملک بھر سے تعلق رکھنے والے علمائے دیوبند جن میں مدارس و جامعات کے مہتممین ، شیوخ الحدیث، تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے سربراہان اور دیگر ذمہ داروں نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خانؒ صدر وفاق کی صدارت میں تین روزہ عظیم اجتماع میں شرکت کی۔اس اجتماع میں دہشت گردی اور موجودہ ملکی و علاقائی صورت حال کے حوالے سے طویل غور و خوض کے بعد ’’علما دیوبند کامشترکہ موقف‘‘ کے عنوان سے ایک عظیم اعلامیہ تیار ہوا۔اور میڈیا کو جاری کیا گیا۔ملک بھر کے ڈیڑھ سو سے زائد سر کردہ علماء و مشائخ نے اس تین روزہ مشاورتی اجتماع میں شرکت کی۔ان میں چند جید علماء کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔سابق صدر وفاق المدارس و صدر اجلاس حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ ، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا عبد المجید آف کہروڑ پکا، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا عبید اللہ اشرفی، مولانا فضل الرحیم، مولانا سید عبد المجید ندیم، مولانا محمد احمد لدھیانوی،قاضی ارشد الحسینی، حافظ حسین احمد، مولانا پیر عزیز ارحمن ہزاروی ،مولانا مفتی حبیب الرحمن درخواستی، مولانا محمد عبد اللہ آف بھکر، مولانا انوار الحق حقانی ،مولانا زاہدالراشدی ، مولانا سعید یوسف خان کشمیری اور قاضی نثاراحمد گلگتی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔اعلامیہ پر سب نے دستخط کیے۔

جامعہ اشرفیہ میں منعقدہ اجتماع میں طویل بحث و تمحیص کے بعداجتماع کا مشترکہ اعلامیہ سابق جسٹس سپریم کورٹ اور دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے تحریر کیا اورقرار داد معروف کالم نگار مولانا زاہدالراشدی نے تیار کیا۔یہ مشترکہ اعلامیہ جو موجودہ حالات میں پاکستان میں علما دیوبند کے متفقہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ دہشت گردی کے حوالے سے مکتبہ دیوبند پر لگائے جانے والے ناجائز الزامات کا ازالہ ہوسکے۔مشترکہ اعلامیہ کا متن یہ ہے۔

’’ملک بھر کے علما کا یہ اجتماع عام مسلمانوں کے اس احساس میں برابر کا شریک ہے کہ ہمارا ملک جن گونا گوں مسائل سے دوچار ہے،اور اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لئے مملکت خداداد حاصل کی گئی اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاًاسلامی نظام زندگی اور اسلامی نظام عدل کی طرف پیش قدمی کی بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں ملک بھر میں کسی کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے قتل و غارت گری اور دہشت گردی سے ہر شخص سہما ہوا ہے او رمجرم دندناتے پھرتے ہیں ،سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عفریت ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور عوام کے لئے اپنا جائز حق حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے، ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں مہنگائی اور بجلی کی قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری طرف ہمارے ملک کے بہترین وسائل ان عوامی تکلیفوں کو دور کرنے اور ان کے اسباب کا ازالہ کرنے کی بجائے امریکا کی مسلط کی ہوئی جنگ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے خرچ ہو رہے ہیں ، جبکہ امریکا کی طرف سے ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے ان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے جن میں ہمارے بے گناہ شہریوں کی بہت بڑی تعداد شہید ہو رہی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جگہ جگہ بے گناہ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور خود ہمارے شہریوں کے ساتھ امریکا میں بد ترین ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور امریکا مسلسل ہمارے بجائے بھارت کو نوازتے رہنے کی پالیسی پر گامزن ہے ۔

اس سب کے باوجود حکومت کی پالیسیوں میں امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ملکی مفادات کو بے دھڑک قربان کیا جا رہا ہے ، جب اجتماعی سطح پر مسلمانوں کواس قسم کے مسائل درپیش ہوں تو اس وقت بطور خاص اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کر کے اس کی نافرمانیوں سے بچا جائے لیکن ان حالات میں بھی بددینی کو فروغ مل رہا ہے، عریانی و فحاشی پر کوئی روک نہیں ،نفاذ شریعت کی پر امن کوششوں کو درخوراعتناہی نہیں سمجھا جاتا ،ان تمام حالات میں ملک کے درد مند مسلمان سخت بے چینی کا شکار ہیں ۔

اللہ تعالی نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا ہے جس میں نہ مایوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ بے عملی کی لہذا یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک کے ارباب حل و عقد اور عوام ایک دوسرے کو نشانہ ملامت بنانے کی بجائے مل جل کر اپنے طرز عمل میں انقلابی تبدیلیاں لائیں ،اسی طرح ملک کی کشتی گرداب سے نکل سکتی ہے،اسی لئے علما کرام کا یہ اجتماع بلایا گیا تھا کہ وہ اس صورت حال پر غور کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں وہ طریقے تجویز کریں جو ملک کو ا س صورت حال سے نکالنے کے لئے ضروری ہیں ،چنانچہ یہ اجتماع متفقہ طور پر سمجھتا ہے کہ مندرجہ ذیل اقدامات نا گزیر ہیں۔

۱۔ اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ ا سلام ہی نے یہ ملک بنایا تھا اور اسلام ہی اسے بچا سکتا ہے لہذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لئے موثر اقدامات کرے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملک کے آئین کا اہم ترین تقاضا بھی اور اسی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک میں انتہا پسندی کی تحریکیں اٹھی ہیں ، اگر ملک نے اس مقصد وجود کی طرف واضح پیش قدمی کی ہوتی تو ملک اس وقت انتہا پسندی کی گرفت میں نہ ہوتا لہذا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ پر امن ذرائع سے پوری نیک نیتی کے ساتھ ملک میں نفاذ شریعت کے اقدامات کیے جائیں ،اس کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کو فعال بنا کر ان کی سفارشات اور فیصلوں کے مطابق اپنے قانونی اور سرکاری نظام میں تبدیلیاں بلا تاخیر لائی جائیں اور ملک سے کرپشن ،بے راہ روی اور فحاشی و عریانی ختم کرنے کے لئے مثر اقدامات کیے جائیں ۔

۲۔تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے مقاصد پر نفاذ شریعت کے مطالبے کو اولیت دے کر حکومت پر دبا ڈالیں اور اس کے لئے موثر مگر پر امن جد و جہد کا اہتمام کریں اور عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں ۔

۳۔اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کو قرار دیا جا رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو اجاڑنے میں کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی، جگہ جگہ خود کش حملوں اور تخریبی کارروائیوں نے ملک کو بد امنی کی آماج گاہ بنایا ہوا ہے ، ان تخریبی کارروائیوں کی تمام محب وطن حلقوں کی طرف سے بار بار مذمت کی گئی ہے اور انہیں سراسر نا جائز قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کارروائیاں مستقل جاری ہیں لہذا اس صورت حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر ملک بھر کی متفقہ مذمت اور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود یہ کارروائیاں کیوں جاری ہیں اور اس کے بنیادی اساب کیا ہیں ؟

ہماری نظر میں اس صورتحال کا بہت بڑا سبب وہ افغان پالیسی ہے جو جنرل پرویز مشرف نے غلامانہ ذہنیت کے تحت کسی تحفظ کے بغیر شروع کر دی تھی اور آج تک اسی پر عمل ہوتا چلا آرہا ہے، لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت امریکا نوازی کی اس پالیسی کو ترک کر کے افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو بالکل الگ کرے اور امریکی افواج کو مدد پہنچانے کے تمام اقدامات سے دستبردار ہو۔

۴۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خود اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھیں ،لہذا ہم پورے اعتماد اور دیانت کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں نفاذ شریعت اور ملک کو غیر ملکی تسلط سے نجات دلانے کے لئے پر امن جد و جہد ہی بہترین حکمت عملی اور مسلح جد و جہد شرعی اعتبار سے غلط ہونے کے علاوہ مقاصد کے لئے بھی سخت مضر ہے اور اس کا براہ راست فائدہ ہمارے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے اور امریکا اسے اس علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کو دوام بخشنے کے لئے استعما ل کر رہا ہے، اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ اسے دین کا تقاضا سمجھتا ہے تو یہ اجتماع اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ ایسے حضرات کو حالات کے تقاضوں اور ضرورتوں سے آگاہ کر کے مثبت کردار کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لئے نا صحانہ اور خیر خواہانہ روش اختیار کی جائے۔

۵۔حکومت اس بات کا احساس کرے کہ اندرونی شورشوں کا پائیدار حل بالآخر پر امن مذاکرات کے سوا کچھ نہیں ہوتا ،چنانچہ ملک کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے اپنی متفقہ قرار داد میں ایک طرف سابق حکمرانوں کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے اور ڈرون حملوں اور غیر ملکی مداخلت کے بارے میں قومی خود مختاری کے تحفظ پر زور دیا تھا اور دوسری طرف اندرونی شورش کے لئے مذاکرات ہی کا طریقہ تجویز کیا تھا لیکن پارلیمنٹ کی اس قرار داد کو عملا بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے ،لہذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس قرارداد کے مطابق اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر کے خانہ جنگی کاخاتمہ کرے۔

۶۔تمام مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مشکلات اور مصائب کا اصل حل اللہ تعالی کے قبضہ قدرت میں ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی کے ساتھ اس کی رحمتیں حاصل نہیں کی جا سکتیں، لہذا اللہ تعالی کی نافرمانی اور ہر طرح کے گناہوں سے توبہ کرکے رشوت ستانی اور ہر طرح کی حرام آمدنی، بے حیائی اور فحاشی ،جھوٹ ،غیبت اور دنیوی اغراض کے لئے باہمی جھگڑوں سے پرہیز کریں اور اللہ تبارک وتعالی کی طر ف متوجہ ہوں ،شرعی فرائض کو بجا لائیں اور اتباع سنت کا اہتمام کریں ۔(ماہنامہ نصر العلوم، مئی 2010)یہ تھا دہشت گردی کے حوالے سے مکتبہ دیوبند کے اکابرین کا مشترکہ موقف۔ اسی اجتماع میں حکومت سے چند اہم اقدامات کرنے کے لیے قرارداد بھی پیش کی گئی تھی تاہم کاغذ کے ان اوراق میں اتنی گنجائش نہیں، وہ پھر کبھی قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔اس مشترکہ موقف میں یہ واضح بتلایا گیا ہے کہ نفاذ شریعت کے لیے پاکستان میں اسلحہ اٹھانا غیر شرعی اور ناجائز ہے۔پُرامن آئینی کوشش ہی کی جائے گی۔

یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں مکتبہ دیوبند کے علماء و اکابر اور مشائخ و مدارس کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مکتبہ دیوبند سے تعلق رکھنے والے لاکھوں ائمہ مساجد، خطباء، مدرسین ، محققین، قراء و حفاظ ملک عزیز کی خدمت میں ہمہ دم مصروف ہیں۔پاکستان کے لاکھوں اسکولز، ہزاروں کالجز اور سینکڑوں یونیورسٹیوں میں فاضلین علمائے دیوبند تدریس و تحقیق کے عظیم کام میں مصروف ہیں۔پاکستان آرمی اور دیگر سول اداروں میں بھی سب سے زیادہ آئمہ اور خطباء کا تعلق مکتبہ دیوبند سے ہی ہے۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان مکتبہ دیوبند کا نمائندہ تعلیمی بورڈ ہے۔ اس بورڈ کے تحت سترہ ہزار نو سو باون( 17952)مدارس وجامعات کام کررہے ہیں جن میں ایک لاکھ بتیس ہزار ایک سو تیرہ( 132113)اساتذہ کرام خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ بایس لاکھ دو ہزار پانچ سو پینتیس( 2202535)طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ تبلیغی مراکز اور تبلیغی مدارس و جامعات اور غیر وفاقی جامعات و مدارس اس کے علاوہ ہیں جن کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جن کا تعلق مکتبہ دیوبند سے ہے۔صرف وفاق المدارس العربیہ بورڈ سے1960سے لے کر اب تک سند فراغت (ایم اے عربی و اسلامیات)پانے والے فارغ التحصیل علما کی تعداد ایک لاکھ چھتیس ھزار تریسٹھ (136063)اور خواتین عالمات کی تعداد ایک لاکھ پچھتر ہزار چار سو بارہ ہے۔قرآن مجید حفط کرنے والے طلبہ کی تعداد آٹھ لاکھ چوبیس ہزار چھ سو اٹھتر( 824678)اور حفظ قرآن مکمل کرنے والی طالبات کی تعداد دو لاکھ انتیس ہزار آٹھ سو اٹھارہ( 229818)ہے۔صرف اس سال، رجب 1438 کے سالانہ امتحان کے لیے وفاق المدارس نے انتھر ہزار پانچ سو اڑسٹھ( 69568)قرآن مجید کے حافظ تیار کئے جن میں چھپن ہزار سات سو چھ طلبہ( 56706)، اور بارہ ہزار آٹھ سو باسٹھ طالبات( 12862)ہیں درجہ حفظ اور کتب میں داخلہ امتحان کی کل تعداد اس سال تین لاکھ، تیرہ ہزار پانچ سو بیالیس( 313542) ہے جن میں ایک لاکھ ستاون ھزار، نوسو گیارہ( 157911)طلبہ ہیں اور ایک لاکھ پچپن ہزار چھ سو اکتیس( 155631)طالبات ہیں۔(ان اعداد و شمار کے لیے وفا ق المدارس کی ویب سائٹ ملاحظہ کی جاسکتی ہے)

ان تمام ترزمینی حقائق کو جاننے کے باوجود بھی اگر کسی کو مکتبہ دیوبند سے تعلق رکھنے والے عوام، علماء کرام، مدارس و جامعات اور دیگر اہم شعبوں میں خدمات انجام دینے والے لوگ دہشت گرد نظرآتے ہیں تو یہ ان کی کج فہمی اور ہٹ دھڑمی تو ہوسکتی ہے مگران کے خیال و قول کے ساتھ حقائق کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔سو زمینی حقیقتوں کو جان کر جیو اور دوسروں کو بھی جینے دو۔ حالیہ دہشت گردی کی وارداتوں سے علمائے دیوبند اور ان کے متبعین کا کوئی تعلق نہیں۔لہذا بے گناہ لوگوں کی زندگی اجیرن نہ بنائی جائے۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button