کالمز

گلگت بلتستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟

دانش ارشاد

گلگت بلتستان میں اس وقت حقوق کے حوالے سے بڑے پیمانے پر بحث جاری ہے ۔کہیں ان حقوق کا حصول ’’صوبہ‘‘کے طور پر
دیکھا جا رہا ہے اور کہیں سے بغیر صوبے کے فقط اختیارات کی مانگ ہو رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے دوستوں سے معلوم ہوا کہ وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وفاق میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے بلکہ وہاں کی اعلی بیوروکریسی اور عدلیہ بھی مقامی افراد کے پاس نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کر پا رہے ہیں۔

صوبے کی مانگ یا آئینی دھارے میں شمولیت کو حقوق کے حصول کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے لیکن کچھ حقائق ایسے ہیں جن پر شاید وہاں کے عوام نہیں سوچ رہے یا سیاسی قیادت جان بوجھ کر عوام کو اس طرف نہیں جانے دے رہی ۔ گلگت بلتستان کے عوام کا سب سے بڑامسئلہ وہاں کی بیورو کریسی میں مقامی لوگوں کو آگے نہ آنے دینا ہے جس کی بنیادی وجہ اسٹیٹ اسبجیکٹ رُول کی معطلی ہے اور وہاں کی اعلی عدلیہ اور بیوروکریسی میں اسلام آباد سے لوگ بھیجے جاتے ہیں۔

اسٹیٹ اسبجیکٹ رُول کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے کسی حصہ میں کوئی غیر مقامی شخص سرکاری نوکری حاصل نہیں کر سکتا۔ اس قانون کا نفاذ 1937 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں و کشمیر میں اس خطرے کے پیش نظر کیا تھا کہ یہاں کی آب و ہوا برطانیہ سے ملتی جلتی ہے اور کہیں انگریز یہاں آ کر سرکاری وسائل پر قابض نہ ہو جائے اور موسم خوشگوار ہونے کی وجہ سے ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے لوگ یہاں آ کر آباد ہونا شروع ہو جائیں۔

اس قانون کا نفاذ ریاست جموں کشمیر کے تمام حصوں پر تھا ، جن میں گلگت بلتستان بھی شامل تھا۔ (کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تقسیم کے وقت بھی گلگت انگریز کے پاس تھا لیکن یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مہاراجہ نے 31 جولائی 1947 کو گھنساراسنگھ کو گلگت کا گورنر بنا کر بھیجا تھا اور 1935 میں انگریز سے ہونے والا معاہدہ ختم کر دیا تھا ، جو یہ واضح کرتا ہے کہ تقسیم ہندوستان کے وقت گلگت بلتستان میں کشمیر کے مہاراجہ کی عملداری تھی)تقسیم برصغیر کے بعد یہ قانون ریاست کے تمام حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی نافذ تھا جو زبانی طور پر 1952 سے ختم کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں اور عملا 1981 میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ کے گلگت بلتستان میں نفاذ کے ساتھ ہی اسٹیٹ اسبجیکٹ رُول معطل ہو گیا۔

اس کے بعد جنرل ضیا الحق نے اسی سیٹیزن شپ ایکٹ کے نفاذ کو بنیاد بنا کرمارشل لاء دور میں گلگت بلتستان کو E زون قرار دیا تھا. گو کہ جنرل ضیاء نے بعد وزرات خارجہ کی جانب سے توجہ دلائے جانے کے بعد اپنا ای زون والا فیصلہ واپس لے لیا تھا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس وقت کی کشمیری قیادت نے جنرل ضیاء کے گلگت بلتستان کو ای زون بنانے کے فیصلے پر کسی قسم کا احتجاج یا اعتراض نہیں‌کیا تھا.

1994 میں الجہاد ٹرسٹ کی طرف سے شمالی علاقہ جات( گلگت بلتستان اور چترال) کو آئین پاکستان کے تحت حقوق دینے یا پھر آئین پاکستان کے تحت نہ کرنے پر سرحد بنانے کی درخواست دائر کی تھی۔جس پر فیصلہ دیتے ہوئے 1999 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے کہا تھا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو آئین پاکستان کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں ، ان کو پاکستان کا شہری مانا جائے ۔ سیٹیزن شپ ایکٹ کے تحت وہ ٹیکس دیتے ہیں اور ان کو مکمل آئینی و سیاسی حقوق حاصل ہیں ۔(لیکن آج گلگت بلتستان کے لوگوں کو بتایا جا رہا ہے آپ براہ راست سپریم کورٹ آف پاکستان نہیں جا سکتے اور آپ کے حقوق نہ ملنے کے ذمہ دار کشمیری ہیں)۔

اسٹیٹ اسبجیکٹ کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں گلگت بلتستان میں عوام مقامی وسائل سے محروم رہے وہیں غیر ریاستیوں کو وہاں جائیدادوں کی الاٹمنٹ بھی کی گئی اور نوکریوں میں مقامی لوگوں گا کوٹہ انتہائی کم رکھا گیا۔گورنینس آرڈر 2009 کو دیکھا جائے تو وہاں گریڈ 17 میں 25 فیصد، گریڈ 18 میں 40 فیصد، گریڈ 19 میں 50 فیصد ، گریڈ 20 میں 60فیصد اور گریڈ اکیس میں 65 فیصد غیر ریاستی باشندوں کو جگہ دی گئی ہے حالانکہ وہاں شرح تعلیم 70 فیصد کے آس پاس ہے جو پاکستان کے چاروں صوبوں سے زیادہ ہے .

انتخابات سے قبل وہاں کے گورنر کے اختیارات وفاقی وزیربرائے امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر کو دیے گئے تھے۔ اسٹیٹ اسبجیکٹ کا نفاذ نہ ہونے کے باعث گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ جس چیز کا نقصان ہوا وہ عدلیہ ہے ، جہاں غیر ریاستی افراد کوسپریم اپیلٹ کورٹ کا چیف جج بنا دیا جاتا ہے اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی نہیں ہو پاتی۔

سپریم اپیلٹ کورٹ 2005 میں بنائی گئی جو تین ججز پر مشتمل ہے اور قانون ایسے نرالے ہیں کہ وزارت امور کشمیر وہاں اپنی مرضی کا کوئی بھی جج تین سال کیلئے تعینات کر سکتی ہے اور ابھی تک وہاں چار چیف جج تعینات ہوئے، جن میں پہلے چیف جج قاضی احسان اللہ خیبرپختونخواہ سے، دوسرے نواز عباسی مری سے ، تیسرے رانا ارشد لاہور سے اور موجودہ چیف جج رانا شمیم خانیوال سے تعلق رکھتے ہیں۔وہاں کی اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ۔تعینات کیا جانے والا جج 80 سالہ بھی ہو سکتا ہے اور تین سال تعینات رہ جانے والا جج پنشن بھی وصول کرتا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2013 میں ججز پنشن کیس کے فیصلے کے مطابق اس جج کو پنشن مل سکتی ہے جس کی سروس کم از کم 5 سال رہی ہو لیکن وزارت امور کشمیر نے گلگت بلتستان میں اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے . اس اجارہ داری کی وجہ 2008 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ججز کی پنشن کے حوالے سے دیا گیا ایک فیصلہ ہے ، جس میں پنشن کیلئے سروس کی مدت مختص نہیں تھی . اس فیصلے کو بنیاد بنا کر وزارت امور کشمیر نے وہاں اپنی مرضی کے جج اور مرضی کی مدت ملازمت طے کر رکھی ہے لیکن جب 2013 میں اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا تو وزارت امور کشمیر نے اسے گلگت بلتستان میں لاگو نہ ہونے دیااور جس شخص کو نوازنا ہو اسے سپریم اپیلٹ کورٹ کا جج بنا کر اسے تین سال بعد لاکھوں روپے پنشن دے کر رخصت کیا جاتا ہے ۔

اس وقت اگر گلگت بلتستان میں اسٹیٹ اسبجیکٹ رُول کا نفاذ کیا جائے اورالجہاد ٹرسٹ کی درخواست پر سپریم کورٹ کے 1999 میں دیے جانے والے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے تو گلگت بلتستان کے تمام مسائل آئینی صوبہ بنائے بغیر حل ہو سکتے ہیں لیکن اس کیلئے حکومت پاکستان کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔

آزاد کشمیر کے سیاست دان اور حریت کانفرنس اِس وقت گلگت بلتستان کے صوبہ بننے کی مخالفت کررہے ہیں ، حیرت ناک امر یہ ہے کہ وہ حکومت پاکستان سے گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دینے کی بات نہیں کر رہے۔ حریت کانفرنس اور آزاد کشمیر کے سیاست دان مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافی میں‌ممکنہ تبدیلی پر تو خوب شور مچاتے ہیں لیکن گلگت بلتستان میں اسٹیٹ اسبجیکٹ رُول کی معطلی پر آج تک ان میں‌سے کسی کو بولنے کا خیال نہیں‌ آیا .موجودہ صورت حال میں کشمیری قیادت کو اپنا دہرا رویہ چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ اگر صوبے کی مخالفت کرتے ہیں تو انہیں متبادل کی بات بھی کرنی چاہیے۔ کشمیر کی سیاسی قیادت کو کھلے الفاظ میں گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی اور بالخصوص اسٹیٹ اسبجیکٹ رُول کے نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button