کالمز

انسانیت

محمد اعجاز مصطفوی

انسان ہونا انسانیت نہیں لیکن انسانیت ہونا انسان کے معراج سے کم نہیں۔ انسان ہونا خالق کا فعل ہے اور انسانیت فعل انسان ہے۔ انسان کو کوئی نہیں چاہتا لیکن انسانیت کو پوری دنیا ترستی ہے اور ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ انسان خود کچھ بھی نہیں ہے لیکن انسانیت سب کچھ ہے۔صرف انسان بننے کی تعلیم کسی نے نہیں دیے۔ اس کے برخلاف انسانیت تمام معلمیں کا موضوع سخن رہاہے۔ انسان کو اگر احسن تقویم کے درجہ پر فائز کیا ہے تو یہ انسانیت کا ہی ثمر ہے۔ لیکن اگر انسان سے انسانیت چلی گی تو بل ھم اضل اس کا ٹھکانہ بیان کیا ہوا ہے۔ انسان روزپیدا ہو تے ہیں لیکن انسانیت صدیاں بعد جنم لیتی ہے۔ انسان کا حسن احسان ہی انسانیت ہے اور انسانیت ہی تمام حسن کی بنیادہے۔ انسان ہرکوئی ہو سکتاہے لیکن انسانیت ہزاروں میں ایک ہوتی ہے۔ لہذا انسانیت ہی معیار انسان ہے اور معمار انسانیت بھی۔ انسانیت ہی انسان کی نشاندہی ہے اور انسانیت انسان کا مستقل حفاظتی ضمانت بھی ہے۔ انسانیت ہونا انسان کے لیے باعث فخر ہے انسان جب انسانیت کی روپ میں کامل و مکمل ہوتےہیں تو وہ انسان راحتہ العاشقیں اور مراد المشتاقیں بن جاتے ہیں۔ اسے متناہی سے لامتناہی کائنات سے متعارف کرواتاہے۔ انسانیت کی تعلیم حضرت آدمؑ سے شروع ہوئے اور تاقیامت جاری و ساری رہینگے۔ خواہ وہ مبلغ مسلمان ہویا غیرمسلم۔ کیونکہ انسانیت ہی پیکرآمن وسکون کا مجسم ہے۔ لیکن اسی انسان نے ہی انسانیت سوز واقعات برپا کیے ہیں انسانوں کا قتل عام ہویا فرد واحد کا قتل ، قتل قتل ہے انسانیت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ غریبوں کو لوٹنے والے ہو یا مملیکتوں کو لوٹنے والے، چوری چوری ہے انسان کے روپ میں کالی بھیڑہے۔ کھلے عام اسلحہ سے حملہ کرناہو یا میٹھی زبان کے زریعے کسی کی عزت کو تار تار کرنا ہو، عزت عزت ہوتی ہے انسانیت کے لیے۔سرعام کسی کی عزت سے کھیلنا اور کسی کی عزت کو فروخت کرنا انسانیت کا کام نہیں۔ جائیدادوں کے ناقابل یقین تقسیم ہو یا یک طرفہ تقسیم ، یہ سب کس نے اور کب انسان کو سیکھایا، کب انسانیت اس چیز کی اجازت دیتی ہے۔ نہیں کبھی نہیں۔۔۔۔اس طرح کی سینکڑوں اور کہانیاں ہیں لیکن اختصار کی خاطر اسی پر اکتفاکیا ہے۔ انسانیت یہ ہے کہ

1۔اپنی دلیل روک کر کسی کی عزت کو بچانا۔

2۔گمراہ لوگوں کے لیے ہدایت ،بھٹکے ہووں کے لیے راہی، تاریکی میں جگنو اور کم گو کے لیے فہم گو ہونا۔

3۔معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔

4۔ظلم کے خلاف اور مظلوم کا ساتھ دینا۔

5۔ظاہری ہو یا باطنی ہر حال میں پردہ غیب کا خیال رکھنا ۔

6۔احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے احساس نفس دینا اور نفس شکن بنا کر مرد مجاد بنانا۔

7۔غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے والے ہاتھوں کو روک کر انھیں جی بھر کے دینا۔

8۔اپنی آپ کی دنیا کو جگانا اور نامعلوم کو معلوم کروانا۔

9۔عجزو انکساری کو اپنا سب کچھ سمجھنا۔

10۔منزل تک پہنچنا اور دوسروں کو پہنچانا۔

11۔ہر نیک کام کرنے کا مقصد بے مقصد ہونا یا کم ازکم اپنی ذات کے لیے نہ ہو۔

12۔دشمن کی عیادت کے لیے جانا۔

13۔آرمی چیف ہوتے ہوئے سپاہی کے ساتھ چارپائی پے بیٹھ کے کھانا کھانا۔

14۔سب کچھ ہونے کے باوجود سب کچھ لٹادینا۔

15۔خود غرضی سے آزاد، خود مختار اور بھلائی کے لیےسوچنا ۔ ہرمذہب ، ہر مسلک اور ہر تنظیم ہمیشہ انسانیت کاہی درس دیتی ہےلیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آج یہی تنظمیں خود انسانیت سوز واقعات کے اہل کار اور الہ کار بنے ہوئے ہیں۔ کبھی ذات پات، کبھی رنگ ونسل ، کبھی ملک وقوم اور کبھی کچھ اور بہانے بناکر انسان ہی انسانیت کو دفن کرکے چلے آتے ہیں اور واپسی پر پھر انسانیت کا ہی درس دیتے ہیں۔ ایک انسانیت سے بھرا ہوا نسان کا یہ نعرہ ہونا چاہیےتھا شفقت سب انسانوں پر۔ انسانیت والے کسی پر کبھی بھی کوئی بھی اعتراض نہیں لگاتا وہ تو ہر کسی کو انسانیت ہی سیکھانے میں لگا ہوتاہے۔ انسانیت والے کسی سے اپنی ذات کے لیے نفرت ، بعض اور عناد نہیں رکھتے۔ آخر میں دعاہے کہ اللہ ہم سب کو بھی انسانیت کی راہ پے چلادے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button