کالمز

مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری راہبری کا سوال ہے۔۔۔

شہرسے دیہات کے سفرکا جب بھی ارادہ بنتا ہے تو سب سے پہلی فکریہ لاحق ہوجاتی رہی کہ وہاں پرروزمرہ کی خبروں سے اگاہی کیسے حاصل کی جائے۔ اگرچہ دیہاتوں میں سادہ اور پرخلوص لوگوں کی صحبت میں پرفضاء ماحول میں زندگی گزارنے کا اپنا ایک مزہ ہے ، مگرلمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے حالات سے اگاہی بھی اس جدید دورکا ایک اہم تقاضا ہے۔

حالات حاضرہ سے آگاہی حاصل کرنے کی یہ آرزو اس وقت پوری ہوجاتی ہے جب دیہاتی علاقوں کے سفرسے واپس پر پرانی تاریخوں کے اخبارات کو کنگھال کر پڑھ لیا جائے۔ لیکن جب علاقائی اخبارات کی پرانی تاریخ کا کوئی شمارہ ہی دستیاب نہ ہو توتمام تر وسائل سے لیس شہروں کی پرتعیش زندگی بھی بے مقصد ہوکررہ جاتی ہے۔

آج کے دورمیں انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا صارفین کے لئے خبروں اور حالات حاضرہ سے آگاہی کا ایک متبادل ذریعہ تو بن چکا ہے، مگربرقی دنیا سے بے خبر ان قارئین کا کیا ہوگا جو آج بھی اخباربینی کو اپنا ایک پسندیدہ مشغلہ سمجھتے ہیں۔ اور اس حقیقت سے انکاری بھی ممکن نہیں کہ گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقوں میں آج بھی اخباری قارئین کی تعدادسوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے صارفین سے کسی حوالے سے کم نہیں۔ وہ اس لئے کہ تھری جی اور فورجی کی سہولت سے محروم اس علاقے میں انٹرنیٹ کی سست رفتاری کے سبب آن لائن سے پرنٹ میں دستیاب اخبارکو پڑھ لینا زیادہ آسان ہے۔

گلگت بلتستان کے تناظرمیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر علاقائی موضوعات پر گفتگو کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ تاہم اس گفتگو کو حقیقت جوڑنے کے لئے ثبوت یا دلائل کے طور سوشل میڈیا پر بھی اخباری تراشیں ہی گردش میں نظرآرہی ہوتی ہیں۔ جوکہ دورجدیدمیں پرنٹ میڈیا انڈسٹری کی اہمت کی عکاس ہے۔

ابلاغ عامہ کے اس تیزرفتار دورمیں ان دنوں گلگت بلتستان سے کوئی اخبار شائع نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے صوبائی حکومت کی جانب سے واجبات کی عدم ادائیگی پر اخباری مالکان بحرانی کیفیت کا شکار ہوگئے۔ اخبارات کی اشاعت معطل کرنے کا یہ فیصلہ علاقائی اخباری مالکان اور مدیران کی تنظیم گلگت بلتستان نیوزپیپرزسوسائٹی کی جانب سے کیا گیا۔ نیوزپیپرزسوسائٹی کے عہدیداران کے بقول علاقے سے شائع ہونے والے ایک درجن سے زائدروزنامہ اور نصف درجن کے قریب ہفت روزہ اخبارات کے مجموعی طورپر آٹھ کروڑکے بقایہ جات صوبائی حکومت کے ذمے واجب الادا ہیں۔ جن کی ادائیگی کے لئے بارہا گزارشات کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

مالکان کے بقول بقایہ جات کی ادائیگی میں تاخیری حربے استعمال کرنے سے علاقائی سطح پراخباری صنعت زوال پذیری کا شکارہورہی ہے۔ جس سے اس صنعت سے وابسطہ سینکڑوں افراد کی روزی داؤ پر لگ گئی ہے۔ اخباری صنعت کو زوال پذیری اور مالکان کو دیوالیہ پن سے بچانے کی خاطر گلگت بلتستان نیوزپیپرزسوسائٹی نے مورخہ اکیس مارچ سے مشترکہ طورپرپہلے مرحلے میں احتجاجاً اخبارات کی پرنٹنگ بند کردی۔ دوسرے مرحلے میں صوبائی دارالخلافہ میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

احتجاجی مظاہروں میں پریس کلب کے عہدیداران ، عامل صحافی اورکالم نگار بھی اخباری مالکان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے ۔ جبکہ گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان بھی اظہار ہمدردی کے طورپرصحافیوں کی احتجاجی تحریک میں شریک ہوئے۔ یوں معاملہ آزادی صحافت پر قدغن لگانے تک پہنچنے پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یوجے) بھی حرکت میں آگئی ۔ پی ایف یو جے کی کال پر اسلام آباد میں کثیرتعداد صحافیوں نے گلگت بلتستان کے صحافیوں اور اخباری مالکان کے مسئلے کے حل کے لئے وزیراعظم سکریٹریٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

احتجاجی مظاہرین سے خطاب کے دوران مقررین نے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کومیڈیا سے متعلق حکومتی پالیسی پرآزادی صحافت پر قدغن لگانے کے حوالے سے بدنام زمانہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق سے تشبیہ دی دیتے ہوئے مسئلہ حل نہ کرنے کی صورت میں مذید سخت اقدام اٹھانے کی دھمکی دیدی۔

سوال یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے وہ کونسے اقدامات اٹھائے جن کی وجہ سے تاریخ انہیں آزادی صحافت پر قدغن لگانے کے حوالے سے ایک بدترین مثال کے طورپر یاد کرتی ہے؟ تو جواباً عرض ہے کہ ضیاء دورمیں آزادانہ خبروں کوسنسرکرکے حکومت کی اپنی مرضی ومنشاکا مواد اخبارات میں شائع کروایا جاتا رہا۔ جس کے خلاف مزاہمت کرنے کے نتیجے میں اخبارات پر پابندی اور صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا رہا۔ لیکن مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکی جانب سے آزادی صحافت پر قدغن لگانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود فتح ہمیشہ صحافت ہی کو حاصل رہی۔ نومبر1977کوضیاء الحق کی جانب سے حکومت مخالف پالیسیوں کی پاداش میں پیپلزپارٹی کے اخبار ’’مساوات ‘‘ کی اشاعت پر پابندی لگانے اور مزاہمتی صحافیوں کوزندان میں ڈالنے کے خلاف یکم دسمبر1977سے پی ایف یو جے کی کال پرکراچی میں صحافیوں نے بھوک ہڑتال شروع کردی ۔ صحافیوں کی اس آٹھ روزہ روزہ بھوک ہڑتال نے ضیاء حکومت کووقتی طورپر اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبورتوکردیا ۔ لیکن وہ اپنی صحافت دشمن پالیسوں سے پھربھی بازنہ آئے اورکراچی میں مساوات اخبار پر پابندی ہٹانے کے کچھ عرصہ بعد ہی انہوں نے لاہورمیں مساوات، الفتح اور ہفت روزہ معیارپرقدغن لگاکربندکردیا۔ اس فیصلے کے خلاف صحافیوں نے فوجی آمرکے سامنے ہمت نہ ہاری اور پی ایف یو جے آزادی صحافت کا نعرہ لگاکر پھر میدان میں آگئی۔

اس دوران ابتدائی مرحلے میں صحافتی تنظیموں کی جانب سے جنرل ضیاء کی صحافت دشمن پالیسوں پر نظرثانی کرنے اوراخبارات پر عائد پابندی ہٹانے کے لئے مذاکرات کا راستہ اپنالیا گیا مگراقتدارکے نشے میں مست حکمران کوئی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ چنانچہ پی ایف یو جے نے یکم اپریل 1978 سے لاہورمیں بھوک ہڑتال شروع کردی جو یکم مئی1978تک ٹھیک ایک مہینہ جاری رہی۔ اس دوران حکومت نے بھوک ہڑتال کیمپ سے متعددصحافیوں کو اٹھاکر زندان میں ڈال دیا اور کسی کو چھ ماہ تو کسی کو ایک سال تک قیدوبندرکھنے کی سزائیں سنائی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ صحافیوں کا اتحادتوڑنے کی غرض سے حکومتی سرپرستی میں آمریت کے حامی صحافیوں پر مشتمل ایک نام نہاد صحافتی تنظیم بھی بنائی گئی جو جلد ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔

اکتوبر1978کوضیاء حکومت کی جانب سے ملک بھرمیں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے ساتھ ساتھ مزاہمتی صحافت کی پاداش میں انگریزی اخبار ڈی فارمٹی کے ایڈیٹرزکو پچیس پچیس سال قیدکی سزائیں سنائی گئیں۔ جنوری1982کوحکومت کی جانب سے اخبارات کی خبروں کو سنسرکرنے کی روایت ترک کرکے سیاسی جماعتوں کی کوریج پر پابندی برقراررکھی گئی۔ چنانچہ صحافیوں کی جانب سے اس فیصلے کی بھی مخالفت شروع کی گئی تو اخباری مالکان پر دباؤ ڈال کر مزاحمتی صحافیوں کوملازمت سے جبری طورپر نکالنے کا حربہ استعمال کیا گیا مگر اس میں انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔

یہی وہ پالیسیاں تھیں جن کے باعث جنرل ضیاء الحق کو صحافت دشمن حکمران کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔ آج جنرل ضیاء کی وہ بادشاہت تو نہیں رہی مگر آزادی صحافت کی تحریک پہلے سے زیادہ مضبوطی سے چل رہی ہے۔ اسی اثناء ایک جمہوری حکومت کے ایک عوامی منتخب وزیراعلیٰ کو ضیاء الحق سے تشبیہ دینے پر میرے پاس حافظ حفیظ الرحمن کے لئے سوائے افسوس کے اور کوئی الفاظ نہیں۔ کیونکہ یہی حافظ حفیظ الرحمن تھے جو محض تین سال قبل آزادی صحافت کا چیمپئن بن کر گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو یہ کہتے ہوئے تنقیدکا نشانہ بناتے رہے کہ صوبائی حکومت مقامی اخبارات کا گلہ گھونٹ رہی ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعلیٰ صاحب سابق حکومت کے خلاف اپنے اخباری بیانات کو یادکرتے ہوئے زرا ایک نظر اپنی حکومت پربھی دوڑاتے تو کم ازکم یہ معلوم ہوجاتا کہ صحافت کا گلہ دبانا آخرکسے کہتے ہیں۔ ویسے گلگت بلتستان کے صحافیوں کی فلاح وبہبود اور اخباری صنعت کی ترقی کے لئے کیا تو سابق صوبائی حکومت نے بھی کچھ نہیں مگراس کے باوجود کسی نے سید مہدی شاہ کو ضیاء الحق سے تشبیہ تو نہیں دی۔ آج اگرحافظ حفیظ الرحمن کو ضیاء الحق سے تشبیہ دی جاتی ہے تو یہ ان کے لئے یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔

لہذا وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ یہ جاننے کی کوشش ضرورکریں کہ مقامی اخبارات کا گلہ دباکر ایک جمہوری حکومت اور میڈیا کے بیچ میں خلیج پیداکرنے کے پیچھے آخرکونسے محرکات ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا آزادی صحافت پر قدغن لگا کر ایک نوزائیدہ جمہوری حکومت کو دنیا کے سامنے بدنامی کا باعث بنانے والے ان محرکات کے خلاف کوئی کاروائی ہوگی؟ کیونکہ ظاہری بات ہے اس مسئلے کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ کارفرما ہے۔ وہ وجہ چاہے سرکاری اداروں کی صورت میں ہو یا آفسرشاہی کے نازاور نخروں کی ، متعلقہ محکمہ کی نااہلی کی صورت میں ہو یا فنڈزکی عدم دستیابی کی، عوام کے سامنے بدنامی صوبائی حکومت کی اور حدف تنقید وزیراعلیٰ گلگت بلتستان بن رہے ہیں۔

بقول شاعر:

اِدھراُدھرکی نہ بات کریہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا؟
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں ،تیری راہبری کا سوال ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button