کالمز

’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘

عبدالکریم کریمی

پروفیسر عثمان علی کو مرحوم لکھتے ہوئے نہ جانے کیوں دل قلم کا ساتھ نہیں دے رہا اور ایک عجیب بے چینی ہو رہی ہے۔ جب یہ اندوہناک خبر میرے دوست جمشید خان دُکھیؔ کے ٹیکسٹ میسیج اور پروفیسر حشمت علی کمال الہامی  کے منظوم تاثرات کی صورت میں میرے موبائل اسکرین پر نمودار ہوئی تو گویا میں تصور کی دُنیا میں پہنچا ہوا تھا۔ ان سے وابستہ یادوں کی بھی الف لیلوی داستانوں کی طرح نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے۔ یہ دس سال پہلے کی بات ہے میں اپنی پہلی کتاب پر تاثرات لینے مختلف ادبی شخصیات سے ملتا رہتا تھا۔ پروفیسر مرحوم سے بھی انہی دنوں میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ پر  ’’گفتنی‘‘ کے عنوان سے انہوں نے اپنا تبصرہ قلمبند کیا تھا۔ جب کتاب چھپی تو ان کو اعزازی کاپی بھیجی۔ دو دن کے بعد ان کا خط موصول ہوا تھا۔ دو لائینوں پر مشتمل اس خط میں گویا انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کیا تھا۔ مجھے مخاطب کرتے ہوئے سلام و دُعا کے بعد لکھا تھا۔ ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ کتاب ملی۔ آپ کا شکریہ۔ کتاب طبعی، معنوی اور تکنیکی اعتبار سے معیاری ہے اور قابلِ تعریف ہے۔ میری طرف سے مبارکباد۔‘‘ دوسری کتاب کی اشاعت پر ایک اور خوبصورت خط میری میز کی زینت بنا تھا۔ پروفیسر صاحب مجھ سے مخاطب تھے۔
’’عزیز محترم عبدالکریم کریمی
السَّلام علیکم!
کتاب ملی۔ شکریہ۔ آج ایک اور کتاب آئی نئے خواب کے ساتھ۔
ایک چراغ اور جلا حجرۂ درویشی میں۔
میں آپ کو اچھے خیالات کے ساتھ ایک اچھی کتاب پیش کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ میں ایسے شخص کو زندوں میں شمار کرتا ہوں جو سوچتا ہے اور خواب دیکھتا ہے۔
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں
مجھے اُمید ہے آپ سوچتے رہیں گے اور خواب دیکھتے رہیں گے اور پھر ایک پاکیزہ دُنیا بسالیں گے۔
والسَّلام
پروفیسر عثمان علی
معرفت عثمانی کتب خانہ گلگت‘‘
جب میں نے ان کو اپنی شادی پہ دعوت دی۔ ان دنوں نقاہت کی وجہ سے وہ کم کم ایسی محفلوں میں تشریف لے جاتے تھے۔ اس لیے وہ میری شادی میں شرکت تو نہیں کرسکے لیکن اس کے بعد جب بھی ملتے مجھے کہتے کہ کریمی! میں نے آپ کی شادی مس کیا۔ میں نے سنا کہ بڑی دھوم دھام تھی۔ اب محترم پروفیسر صاحب کو کیا پتہ اس دھوم دھام کی وجہ سے کتنے لوگ  ذہنی پستی کی وجہ سے پریشان تھے۔ اس طبقے کا کہنا تھا کہ ایک الواعظ ہوتے ہوئے اتنی دھوم دھام اور موسیقی وغیرہ کی کیا ضرورت تھی۔ اب طبقے کو کون سمجھائے کہ اس واعظ نے آپ سے زیادہ قرآن پڑھا ہے، پڑھا ہی نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کو پڑھایا بھی ہے۔ اسلام کا مطالعہ لامحالہ ایک واعظ ہونے کی وجہ سے آپ سے زیادہ کیا ہے۔ اسلام میں میوزک کا کیا مقام ہے۔ اسلام نے ثقافت کو کتنا فروغ دیا۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک واعظ ایسے لوگوں سے مشورہ کرکے شادی کریں جن کو نہ اپنا پتہ ہے نہ اپنے ایمان کا۔  ایسے لوگوں کو یقینا تکلیف ہوگی۔

خیر اس پر تو آپ میری سرگزشت ’’کریم کریمی کی تلاش‘‘ میں پڑھیں گے۔ سردست پروفیسر مرحوم کا تذکرہ ہو رہا ہے۔  شادی کے تیسرے روز ان کا ایک اور خط موصول ہوا تھا جس کو میں نے شیئر کیا ہے۔ پڑھئیے اور لطف اٹھائیے۔

شادی کے بعد جب بھی میری اور سوسن کے بھیج ہلکی پھلکی جھڑپ ہوتی تو میں پروفیسر صاحب کے اس خط کا حوالہ دیتا کہ آپ نے پروفیسر صاحب کا خط نہیں پڑھا تھا کہ جس میں انہوں نے آپ کو مخاطب کرکے ہی تو کہا تھا کہ عزیزہ سوسن پری کو بھی مبارک کہ کریمی ٹوٹ کر محبت کرنے والاشخص ہے۔ اسی جملے کا دھرانا ہوتا کہ ہماری ان بن مسکراہٹوں میں تبدیل ہوتی۔ محبت کے قلم سے لکھے ہوئے ان خطوط کے بارے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا۔
خط اُن کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی
اللہ کرے حُسنِ بیاں اور زیادہ!

پروفیسر عثمان علی خطے کی ادبی و علمی دُنیا کی شان اور مان تھے۔ درجن بھر کتابوں کے مصنف تھے۔ تاریخ پر گہری نظر تھی۔ جب وہ کالج آف ایجوکیشن گلگت کے پرنسپل تھے تب ان کی ادارت میں کیا کیا رسالے اس مادر علمی سے شائع ہوتے تھے۔ یہ تو رہا کالج آپ اسکول کی بات کریں۔ جب وہ گورنمنٹ ہائی اسکول ہندی ناصر آباد ہنزہ میں ہیڈ ماسٹر تھے تب اسی اسکول سے ایک رسالہ ’’لچھار‘‘ آپ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔

شمال کی سرزمین میں کسی اسکول سے باقاعدہ ایک ادبی رسالے کی اشاعت کی یہ پہلی اور آخری مثال ہے۔ یقیناً علمی و ادبی لوگ جہاں ہوں وہاں علم و ادب کی پرچھائیاں ضرور اپنے ساتھ لے کے جاتے ہیں۔

ان بڑے علمی و ادبی لوگوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ہر کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کی اپنی ایک دُنیا ہوتی ہے۔ جب ’’فکرونظر‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا تو اس میں پہلا مضمون پروفیسر مرحوم سے میں نے لکھوایا تھا۔ میرے دوست جمشید دُکھیؔ حیران  ہوکے مجھ سے کہتےتھے کہ ’’کریمی کمال کرتے ہیں آپ، پروفیسر عثمان سے مقالہ لکھوانا بجائے خود ایک معرکہ ہے۔ آپ ان سے کیسے لکھواتے ہیں۔‘‘ یقیناً میرے ساتھ ان کا رویہ دوستانہ تھا۔ میں جب بھی کسی مضمون کے لیے ان کو فون کرتا تو ایک ڈوبتی ابھرتی معتبر اور نہایت دھیمے لہجے میں ان کی آواز میری کانوں میں رس گھول رہی ہوتی کہ ’’کریمی! میری جان مجھے تھوڑا وقت دو۔ میں تازہ کچھ لکھ کے بھیج دونگا۔‘‘ کچھ وقت سے مراد دو یا تین دن ہوا کرتے تھے۔ پھر میری پوسٹل ایڈریس پر ایک جاندار مقالہ موصول ہوچکا ہوتا تھا۔ پھر ہر رسالے پر شکریے کا خط الگ سے مجھے لکھا کرتے تھے۔ بڑے لوگ شاید ایسا ہی ہوتے ہیں ورنہ تو ہم نے ایسے بھی لوگوں کو دیکھا  ہےجن کو کتاب بھی بھیجو۔ ان کو فون بھی کرو کہ کتاب پہنچی۔ اگر خوش قسمتی سے کتاب پہنچی ہے تو موصوف کا الگ سے شکریہ بھی ادا کرو کہ آپ کتنے عظیم انسان ہیں جو مفت میں کتاب قبول بھی کرتے ہو۔ لیکن محترم پروفیسر مرحوم کی ذات میں عاجزی و انکساری کے سوا کچھ نہیں تھا۔ تب تو آپ سوشل میڈیا ذرا اوپن کرے دیکھ لیجئے گا ایک جہاں اپنے استادِ محترم کی موت پہ رنجیدہ نظر آئے گی۔ آپ کی موت ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک عہد کی موت ہے۔ آپ کی رحلت پر پروفیسر حشمت علی کمالؔ الہامی کے ان تازہ اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں۔

عثمان، علی، خان بھی، ہم سے ہوئے جدا
خاموش ہوگئی ہے، وہ تحقیق کی صدا
تاریخ و نقد و فن کا ستوں، گر گیا ہے آج
ویراں ہے اب، ادب کا محل آگئی ندا
لوح و قلم کی شان تھے استادِ باکمال
ہوتے رہے وہ انجمنِ علم پر فدا

اللہ پاک پروفیسر مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button