کالمز

صارفانہ مزاج

قدسیہ کلثوم

فطرت(Nature)بڑی رازداری سے اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے۔ سائنسی عمل اسی راز داری کو افشاء کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یعنی سائنسی عمل فطرت کی رازداری کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ اُسی طرح جیسے ایک پیار کرنے والا اپنے محبوب کے دِل کے راز جاننے کے لئے بڑی عاجزی سے ریاضت میں لگا رہتا ہے۔ فطرت اورسائنسی عمل کے درمیان تعلق دراصل عاشقی ہی ہے۔

فطرت، اٹل ہوتی ہے اور اسی طرح جب سائنسی عمل کے نتیجے میں فطرت کے کسی پہلو کو افشاء کرلیا جائے تو وہ بھی اٹل ہوجاتا ہے۔ اسے اپنا آپ منوانے کے لئے قسمیں اٹھانا پڑتی ہیں اورنہ ہی اعتقادات کے گھن چکر ایجاد کرنے پڑتے ہیں۔ گلاب کا پودا، سرخ گلاب کیوں پیدا کرتا ہے اور اس میں خوشبو کیوں ہوتی ہے؟ اس کا جواب صرف یہی ہے کہ گلاب کا پودا سرخ گلاب پیدا کرتا ہے اور اس پھول میں خوشبو ہوتی ہے۔ فطرت اپنے آپ کو گھڑتی نہیں۔۔۔ یہ بس، ہوتی ہے۔

سائنسی عمل، دراصل فطرت کے کام کرنے کے عمل کو درجہ بدرجہ جاننے کا وسیلہ ہے۔ چونکہ فطرت ایک مربوط عمل کے نتیجے میں اپنا آپ ظاہر کرتی ہے۔ اسی لئے سائنسی عمل بھی اسی مربوط عمل کا عکس ہوتا ہے۔ دونوں کی بنیاد علت اور معلول (Cause & Effect)پر ہوتی ہے۔ علت اور معلول کی نشاندہی مشاہدے سے ہوتی ہے اور مشاہدہ ہی سائنسی انکشاف کی روح ہے۔

فطرت مادی سطح پر اپنا وجود رکھتی ہے۔ کیا تاریخ بھی مادی سطح پر اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے؟ تاریخ کے مطالعے میں زمان(Time) اورمکان (Space) بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر وقت کی نشاندہی اور شہادت مکان (Space) میں موجود اشیاء سے ہی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے بچپن کی نشاندہی آپ کے کھلونوں اورتصاویر سے ممکن ہے۔ کھلونے اور تصاویر دراصل اپنی مکانی شہادت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ایک مقام ایسا آتا ہے۔ جب وقت اور مکان، دونوں کی الگ حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور صرف مکان ہی حتمی حقیقت بن جاتا ہے۔ سائنسی عمل اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ٹیکنالوجی کا تعلق دراصل مکان(Space) سے ہی ہے۔ انہی دونوں کی بنیاد پر تاریخّ (زمانی سطح پر) میں انسانوں نے اپنی اردگرد مختلف اشیاء پیدا کیں اورزندگی کو انہی اشیاء کی حدود میں رہتے ہوئے گزارا۔ انہی حدود کے تحت انسان کا اس عہدسے متعلقہ مخصوص شعور بھی پیدا ہوا۔

اگر ہم قدیم دور میں بسے کسی معاشرے کا مطالعہ کرنا چاہیں تو ہمیں اس دور سے متعلق مکانی طور پر میسر مادی اشیاء کو پرکھنا ہوگا۔ یعنی وہ معاشرہ وقت کی مخصوص حدود میں ضرور پیدا ہوا اور فنا ہوگیا مگر اس کے وقت میں(زمانی) وجود کی شناخت مکاں میں موجود مادی اشیاء سے ہی ہوسکتی ہے۔ انہی مادی اشیاء کی کارکردگی اور اثر سے اس دور میں بسے لوگوں کے شعور کی حدود کی نشاندہی ممکن ہوگی۔ شعور دراصل اسی مادی کلیت کی نمائندگی(Representing) کرتا ہے۔ جب مادی کلیت تبدیل ہوتی ہے تو نمائندگی کا ڈھنگ یا شعور بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طو رپر تاریخ کے ایک عہد میں لوگ اپنی زندگیوں میں ہونے والے اچھے برے واقعات و اثرات کا ذمے دار آسمانی ہستیوں کو قرار دیتے تھے۔ بیماری کو بدروحوں اور بھوتوں کی کارستانی سمجھاجاتا تھا۔ یہ دراصل اس سائنسی عمل کا پرتو تھا۔ جو ابھی علت ومعلول کو تو ضرور مانتا تھا۔ مگر شہادت کے لئے انسانوں کے پاس خردبین نہ تھی۔ جب خردبین ایجاد ہوگئی تو بیماریوں کے پیدا ہونے کا نیا نظریہ پیدا ہوا اور یہ نظریہ شہادت کی بنیاد پر استوار ہوا۔ اس طرح فطرت کے ساتھ ایک نیا رشتہ قائم ہوا اور اسی کی بنیاد پر انسانی شعور میں اس کی نمائندگی بھی تبدیل ہوگئی۔

اوپر جوبات کی گئی ہے۔ اس میں مرکزی بات فطرت کے انکشاف سے متعلق سائنسی عمل ہے۔ اسی سائنسی عمل کے ارتقاء میں جب تبدیلی آتی ہے تو اس عمل میں مصروف پورا معاشرہ اپنے آپ کو تبدیل کرتا ہے۔ اس کی زندگی کی ہر جہت میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس طرح ہر زمانی دور کی نمائندگی کرنے والی مکانی اشیاء تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاشرہ فطرت کے ساتھ سائنسی عمل کا حصے دارنہ ہو اور محض اشیاء تک رسائی حاصل کرلے۔ کیا ایسے معاشرے کا شعور، سائنسی عمل کے پیروکار معاشرے سے مشابہت رکھ سکتا ہے؟

یورپی معاشرے نے گذشتہ چار صدیوں میں سائنسی عمل کی افزائش کی۔ فطرت کے رازوں کو سمجھا۔ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر مشینیں بنائیں۔ زندگی اورپیداواری ذرائع کو تبدیل کیا۔ اس تبدیلی میں پورا معاشرہ بحیثیت مجموعی شامل ہوا کیونکہ اس عمل میں جزیرے بن کر رہنے کی گنجائش نہ تھی۔ ادارے بدلے،قانونی ومعاشرتی طریقے تبدیل ہوئے۔ اس طرح ایک نئی مکانی دنیا آباد ہوئی۔ اسی مکانی دنیا کے مطابق انسانی شعور میں اس کی نمائندگی بھی تبدیل ہوگئی۔

اکثر قدامت پسند معاشروں میں مکانی تبدیلیاں، سائنسی عمل کے نتیجے میں نہ آئیں۔ وہاں مادی زندگی میں تبدیلی کا انحصار خود وہاں کے لوگوں کی شعوری کوشش سے نہ تھا۔ یہ محض صارفانہ ضرورتوں کے تحت ممکن ہوا۔ چونکہ ا یسا معاشرہ یورپ کی طرح تخلیقی وسائنسی تبدیلی میں سے نہ گزرا تھا اس لئے ان مکانی تبدیلیوں کی نمائندگی کرنے والا شعور بدستور قدامت پرستانہ اور صارفانہ رہا۔ جو معاشرے تحکمانہ زندگی کے شکار رہتے ہیں وہ اچھے صارف بن سکتے ہیں کیونکہ تحکمانہ نظام میں عام فرد کے لئے ایک ترکیب (Prescription) طے کردی جاتی ہے۔ ایسے معاشروں میں فرد، ایسی ترکیب کا اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ اسے اس مجہولیت(Passivity)میں سکھ محسوس ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس مجوزہ ترکیب کو ہی فرد کا ذریعہ نجات سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔ صارفانہ ترکیب بھی مجہولیت ہی ہے اور اس کی پیروی کو بھی فرد کی راہ نجات سمجھا جاتا ہے۔

اس وقت دنیا میں جو ورلڈ سسٹم اپنے پورے طنطنے سے جاری ہے، وہ ایسے قدامت پسند معاشروں کو اپنا محبوب صارفانہ یونٹ سمجھتا ہے۔ انہی کی بدولت اس کی بکری چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں کے شعوری نظام کو بدستور قدامت پرستانہ ہی رکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ بین الاقوامی اداروں، بین الاقوامی کمپنیوں اور ملکی اداروں کو بخوبی استعمال کرتا ہے۔ قدامت پسند تحریکوں کو فروغ دیتا ہے یا ان کے اردگرد ڈرامائی ماحول تخلیق کرتا ہے۔

تبدیلی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اس کے لئے شعوری طور پر کوشش کی جائے۔ صورتحال کو نہایت گہرائی سے سمجھا جائے۔ پھر لوگوں کو اجتماعی سطح پر یہ بات سمجھائی جائے اور سب سے اہم یہ کہ موثر طور پر عملی کوشش کی جائے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button