کالمز

وعدہِ تحصیل چھوربٹ، وفا نہ ہوا

محمد عرفان چھوربٹی

موسم سرما کی ایک خوشگوار صبح کو معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان کے پہلے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ علاقہ چھوربٹ کا دورہ کریں گے۔ سید مہدی شاہ اپنے سیاسی قد وکاٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وفادار کارکن ہونے کی بنا پر گلگت بلتستان کے سیاستدانوں میں منفرد مقام رکھتے تھے۔ ذرائع سے معلوم ہوا کہ وزیر اعلیٰ اپنے اس دورے میں چھوربٹ کو تحصیل کا درجہ دینے سمیت دیگر کئی اہم اعلانات کریں گے۔ سید مہدی شاہ کا علاقہ میں پر تپاک استقبال کیا گیا اور گاڑیوں کی لمبی قطار میں سکسا پہنچایا گیا، جہاں انہوں نے ہائی سکول سکسا میں اپنی پہلی سرکاری ملازمت کی یادیں تازہ کی ، بڑے اجتماع سے خطاب کیا اور علاقہ چھوربٹ کو تحصیل کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کو اہل علاقہ نے انتہائی مثبت قدم قرار دیا۔ چونکہ علاقہ چھوربٹ چودہ سے زائد موضوعات پر پھیلا وسیع و عریض خطہ ہے اور موجودہ دور میں انتظامی لہٰذ سے تحصیل خپلو کا حصہ ہے۔ چھوربٹ کے سب سے دور افتادہ گاوں فرانو سے خپلو خاص تک کا سفر گاڑی میں تین گھنٹے سے زائد کا وقت لیتا ہے اور اس کثیر آبادی کو کسی بھی سرکاری کام کے لئے خپلو کا سفر کرنا  پڑتا ہے۔ وہ تین گھنٹے گاڑی میں سفر طے کر کے جب خپلو پہنچتے ہیں تو وہاں پہنچتے پہنچتے دفاتر بند ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی سرکاری افسر موقع پر موجود نہ توانہیں معمولی سے کام کے لئے بھی کئی دن لگ جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کا دور جہاں دوسرے کئی نعروں اور وعدوں میں گزر گیا وہیں ایک اہم وعدہ تحصیل چھوربٹ کا قیام بھی تھا۔ اور پاکستان پیپلز پارٹی کا دور حکومت اپنے وعدے نبھانے میں ناکام ہو کر اختتام پذیر ہوا۔

یوں 2015 میں صوبے میں دوبارہ انتخابات کی تیاریاں شروع ہوئی، اس بار بھی ضلع گانچھے میں عوام کیساتھ سیاستدانوں نے سینکڑوں وعدے کئے اور پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی جانب سے کی جانے والے نعروں میں سر فہرست نہ صرف پیپلز پارٹی کے دور میں وفا نہ ہونے والے وعدہ یعنی تحصیل چھوربٹ کا تھا بلکہ کچھ مدبر سیاستدانوں نے ضلع گانچھے کی وسعت اور کثیرآٓبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نئے ضلع کے قیام کے حوالے سے بھی عوامی مطالبات کو مثبت انداز میں لیا۔

 ضلع گانچھے کے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والےتمام وامیدواروں کا یہ متفقہ دعوا تھا کہ اگر ضلع گانچھے سے انکی پارٹی کو اکثریتی ووٹ ملے اور کلین سویپ کیا تو وہ عوام کے تمام مطالبات کو پوراکرنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ   2015 میں ضلع گانچھے سے انتخابات میں حصہ لینے والے مسلم لیگ ن کے بیشتر امیدور دیگر جماعتوں کے امیدوراوں سے زیادہ قابل اور دور اندیش تھے اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام نے مسلم ن کو ضلع گانچھے میں بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی۔

علاقہ کے تینوں حلقوں سے مسلم لیگ ن کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی ملی اور پھر نمائندگی کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ گانچھے ہی سے تعلق رکھنے والے مسلم ن کے اہم رکن میجر محمد امین کو ٹیکنوکریٹ کی نشست اور مسلم ن کی متحرک خاتون رکن شیرین اختر کو خواتین کی مخصوص نشست پر گلگت بلتستان قنون ساز اسمبلی میں رکنیت دی گئی۔ ان پانچوں اراکین کی اسمبلی میں رکنیت کو عوامی سطح پر سراہا گیا اور امید کی نئی کرن کے طور پر دیکھا گیا کہ اب علاقے سے مسائل کا خاتمہ ہو گا۔ نئے حکومت کے قیام کے فوراْ بعد گلگت بلتستان کونسل کے لئے ممبران کا جب چنائو ہوا تو ضلع سکردو سے دو اور گانچھے سے صرف ایک ممبر کا چناو کیا گیا۔ ضلع گانچھے سے مسلم ن کے دیرینہ کارکن اور ضلعی صدر سلطان علی خان کو کونسل کا ممبر چنا گیا۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور کونسل دونوں کے قیام کو اب دو سال کا عرصہ ہونے والا ہے مگر ضلع گانچھے کے مسائل اور تحصیل چھوربٹ کے قیام کا وعدہ ابھی بھی اسی جگہ ساکن ہے جیسے پیپلز پارٹی چھوڑ گئی تھی۔

وقت کی ضرورت وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور گانچھے سے تعلق رکھنے والے ارکان اسبملی و رکن کونسل ضلع گانچھے کے مسائل کی طرف توجہ دین تاکہ انکا حال بھی پیپلز پارٹی کے سیاتدانوں کی طرح نہ ہو جائے۔

 اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عوام نے 2015 انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں پر بھر پور اعتماد کیا مگر اب لازم ہے کہ وہ بھی عوام کے اعتماد کا نہ صرف بھرم رکحھیں بلکہ آئندہ انتخابات میں بھی سرخ رو ہونے کے درواے کھلے رکھیں۔

صاحبِ مضمون ماسٹرز میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹیڈیز، ٹیکنیکل یونیوسٹی المناو جرمنی سے میڈیاک اینڈ کمیونیکیشن میں ماسٹرز ڈگری یافتہ ہیں۔ ان سے رابطہ کیجئے: irfanchourbati@gmail.com

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button