شعر و ادبکالمز

گوہر آباد میں چائے کی چسکیاں اور فدا علی ایثارکے ساتھ ادبی گفتگو

وہ دن اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ گزر رہا تھا جب میں اور استادِمحترم فدا علی ایثار غذر کے بالائی علاقوں کے دورے سے واپس گلگت جا رہے تھے۔ گوہر آباد پہنچ کر ہمارے قدم رُک سے گئے۔ ہمیں چائے پینی  تھی۔  چائے بھی کیا چیز ہے کہ بعض دفعہ اس کی ایک ایک چسکی ایسا لطف دینے لگتی ہے کہ دن بھر کی تھکن کافور ہوجاتی ہے۔

غذر کی خوبصورتی ،  چائے اورمہمان نوازی کے بارے میں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ جب آپ اس علاقے میں کسی  کے مہمان بن جاتے ہیں تو آپ کو چائے کی پہلی پیالی بخوشی، دوسری بالصبر اور تیسری بالجبر پینی پڑتی ہے۔ چٹورکھنڈ سے آتے ہوئے راستے میں بہت  سارے دلفریب مقامات کسی بھی سیاح کو خوابوں کی دُنیا میں پہنچا دینے کے لیے کافی ہیں۔ ہم بھی گاڑی کی کھڑکیوں سے باہر جھانک جھانک کے نہ صرف ان خوبصورت مناظر میں کھو جاتے بلکہ کوچدہ، برگل، فمانی، گلوداس ، سینگل ، گیچ ، دریا پار  بوبر اورجپوکے سے آتی گھنیر کی خوشبوؤں کو  محسوس ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ خوشبو ہماری انگ انگ میں داخل ہوکر ہمیں سرشار کر رہی تھی۔ گوہر آباد ہوٹل کے سبزہ زار میں بچھی کرسیوں پر بیٹھے  نہ جانے کیوں چائے کا ہر گھونٹ ایسا لطف دینے لگا تھا کہ اللہ اللہ۔

گوہر آباد گاؤں سے آتی گھنیر کی خوشبو میں رچی بسی ہوائیں اور نیچے دریائے غذر  کی طوفافی   لہروں کی آوازیں ایک عجیب سرشاری طاری کر رہی تھیں۔ اور ہماری حالت ایسی تھی کہ بقول اقبال ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو۔  اتنے میں استادِمحترم کی بھاری بھر کم آواز گونجی۔ ’’کریمی! چائے تو آپ جیسے نوجوانوں کے ہاتھ میں اچھی لگتی ہے ہم بوڑھے لوگ تو بس شوق پورا کر لیتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’استادِمحترم ! چائے تو چائے ہوتی ہے بوڑھے پئے یا جوان۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘

استادِ محترم چونکہ اردو ادب کے ساتھ ساتھ فارسی و عربی ادب میں بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ کہنے لگے کہ  چائے کیسی ہونی چاہئے اور کن لوگوں کو پینا چاہئے۔ فارسی ادب کے ایک دل جلے شاعر نے بڑے خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ آپ بھی سنئے اور لطف اُٹھائے۔

سیر کر دم از بخارا تا سمرقندِ شریف
ہر کُجا کر دم نظر در بزم خوبان است چائے
چائے و چینی درکفِ ہر ناسزا حیف است حیف
مثل گل خنداں بدستِ نوجوانان است چائے
چائے اگر در کاسۂ چینی بخندد مثل گل
گر فتد در کاسۂ چوبین بہ گریان است چائے

ترجمہ: ’’میں نے سمرقند سے لے کر بخارا تک کا سفر کیا جہاں جہاں میری نظر گئی میں نے حسینوں کی محفل میں چائے ہی چائے کا دَور چلتے دیکھا۔

چائے اور چائے کی چینی پیالی ایرے غیرے کے ہاتھ نظر آنا افسوس کی بات ہے چائے تو نوجوانوں کے ہاتھ میں ہنستے پھول کی طرح ہنستی ہے۔

چائے اگر چینی کی پیالی میں پھول کی طرح ہنستی ہے تو یہی چائے اگر لکڑی کے پیالے میں ڈالی جائے تو وہ روتی نظر آئے گی۔‘‘

اس خوبصورت نشست کے بعد گلگت کی طرف پھر ہماری مسافت شروع ہوئی تھی۔   اب ہم،  غذر روڈ،ہماری بھاگتی دوڑتی گاڑی، ہلکی میوزک اور شیرقلعہ، گلاپور اور دریا پار بارگو کی خوبصورتی۔۔۔ گویا ہم ایک  دفعہ پھر خوابوں کی دُنیا میں پہنچ چکے تھے۔ سچ کہا  ہےاحمد ندیم قاسمی نے۔

خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اُتریں
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یار زندہ ۔۔۔۔۔ صحبت باقی

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button