کالمز
جامعہ چترال کی کہانی اور رسہ کشی۔۔۔۔
جامعہ چترال کے لئِے سب پہلا قدم سابق تحصیل ناظم چترال اورموجودہ صدر چترال چیمبر آف کامرس جناب سرتاج احمد خان کے دور نظامت میں اٹھایا گیا اور آج تک موصوف اس حوالے سے جو دوڑ دھوپ کئے وہ قابل تحسین ہیں اور ان کا ذکر اگر کیا جائے تو وہ الگ داستان بن جائیں گے مگر جو آخری اور نتیجہ خیز ملاقات کے۔پی کے وزیراعلی جناب پرویزخٹک صاحب کے ساتھ 19 مئی 2016ء کو پشاور میں ہوا اور اس اجلاس میں بطور رکن بندہ ناچیز بھی اس وفد میں شامل تھا جو سرتاج احمد کی سربراہی میں وزیراعلی سے ملاقات کی۔ ملاقات کے آغاز میں ہی وزیراعلی نےکہا کہ سرتاج چترال یونیورسٹی کا جو تمہارا مطالبہ تھا بس وہ منظور ہوگیا ہے اور سوات جلسے میں خان صاحب اس کا ذکر بھی کریں گے اور آنے والے بجٹ میں اس کے لئے رقم بھی مختص کردی جائے گی اور ہو سکتا ہے رمضان کے بعد چترال میں ایک جلسہ بھی منعقد کروائیں گے۔ اس کے بعد جو دوسرے ایجنڈے تھے ان پر بحث کیا گیا اور یوں ہم ایک کامیاب اجلاس کے بعد سی۔ایم ہائوس پشاور سے باہر آئے۔ اس کے بعد چترال کے علم دوست طبقے میں ایک ولولہ پیدا ہوا اور مختلف کارنزمیٹنگز میں جامعہ زیر بحث آنا شروع ہوا اور 6 اگست 2016ء کو چترال اسٹوڈنٹس اینڈ سوشل ویلفئر ایسوسی ایشن کی جناب سے ایک سیمنار بعنوان "یو نیورسٹی آف چترال اور چترال کا مستقبل” منعقد ہوا جسمیں چترال بھر سے پی۔ایچ۔ڈی اسکالرز اور پروفیسرز صاحباں کے ساتھ ساتھ تمام ضلعی سیاسی قیادت کو بھی مدعو کیا گیا اور سیمینار میں جو متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا وہ بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔ سیمینار کے بعد تحریک انصاف چترال کا ایک سینئر نمائندہ ایک غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے اس معصومانہ خواہش کا برملا اظہار کیا کہ یونیورسٹی کو اگر خان صاحب کے نام سے موصوم کیا جائے تو کیسا ہوگا۔ مگر سخت تنقید کے بعد اپنے الفاظ واپس لینے پر مجبور تو ہوا مگراس معصومانہ خواہش سے یہ واضح ہوا کہ انسان لالچ اور خوشامد میں کس حد تک گر سکتا ہے اور قومی اداروں کو کسطرح ذاتی مفاد کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد جب صوبائی حکومت کی جانب سے جامعہ چترال کیلئے پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تقرری کا معاملہ سامنے آیا تو ایک نئی کہانی کی شروعات ہوئی جو کہ سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ رسہ کشی سے اب تک جاری ہے۔
ہوا یوں کہ جب پروجیکٹ ڈائریکٹر کے لئے تین نام فائنل کرکے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھجوایا گیا، جن میں ڈاکٹر حسن شیر جو کہ سوات یونیورسٹی میں تعینات ہے، ڈاکٹر اسماعیل ولی آئی۔ایم سائنسز پشاور اور پروفیسر ممتاز حسین ڈگری کالج چترال، شامل تھے۔ ڈاکٹر حسن شیر ذاتی مصروفیات کے سبب انکار کیا تو پیچھے جو نام باقی رہے ان کو ناکافی تجربے کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ نے ریجیکٹ کیا اور دوبارہ نام طلب کیا گیا۔ اور اس مرتبہ ڈاکٹر جمیل احمد چترالی جو کہ اس فلیڈ میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور پشاور یونیورسٹی میں تعینات ہیں، کا نام شامل کیا گیا اور چترال کی تمام سیاسی قیادت بھی ڈاکٹر جمیل کے نام پر اکتفا کر چکے تھے اور اس سلسلے میں ایم۔پی۔اے چترال ون اور دوسرے سیاسی نمائندون سے ہماری بات بھی ہوچکی تھی۔ بلاآخر ڈاکٹر موصوف کا نام اسٹیبلشمنٹ سے فائنل ہوا اور سمری سی۔ ایم ہائوس پہنچ گیا۔ وزیراعلی نے ڈاکٹر جمیل کے نام کو اوکے کیا اور سمری ہائیر ایجوکیشن کو فارورڈ کیا کہ جمیل احمد کو پی۔ڈی جامعہ چترال تعینات کرکے نوٹیفیکشن جاری کیا جائے۔ مگر جب یہ سمری ایڈیشنل سیکریٹری ہائیرایجوکیشن کے پاس پہنچا تو سیکریٹری صاحب بلبلا اٹھے اور وہ سمری لیکر کر صوبائی اسمبیلی کے اسپیکر(جسکے وہ کامریڈ بتائے جاتے ہیں) کے پاس پہنچ گئے اور اس کے ذرئعے وزیراعلی کو یہ کہہ کر راضی کیا کہ ڈاکٹر جمیل کا اے۔این۔پی کےساتھ سیاسی وابستگی ہے اور وہ جامعہ چترال کو سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرے گا اور چترال میں پی۔ٹی۔آئی کو سخت نقصان پہنچائے گا اور مختصر یہ کہ بیوروکریسی کے مذموم چال استعمال کرکے اسپیکر کو اور بعد میں اسی کے تھرو سی۔ایم کو بھی راضی کیا گیا اور ڈاکٹر جمیل کا نام ریجیکٹ کروایا۔
کہا جاتا ہے کہ موصوف (ایڈیشنل سیکریٹری ہائرایجوکیشن کے۔پی) صوابی وومین یونیورسٹی کا پروجیکٹ ڈائریکٹر رہ چکا ہے اور خردبورد کا کیس بھی اس کے خلاف دائر ہے۔ اور اس کی جو دلی خواہش ہے وہ کے۔پی کے اندار کسی ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنے کا ہے اور چونکہ اس کا یہ خواب صوابی میں پورا نہیں ہوا اور اب جامعہ چترال کے لئے پلان کر رہا تھا کہ کسی طرح کمزور امیدوار کو اگے لایا جائے بعد میں اپنے تعلقات بروئے کار لا کر خود وی۔سی بن کر اپنا دیرانہ خواب شرمندہ تعبیر کروا سکے مگر یہاں ڈاکٹر جمیل کی صورت میں ایک مضبوط نام سامنے آیا جو کہ سیکریٹری صاحب کی معصومانہ شوق یا پھر دیرانہ خوب، کی راہ میں بہت بڑی روکاوٹ تھی اور اسے روکنے کے لئے کسی بھی حد کو موصوف نے پار کرنا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر بادشاہ منیر کو پی۔ڈی جامعہ چترال تعینات کیا گیا ہے اور ڈاکٹر بادشاہ مینیر بھی پشاور یونیورسٹی کے اعلی عہدوں پر تعینات رہا ہے اور اس فیلڈ میں کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ مگر اس تعیناتی کو بھی عدالت میں چیلینج کیا گیا ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ نوٹیفیکشن کالعدم قرار دینے کے کافی چانسز ہیں مگر عدالتی کاروائی کے بارے میں رائے دینا توہین عدالت ہوگی اور انتظار ہی بہتر ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عدالت میں کیس درج کرنے والے صاحب کو یہ بات بھی علم نہیں ہے کہ ان کے نام کو ناکافی تجربے کی بنیاد پر مسترد کیا گیا ہے مگر نرگیسیت کا کوئی علاج نہیں ہے۔ موصوف نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ میرٹ پر ہیں اور میرٹ کے خلاف تعیناتی ہوئی ہے حالانکہ ہمارے ذائع سے یہ بات بھی کنفرم ہوئی ہے کہ موصوف کا نام سمری میں شامل کرانے میں ایک صوبائی سیکریٹری کا ہاتھ ہے جو پچھلے سال چترال کے دورے کے موقع پر چترال کی مقامی ہوٹل میں ٹہرا تھا اور وہاں ایک سرمایہ دار کی طرف سے زبردست مہمانوازی سے تین چار روز مسلسل لطف اندوز ہوتا رہا اور واپسی پر نمک حلالی کے طور پر اس سرمایہ دار کی سفارش پر موصوف کا نام سمری میں شامل کروایا اور جسے موصوف میرٹ سمجھ کر عدالت پہنچ چکے ہیں۔
چترال میں قیادت کی بحران اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس ساری صورت حال میں چترال کے منتخب نمائندوں کا کوئی پتہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس مسلے کی نوعیت کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چترال کا اہم قومی ادارہ قیام سے پہلے ہی تباہ کیا جا رہا ہے مگر قیادت کو خبر تک نہیں ہے۔ منتخب صوبائی نمائندوں کی بے ہسی جاننے کے لئے یہ بات ہی کافی ہے کہ انہیں ابھی تک یہ کنفرم نہیں ہوا کہ پی۔ڈی کی تعیناتی کے لئے نام کون اور کس کی مشاورت سے کر رہا ہے کیونکہ پہلی بار جب ان سے (چترال کے منتخب نمائندوں سے) ہماری بات ہوئی تھی تو دعوی یہ سامنے آیا تھا کہ پی۔ڈی جامعہ چترال کے لئے متفقہ طور پر ڈاکٹر جمیل کا نام فارورڈ کر چکے ہیں مگر سمری جب پہلی بار سامنے آیا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر جمیل کا نام موجود ہی نہیں ہے اور بعد میں جب شامل کیا گیا تو وہ بھی کسی اور کی مشاورت سے۔
اب مائیٹ از رائٹ کے اس فلسفے کے تحت رسہ کشی جاری ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کیا موقوف حکومت اپناتی ہے اور چترال کے منتخب نمائندے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اور اب یہ چترال کی ضلعی قیادت کا فرض ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کے بعد اگے آئیں اور میرٹ کے مطابق فیصلہ کریں اور سیاسی اور ذاتی مفاد کو بلائے طاق رکھتے ہوئے میرٹ کے مطابق تعیناتی پر زور دیں اور حکام بالا کو راضی کرکے اس قومی ادارے کو سیاست کی نظر ہونے سے بچا کر قومی نمائندہ ہونے کا ثبوت دیں ورنہ چترال کے نوجوان انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔