حضرت خضرؐ سے کسی نے دریافت کیا کہ کوئی عجوبہ دیکھا ہے تو بتا؟فرمایا کہ میں ایک سمندر کے کنارے گیا وہاں پر پہاڑی پر ایک گاؤں تھا گاؤں کے لوگوں سے سمندر کے بارے میں دریافت کیا لوگوں نے کہا ہمیں تومعلوم نہیں کہ کب سے یہ سمندر یہاں پر ہے۔میں واپس گیا،کئی سال بعد پھر وہاں پر آیا تو دیکھا کہ وہاں پر کوئی سمندر نہیں ریت کا ایک بے کراں صحرا ہے۔ لوگوں سے اس بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ ہمیں پتہ نہیں اس صحرا کے بارے میں۔۔۔۔میں واپس گیا پھر آیا دیکھا صحرا کہیں نہیں ایک ایک مصروف شہر آباد ہے۔پوچھا تو بتایا گیا کہ ہمیں اس شہر کی عمر کا پتہ نہیں۔کئی ہزار سال بعد واپس آیا تو اسی جگہ یونہی سمندر تھا۔میں اس تغیر ارضی پر ششدر ہوں یہ جغرافیائی تبدیلیاں اس زمین کا مقدر ہیں۔ کہیں سیلاب زلزلہ اس کی ہئیت بدل دیتا ہے کہیں مُرور زمانہ سے یہ آباد اور برباد ہوتی رہتی ہے۔اس زمین پر انسان کی زندگی انسانی تاریخ کہلاتی ہے جو ذرا اس سے مختلف اور مختصر ہے۔قومیں اُبھرتی ڈوبتی ہیں،آبادیاں بنتی بگڑتی ہیں۔اقتدار کا تاج سروں پر سجتے اور گرتے ہیں۔
شمالی علاقات میں چترال اور گلگت کی تین ہزار سالوں سے زیادہ معلوم تاریخ ہے اس مٹی پر یہی کشمکش رہی ہے۔جب سے یہ پہاڑ ،جھیلیں ،دریائیں،چشمے،صحرائیں بنے ہیں ان پر انسانوں کا غول دیکھا گیا۔کہیں خون خرابے،کہیں پیار محبت،کبھی دوستیاں دشمنیاں،کبھی حسد کینہ،بغض،کھنچا تانی۔۔۔۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ چترال اور گلگت دو بھائی ہیں۔یہ رشتہ اخوت اور محبت ،راجاؤں حکمرانوں ،حملہ آوروں یلغار کنندوں اور داغہ بازوں کی کارستانیاں بھی ختم نہ کرسکیں۔یہ بھائی بھائی ہی رہے۔ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے رہے ان کی آپس میں نفرت کبھی نہ اُبھری۔چترال مستوج،لاسپور شندور ،پھنڈر ،گاہکوچ،پنیال،یسین ورشگوم ان میں جو سب سے بڑا رشتہ ہے وہ زبان کارشتہ ہے۔پھنڈر میں ٹوپی پہنی جاتی ہے اور کھوار بولی جاتی ہے کون کہتا ہے کہ وہ کوئی علاقہ غیر ہے۔وہ چترال ہے،گاہکوچ ،پنیال،ورشگوم میں جاکر کوئی محسوس نہیں کرتا کہ بندہ چترال میں ہے یا گلگت میں،پھنڈر کا باشندہ چترال آکر احساس نہیں کرتاکہ وہ اپنے گھر سے دور ہے۔یہ رشتہ ختم کیسے کیا جاسکتاہے۔اس سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے۔شندور دونوں کی خوبصورتی ہے،دونوں کی پہچان ہے۔قدرت نے خود حد بندی بنائی ہے۔جھیلِ شندور پر گلگت کی طرف جانے والی ندیاں ،پھر اُس طرف کی اُترائی کھائی پھر زمانہ قدیم سے چراگاہوں کی نسبت اُسی پگڈنڈیوں پر کاروان حملہ آور فوجی یلغار،انگریز فوجیں توپوں کو کھینچ کے لانا چترال کے حکمرانوں کا گلگت پر اور گلگت کے حکمرانوں کا چترال پر اپنی مخاصمت کے وجہ سے حملے،پھر کشمیر کے راجا سے لڑائی،بہادری کی داستانیں یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔اور میری کم دانست میں مشترکہ تاریخ کا حصہ ہیں۔
اگر یہ تاریخ مشترک ہے تو ہم ایرے غیرے نہیں ہیں۔اور نہ کبھی رہے ہیں۔میں تین بار گلگت گیا مجھے تاریخی حقیقتوں کو نہیں چھیڑنا،مجھے تنازعات پر تبصرہ نہیں کرنا،مجھے فاصلوں ،حدبندیوں کو ڈسکس نہیں کرنا۔مجھے چراہ گاہوں کا تعارف پیش نہیں کرنا ،مجھے صرف اس بات کو ڈسکس کرنا ہے جوگلگتی بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے میرے حصے میں آئی۔میں ایک ورک شاپ میں تھا،میری پریزنٹیشن پر پنیال سے ایک بہن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’چترالی بھائی‘‘ میرے بھائی ‘‘ مجھے یاد ہے ،ورکشاپ کے آخر میں وہاں AKRSPکے جی ایم نے میری ایک غیر معیاری نظم جو اردو میں تھی اور اُس مناسب حال پہ تھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج میں نے ایک عظیم شاعر کو سُنا جو چترال اور گلگت دونوں کا ایک لائق فائق بیٹا ہے۔ایک ادبی وفد کے ساتھ گیا تو ہمارے اعزاز میں محفلیں جمی،گلگت کے مشہور فنکاروں نے ہمارے اعزاز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔عبدالخالق تاج،جمشید دکھی نے ہمارے اعزاز میں پروگرام کیا۔گلگت کے چیف جسٹس راجہ جلال الدین ہمیں اپنے گھر لے گئے۔مجھے یاد ہے کہ ملکہ خود ہمیں ملنے آئی اور میری پیشانی چھوم کر کہا کہ تمہیں پتہ ہے بیٹا میرا ننھیال تورکہو میں ہے۔میںآپ کی بیٹی ہوں۔ہمارے اعزاز میں روایتی موسیقی کا بندوبست کیا گیا،مجھے یہ سب محبتیں یاد ہیں۔
دوچار سالوں سے شندور میلہ کے موقع پر چند تندو ترش جملوں کا جب تبادلہ ہوتا ہے تو میں ٹرپ اُٹھتا ہوں کہ دو پیار کرنے والوں میں تلخی اور دوری کیسے ممکن ہے ۔ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔یہ محبت ہماری روحوں میں رچ بس گئی ہے۔مسئلہ کم بخت پیسوں کا ہے مراعات کا ہے۔اشرافیہ کا ٹکراو ہے ۔۔۔۔ ایک طرف چراگاہ کا حق تسلیم ہے مسٹر کاب کے پولو کھیلنے کے ثبوت فراہم ہیں ۔۔۔۔۔ تاریخی حقائق واضح ہیں۔ ایک طرف حق ہمسائیگی ہے۔صوبے کی انا ہے، برابر شرکت کا مسئلہ ہے۔فیسٹیول کو کامیاب کرنے کا سہراہے۔
بھائیوں کے آپس میں مل بیٹھنے اور چند لمحے ہنسی خوشی گذارنے کامسئلہ ہے۔دنیا میں تعارف کا مسئلہ ہے گلگت اور چترال کو بین القوامی طورپر متعارف کرنے کا مسئلہ ہے۔CPECآئے گا تو کیا ہوگا۔یہی کچھ ہوگا کہ گلگت چترال دونوں مستفید ہونگے۔ترقی خوشحالی آئے گی۔اب بھی پیسہ آتا ہے۔شندور میں لوگ دکان کرتے ہیں۔کاروبار کرتے ہیں۔دونوں طرف سے لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ٹرانسپورٹروں کا فائدہ ہوتا ہے سیاح دونوں طرف سے آتے ہیں۔گلگت کی طرف کاعلاقہ شندور سے خوبصورت ہے۔گولوغ موڑی تک جنت ہے اس کو پروجیکٹ کیا جائے۔فاصلے مٹائے جائیں۔حقائق تسلیم کیا جائے۔دونوں طرف کے عوام یہی چاہتے ہیں۔مٹی کو متنازعہ بنانے سے تاریخ مسخ نہیں ہوسکتی۔خدا نہ کرے کہ یہ دوصوبوں کا مسئلہ بن جائے اور دوریاں بڑھے۔
ہم دعا گو ہیں ،محبت خود دعا ہے ہم محبت سے ایک دوسرے کو جیت جائیں گے۔ہم ایک ہیں ایک رہیں گے۔مجھے یقین ہے کہ مجھ جیسا ادنا شہری جو گلگت میں رہتا ہو، یا چترال میں، اپنا ضمیر جھنجھوڑے گا اور اگر کہے گا کہ شندور چترال کا ہے اور جو یقیناًکہے گا کہ چترال ہمارا ہے۔
محبتیں عالم فتح کرتی ہیں۔دیکھتے ہیں ہماری محبتیں کیا رنگ لاتی ہیں۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button