کالمز

رانگ نمبر

ہر معاشرے شعبے اور ملک و قوم میں رانگ نمبروں کی بھر مار ہے لیکن پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش میں تو ان رانگ نمبروں نے پورے سماج کو کالیں کر کر کے نیٹ ورک کو برباد کر دیا ہے ۔ان رانگ نمبروں کیلئے کال بھی سستی ہے اور نیٹ ورک بھی کھبی مصروف نہیں ہوتا ،جہاں چاہیں اور جس وقت چاہیں کال ملا سکتے ہیں ۔ستم یہ کہ ذہنی پسماندی کا یہ عالم ہے کہ جس کو رانگ نمبر سے کال جائے اسے شٹ اپ کال دینے کی بجائے اس کی مزید عزت افزائی کی جاتی ہے ۔جو معاشرے کا بڑا فراڈیا ہوگا غریبوں کے مال پر ہاتھ صاف کرکے اتراتا ہو اس کے نمبر پر کال کروتو مولانا طارق جمیل کی تقریر کے الفاظ ،مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے ،والی ٹون لگی ہو گی حالانکہ مزدور کے پسینے کیا آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں سے مزدوری وصول نہیں ہوتی۔جو نماز ایک وقت کی نہیں پڑھتے انہیں کال کرو تو آگے سے نماز کی تلقین کی ٹون لگی ہوگی ۔غرض قول و فعل کے اس تضاد کو ہم رانگ نمبر کا عنوان دے سکتے ہیں ۔مشہور زمانہ عامر خان کی فلم (pk )میں رانگ نمبروں کی جیسے نشا ندہی کی گئی ہے ایسے ہی اپنے آس پاس دیکھیں تو رانگ نمبروں کی ہی بھر مار نظر آئے گی لیکن سب کچھ نظر آنے کے بعد بھی اسی طرح رانگ نمبر چلتے رہتے ہیں ہم آواز نہیں اٹھا سکتے ،اٹھائیں بھی کیسے ان رانگ نمبروں سے آنے والی کالوں نے سماج کو اپنا عادی بنا دیا ہے جیسے ہی کوئی ان رانگ نمبروں کے خلاف آواز اٹھائے پورا سماج اسے گستاخ قرار دے کر قتل کرنے کے در پے ہوتا ہے ،ایسا ہی ایک رانگ نمبر گرو گرمیت رام رحیم کی بھارت میں کال بند اور نیٹ ورک مصروف کر دیا گیا تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے سینکڑوں زخمی اور درجنوں موت کے منہ میں چلے گئے ۔گرو گرمیت کا رانگ نمبرتو اپنے انجام کو پہنچ گیا لیکن ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو کتنے رانگ نمبر ہیں جو کھبی مذہبی کال ملاتے ہیں کھبی روحانی تو کھبی سیاسی ،یہ رانگ نمبر جو نیٹ ورک مصروف نہ ہو اسی سے کال ملا کر پورے سماج کے ذہنوں کو رانگ سائٹ پر چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔پاکستان ہندوستان اور بالخصوص وہ ممالک جہاں غربت و جہالت زیادہ ہے۔ ہر محلے اور ہر علاقے میں رانگ نمبروں نے اپنا نیٹ ورک ایسے پھیلایا ہے کہ ہمیں بھی خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے ہی گھر میں بھی ان رانگ نمبر کی کال سننے والا کوئی ہے یہ عقدہ تو تب کھلتا ہے جب اس رانگ نمبر والے گرو کی اصلیت سماج کے سامنے آتی ہے۔آج کل مذہبی رانگ نمبروں کے ساتھ ساتھ سیاسی رانگ نمبر بھی سماج کے نیٹ ورک میں پھیل چکے ہیں ۔سیاسی مخالفت پر پگڑی اچھالنا ،گالم گلوچ اور دشنام طرازی کو ہم رانگ نمبر ہی کہہ سکتے ہیں ۔اسی طرح مذہبی رانگ نمبروں کی بھی مختلف شکلیں ہیں جو ہر علاقے اور ہر مسلک کے مزاج کے مطابق کال ملاتے ہیں ۔

جہاں تک موبائل کمپنیوں کی بات ہے تو ان کمپنیوں نے بھی سستی کالوں اور مختلف پکیجز سے بھی سماج کو بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

مختلف موبائل کمپنیوں کی طرف سے مفت ایس ایم ایس (میسجیز)اور مفت کالوں کی سروسز شروع کرکے ہر کسی کو خاص طور پر نوجوان نسل کو رانگ نمبرز ملانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے پیکج لے کر اکثر نوجوان جان بوجھ کر’’رانگ نمبر‘‘ ملاتے رہتے ہیں اور نمبر ملنے کے بعد اگر دوسری طرف سے اگر کوئی صاحب گرجدار اواز میں ’’ہیلو‘‘ کہہ دیتے ہیں تو کال ملانے والا ’’شیر‘‘ فوری طور پر’’گیدڑ‘‘بن کر ’’سوری رانگ نمبر‘‘‘‘کہہ کر فون بند کرتے ہیں اور اگر کہیں سے کوئی نسوانی اواز آئے تو پھر انہیں چھیڑنا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات بڑی بڑی دشمنیاں بھی جنم لیکر اب تک سینکڑوں افراد لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں ۔

ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ادراک ہوگا کہ ہم تو ہر طرف سے ان رانگ نمبروں کی کالوں میں الجھے ہیں ن رانگ نمبروں نے ہمارے مذہب سے لے کر سیاست اور سماج کو گندا کر دیا ہے لیکن ہم بولتے نہیں ہیں ۔شاید ہمیں اب ان رانگ کالوں کی عادت ہو چکی ہے یا ہمیں خوف ہے کہ ہم لب ہلائیں گے تو مذہبی ،سیاسی اور سماجی منافرت کا شکار ہوں گے ،اس خوف کو ہم نے اپنے اندر سے نکالنا ہوگا ۔بھارت کا گرو رام رحیم بھی اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ اس پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو پورا بھارت الٹ پلٹ ہوگا لیکن چند مظاہرے ہوئے اورتیس بے گناہ انسانوں کو مار دیا گیا ۔ نہ بھارت کا نظام رکا نہ بھارت الٹ سے پلٹ ہوا ہاں البتہ رام رحیم کی طلسماتی دنیا کے گناہ دنیا کے سامنے ضرور آئے ،زرا سوچیں ہمارے ارد گرد کتنے ایسے کردار ہیں جو ہمیں کھبی خوف تو کھبی خوابوں کے جہاں میں لے جا کر گمراہ کر رہے ہیں لیکن خود ہر طرح کی جدید آسائیشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔کتنے قصے کہانیاں ہیں جو ہم روز سنتے ہیں کہ فلاں علاقے میں جعلی پیر اور جعلی بابے نے صنف نازک کو اپنے جال میں پھنسا کر حوس کا نشانہ بنایا ،کتنے ایسے جعلی پیر اور بابے ہیں جو غریب لوگوں کومذہب کے نام پر جمع پونجی سے محروم کرتے ہیں ۔کیا سب یہ رانگ نمبر نہیں ہیں ۔ہم نے اگر مذہبی ،سیاسی ،روحانی اور سماجی نیٹ ورک کو صاف شفاف رکھنا ہے تو ان رانگ نمبروں سے آنے والی کالوں کو بلاک کرنا ہوگا ،کیا ہم ان رانگ نمبروں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کر سکتے ہیں ۔بہت کچھ کر سکتے ہیں صرف ہمت اور انسانیت کی بھلائی کا جذبہ ہونا چاہئے۔ہمیں بھی گرو رام رحیم کی طرح کرداروں کو بے نقاب کر کے معاشرے کو ان کے شر سے بچانے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button