طویل کوششوں اور جدوجہد کے بعد بالآخر سب ڈویژن مستوج کے ورکرز نے اپنا دیرینہ مطالبہ یعنی چترال کے لئے دو علیحدہ علیحدہ پارٹی سیٹ اپ کی تشکیل کو منوانے میں کامیاب ہوگئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی ضلعی ،صوبائی اورمرکزی قیادت نے سب ڈویژن مستوج کے جیالوں کے پرزور مطالبے پر چترال کی جغرافیائی محل وقوع کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں دو علیحدہ اور خودمختار ضلعی کابینہ کی تشکیل کی منظوری دے دی ۔ اس فارمولے کے مطابق گزشتہ دنوں بونی میں سب ڈویژن مستوج کے جیالوں کا ایک کنویشن منعقد ہوا جس میں خصوصیت کے ساتھ اپر چترال کے لئے علیحدہ کابینہ کی تشکیل پر رائے شماری ہوئی ۔جس میں دو پینل مد مقابل تھے، ذرائع کے مطابق ان میں سے سابق ناظم یوسی چرون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن امیر اللہ کے پینل کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی۔اپر چترال کے لئے پارٹی قیادت کا یہ چناؤ خالص جمہوری اندازمیں انتخابی عمل سے مکمل ہوا۔ کنونشن میں شریک جیالوں نے اپنے من پسند پسند پینلز کے حق میں ووٹ کاسٹ کئے ۔ اور یوں غیر حتمی نتائج کے مطابق امیر اللہ صدر، حمید جلال جنرل سیکرٹری اور پرویز انفارمیشن سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ البتہ مرکزی قیادت کی جانب سے ان کی نوٹفیکشن آناابھی باقی ہے۔
اس فیصلے کے بعد ہارنے والے اہلکار شور مچا رہے ہیں کہ جیتنے والوں نے اپنے من پسند افراد افراد کو بونی میں بلا کر ان کے ذریعے خود کو جتو ا کر پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔یہ مٹھی بھر افراد وکررز کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔حالانکہ الیکشن کے حوالے سے کئی ہفتے قبل ہی ورکرزکو مطلع کیا گیا تھا جس میں ہر یوسی سے مختلف افراد کو اپنے متعلقہ یوسیز سے جیالوں کو اس میٹنگ میں شامل ہوکر نئے عہدے داروں کے چناؤ کا ٹاسک دیا گیا تھا۔جو لوگ آج اس فیصلے کو ماننے سے منکر ہے ان کے لئے نیک مشورہ تو یہ ہے کہ اس میٹنگ کا سب کو علم تھا پھر کیوں اپنے حمایت یافتہ افراد کو وہ جمع نہ کر سکے۔ جب الیکشن کے دن پیپلز پارٹی کے سابق ضلعی جنرل سیکرٹری حکیم خان سمیت کئی عہدے دار وہاں تشریف لائے جس میں حکیم خان نے باقاعدہ اعلان کیا کہ انہیں صوبائی صدر انجینئرہمایون خان نے ٹاسک دیا ہے کہ وہ اپر چترال میں نئی تنظیم کے حوالے سے ورکرز جو بھی فیصلہ کریں وہ فیصلہ صوبائی قیادت تک پہنچائے ۔ اس سلسلے میں جب بونی میں ورکرز سے پوچھا گیا تو سارے وکرز کی جانب سے پاپولر ووٹ کے ذریعے نئے عہدے داروں کے چناؤ کی تائید کی جبکہ اس وقت کچھ افراد بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ چونکہ پیپلز پارٹی میں الیکشن کلچر نہیں لہذا ہم الیکشن پراسس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ، اس کے بعد جب ورکرز کا دباؤ بڑھا تودوپینل کے ساتھ ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا اس دوران ایک پینل نے الیکشن کے بائیکاٹ کااعلان کردیا س کے بعد مسلسل یہ شوشہ چھوڑاجارہا ہے کہ اس کنونشن میں زیادہ تر تعداد پی ٹی آئی اور دوسرے جماعتوں کے ورکرز شامل تھے ، جن کے ذریعے امیر اللہ کا پینل جیت گیا ۔ کیا کوئی یہ بتا سکتے ہیں کہ بونی میں منعقدہ اس کنونشن جس میں اپر چترال کے لئے پارٹی قیادت کا انتخاب ہوا اس میں جیالوں کے علاوہ دوسرے جماعتوں کے کونسے کونسے اہلکاراور کارکن شامل تھے ۔ کیا دوسرے جماعتوں کے ان کارکنان کا نام کوئی بتا سکتے ہیں ؟
اس انتخاب کے بعد اپر چترال کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی متوقع ہے ،تمام تر سیاسی اختلاف کے باؤجوداس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بغیر کسی عہدے ، مراعات یا لالچ کے سابق ناظم امیر اللہ کی قیادت میں گزشتہ ایک آدھ برس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کو اپر چترال میں کئی عشروں بعد جان ملی ہے وہیں ان کے بطور صدر انتخاب سے اگلے الیکشن پر بھی اثرات متوقع ہے۔ ان دنوں ذرائع ابلاع پر یہ خبرین بھی محو گردش ہے کہ بعض سیاسی یتیم اب پیپلز پارٹی میں ٹیک اوور کرکے اگلے الیکشن میں ٹکٹ پر قبضے کے خواہاں ہے جبکہ نظریاتی جیالے اوپر سے مسلط کردہ کسی بھی ٹکٹ ہولڈر کو قبول کرنے کوتیار نہیں ۔ ایسے وقت میں موجودہ پینل کی کامیابی سے ان کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔اگر پیپلز پارٹی کی صوبائی ومرکزی قیادت نے ٹکٹوں کی تقسیم میں اپنی من مانی کی بجائے سب ڈویژن مستوج کے نو منتخب کابینہ کو اعتماد میں لیا تو اپر چترال میں پیپلز پارٹی ایک ناقابل تسخیر جماعت بن کے ابھر سکتی ہے ۔ اس کی بجائے اوپر سے امیدوار مسلط کرنے کی صورت میں اس کے بھیانک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button