تحریر : فواد صادق
یہ تحریر گلگت بلتستان کے باسیوں تک پہنچانی اس لئے ضروری ہے کہ جیسے ہم دیگر بہت سے معاملات میں بہت پیچھے ہیں اسی طرح جدید مواصلاتی سہولیات کے حوالے سے بھی گلگت بلتستان بہت پیچھے ہے۔ چونکہ ہم اب کہیں جاکر تھری جی اور فور جی سے شناسائی حاصل کررہے ہیں لیکن ملک کے دیگر حصو ں میں اس کا استعمال کئی سالوں سے معمول کا حصہ ہے۔ لہٰذا فور جی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقوں میں پہنچنے کے بعد اس کے مختلف قسم کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوں گے۔ وہ اثرات مثبت بھی ہوں گے اور منفی بھی۔ اب یہ کہساروں کے باسیوں پر منحصر ہے کہ وہ اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہتر انداز میں کرتے ہیں یا پھر اس کی تباہی کو اپنے کھاتے ہیں لانے کی کوشش کرتے ہیں؟
آج کے دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت کواس لئے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا سوشل میڈیا معاشرے میں اس حد تک سراعت کرچکا ہے کہ شائد ہی کوئی اور شے یا زریعہ ہو جو افراد کے ذہنوں پر اتنا تیز اثر کرتا ہو جتنا کی آج کا سوشل میڈیا اپنے نتائج اخذ کررہا ہے۔ انٹر نیٹ تک آسان اور کم خرچ رسائی کی وجہ سے عوامی سطح پر سوشل میڈیا کا استعمال اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اسکے معاشرے پر اثرات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے کہیں زیادہ تیز اور موثر ہیں خصوصا نوجوان نسل میں خواہ وہ تعلیم یافتہ ہے یا غیر تعلیم یافتہ یہ یکساں طور پر مقبولیت اختیار کرچکا ہے۔ سوشل میڈیا سے مراد انٹرنیٹ بلاگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس یعنی ایس ایم ایس, فیس بک , ٹوئٹر، مائی اسپیس، گوگل پلس ، ڈگ ، یوٹیوب, واٹس ایپ اور روابط کی دیگر ویب سائٹس اور موبائل ایپ ہیں۔ اور ان پلیٹ فارمز پر روزانہ کی بنیاد پر اضافہ بھی ہورہا ہے
سوشل میڈیا کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت کی ایک اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس کو استعمال کرنے والوں کو اس میں شرکت اور شمولیت کا بھی بھر پور موقعہ میسر ہے۔ مطلب کہ دنیا بھر میں
جہاں کہیں بھی معلومات ویڈیوز یا دیگر مواد اپ لوڈ ہوتا ہے تو اسے دنیا کے ہر کونے سے ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ اور اگر کوئی فرد اس طرح کا مواد یا اپنے خیالات یا نظریات دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے تو اسکو کو اس کام کے لئے بھی پورا موقعہ میسر ہے۔ تصویر تحریری مواد یا ویڈیو شیئر کریں گے تو اسےبھی پوری دنیا میں بذریعہ انٹرنیٹ دیکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ سوشل میڈیا کی مقبولیت کی بنیادی ترین وجہ ہے۔
سوشل میڈیا یا انٹر نیٹ کے استعمال یا نہ کرنے کے حوالے سے دینی حلقوں میں شروع ہی سے بحث چلی آرہی ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق انٹر نیٹ چونکہ بد نظری کا باعث بنتا ہے اوراسکے استعمال کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لہذٰا اسکو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انٹر نیٹ غیر مسلموں کی ایجاد ہے اور وہ اسکو اسلام کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ اور دوسرا موقف یہ بھی ہے کہ انٹر نیٹ یا سوشل میڈیا کے استعمال سے بدنظری عنصر نمایاں ہے۔
دینی رہنماوں کے اس موقف کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین سے تعلق رکھنے والے افراد کی بہت بڑی تعداد نے طویل عرصے تک سوشل میڈیا سے گریز کیا۔ جس سے اسلام کے خلاف پروپگنڈہ کرنے والوں کو کھل کر کھیلنے کا موقعہ ملا۔
ایک طویل عرصے تک مسلمانوں کی انٹرنیٹ سے دوری کا فائدہ نہ صرف اسلام دشمنوں نے بلکہ ایسے عناصر نے بھی اٹھایا جنہوں نے کھل کر نہ صرف اسلام کا منفی تاثر قائم کرنے کی کوشش کی اور سوشل میڈیا پر اسلامی تشخص کوشدید نقصان پہنچایا کچھ عناصر نے اسلام کو دہشتگردی سے جوڑ کر دیگر مذاہب اور اقوام کے سامنے یہ تاثر دیا کہ مسلمان انتہا پسند اور دہشتگرد ہیں۔خاص طور پر قادیانیوں نے ایک منظم انداز میں پوری مہم چلائی جس میں انہوں نے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ اسلام اصل داعی وہ ہیں، انہوں نے نعوزبااللہ قرآنی آیات اور احادیث میں تحریف اور اسلامی معاشروں کے متعلق من گھڑت اور بے بنیاد باتیں انٹر نیٹ کی مدد سے سوشل میڈیا پر پھیلائیں جس کا جواب دینے کے
لئے طویل عرصے تک اہل علم میں سے کوئی موجود نہ تھا۔ یا بہت کم لوگ ان کی غلط باتوں کا جواب دینے کے لئے سوشل میڈیا پر موجود تھے۔
سوشل میڈیا پر ایسے عناصر جن کا اسلام اور اسلامی معاشرے سے ذرہ بھر بھی تعلق نہیں وہ اسلام کے نام پر میدان میں آئے اور فرقہ واریت اور دہشتگردی کو ہوا دی۔ اور اسلامی تشخص کو بے حد نقصان پہنچایا۔دیندار حلقوں کی سوشل میڈیا پر عدم موجودگی کا سب سے زیادہ فائدہ ان سیکولر نظریات کے حامل عناصر نے اٹھایا جو تعلیم اور ٹیکنالوجی سے شناسائی کی بنا ء پر جدید مواصلاتی ٹولز کو بہتر انداز میں استعمال میں لاسکتے تھے۔ انہوں نے سیکولر نظریات کے نام پر سنت اور حدیث کامذاق اڑایا جس کا عملی نمونہ گزشتہ چند سالوں سے گستاخانہ مواد اور بلاگرز کے نام سے خاصی شہرت حاصل کرچکا ہے۔
لیکن دیندار لوگوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے انٹر نیٹ اورسوشل میڈیا کو رد کرنے والے معاملے کی نفی کی گو کہ شروع میں انکی تعداد خاصی کم تھی لیکن آہستہ آہستہ ان کے ہم خیال لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
انکا خیال تھا کہ جیسے دنیا بھر میں نئی ایجادات ہورہی ہیں ان کے منفی اور مثبت استعمال کا دارومدا تو اسکو استعمال کرنے والے پر ہے کہ وہ اسکا درست استعمال کرتا ہے یا غلط۔ جیسے ایک جدید ایجاد ، سواری یا گاڑی کو کسی بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے، اسے اچھے کام کے لئے بھی چلایا جاتا ہے اور برے کام کے لئے بھی گاڑی استعمال میں لائی جاتی ہے۔گاڑی ثواب کے کام کے لئے جانے کے لئے بھی استعمال ہوسکتی ہے اور گناہ کے ارتکاب کے لئے بھی استعمال کی جاسکتی ہے اسی طرح انٹرنیٹ کا درست اور غلط استعمال کا دارومدار تو اسکو استعمال کرنے والے کی نیت پر ہے۔ جبکہ ایجاد کے حوالے سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر انٹرنیٹ غیر مسلموں کی ایجاد ہے تو دنیا بھر میں کم وبیش جتنی بھی جدید ایجادات ہیں ، یہ
مواصلاتی نظام، گاڑیاں ہوائی جہاز یہ سب بھی تو غیر مسلموں ہی کی ایجادات ہیں۔ اور اگر کوئی انٹر نیٹ کو اسلام کے خلاف اور فحاشی پھیلانے کے لئے استعمال میں لارہا ہے تو، اسی انٹرنیٹ کو ہم اسلام کی تبلیغ ، ترویج اور تشریح کے لئے بھی تو استعمال کرنے میں کوئی ظاہری ممانعت تو نہیں ہے۔ ہم اس انٹر نیٹ اور اس پر موجود سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں بھی تو استعمال کرسکتے ہیں انہیں دین کی ترویج کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button