ننھی آشا جب کبھی مجھے بہت ڈسٹرب کرتی ہے۔ میری اسٹیڈی میں مخل ہوتی ہے۔ کاندھوں پر سوار ہوکے ضد کرتی ہے بابا گھوڑا بنو ناں۔ ایک حد تک تو ان کی معصوم خواہشوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن کبھی وہ حد سے گزرتی ہے تو ایک ہلکا سا تھپڑ مارنا ہی پڑتا ہے۔ تو پتہ ہے ایک دم ان کی سرمہ بھری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور اپنی توتلی زبان میں کہتی ہے: ’’بابا! تم نے آشا کو مالا؟‘‘ یعنی بابا! آپ نے آشا کو مارا؟ یہ کہتے ہوئے وہ مجھ سے لپٹ جاتی ہے۔ مجھے مجبوراً کتاب چھوڑ کے آشا کی دلجوئی کرنی پڑتی ہے۔ کاندھوں پر اٹھا کر پورے باغ کی سیر کرنا پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکے ننھی آشا اور بابا کے درمیان ناراضگی دور ہوجاتی ہے۔ پھر وہی ضد، وہی شرارتیں اور وہی معصوم خواہشیں کہ ’’بابا! گھوڑا بنو ناں۔‘‘ اس دن تو آشا نے حد کردی۔ آدھی رات کو جاگ کے کہنے لگی۔ ’’بابا! مجھے شکول (سکول) نہیں جانا۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں نہیں جاؤگی؟‘‘ کہنے لگی۔ ’’ٹیچل (ٹیچر) نے مجھے آج شٹال (سٹار) نہیں دیا۔‘‘ میں نے کہا ’’بابا جانی میں ٹیچر کو کہوں گا کل وہ تمہیں بہت سارے سٹارز دینگے۔‘‘ تب کہیں جاکے وہ نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
کبھی کبھی میں سوچ کے پریشان ہوجاتا ہوں کہ جس گھر میں بچے نہ ہوں اور خصوصاً بیٹیاں نہ ہوں وہ گھر کتنا ویراں لگتا ہوگا۔ اور جس گھر میں بیٹیاں تو ہوں لیکن ان کے قدرداں نہ ہوں اس گھر کو سنساں ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں بیٹی کی نہیں بیٹے کی قدر ہے۔ گھر میں جو اچھی چیز پکتی ہے وہ بیٹے کے لیے دی جاتی ہے۔ جس سے اپنے گھر میں ہی بیٹی ناانصافی کا شکار ہونے کی عادت اپنالیتی ہے۔ پھر ایک سلسلہ چلتا ہے اچھی خوراک، اچھا لباس اور اچھی تعلیم سب بیٹے کے نام۔ اکثر والدین کا کہنا ہے بیٹی پڑھ لکھ کے کیا کرے گی۔ اس کو تو پیا گھر سدھارنا ہے۔ گھر داری اور بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ بیٹی اسی سوچ و ناانصافی کے سہارے میکے سے سسرال تک کا سفر کرتی ہے۔ بیٹی بن کے محبت و عزت نہ پانے والی اب بہو بن کے کیا کرسکتی ہے۔ ذرا سوچئے جس بیٹی کو اپنے والدین کے گھر میں عزت و محبت نہ ملے وہ سسرال میں کیا خاک عزت و محبت کی توقع رکھے گی۔ رہی سہی کسر غربت نکال دیتی ہے۔
میرے دوست خوشی محمد طارق نے خوبصورت شعر کہا ہے؎
کسی مجبور کے گھر میں جواں ہونا قیامت ہے
جو پیدا ہی نہ ہوں وہ بیٹیاں خوش بخت ہوتی ہیں
حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب اپنی بہن یا بیٹی کو تعلیم نہ دینے والے اپنی بیوی کی چیک اپ کے لیے لیڈی ڈاکٹرز ڈھونڈنے کے لیے ہسپتالوں اور بازاروں کی خاک چھانتے ہیں۔
:سرسلطان محمد شاہ آغا خان (سوئم) نے بہت پہلے اپنے ایک فرمان میں فرمایا تھا:
’’آپ کے اگر دو بچے (ایک بیٹا اور ایک بیٹی) ہوں اور آپ ان میں سے کسی ایک کو تعلیم دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو آپ بیٹی کو تعلیم دلائیں۔ اگر آپ بیٹے کو تعلیم دینگے تو صرف ایک فرد کی تعلیم ہوگی اگر بیٹی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرینگے تو گویا آپ پورے خاندان کو تعلیم دے رہے ہوتے ہیں۔‘‘
آج لڑکیوں کا بین الاقوامی دن ہے۔ آئیں اس دن ہم یہ عہد کریں کہ جتنی اہمیت ہم بیٹے کو دیتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ اہمیت ہمیں اپنی بیٹیوں کو دینا ہوگا۔ تاکہ بیس پچیس سالوں بعد آنے والی ہماری نسل تعلیم یافتہ ہو اور ہم دُنیا کے نقشے پر ایک باعزت قوم کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاسکے۔
کسی مفکر نے کہا تھا:
’’آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔‘‘
بیٹیوں کے نام لکھے گئے کیفی اعظمی کے ان اشعار اور ننھی آشا اور تمام بیٹیوں کے لیے ڈھیروں پیار کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔
قدر اب تک تیری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں، بس اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے، دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے ایک چیز، جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button