تحریر آعجاز ہلبی
اگر تاریخ کے اوراق کو ٹٹول کر دیکھا جائے تو بہت ساری خوبیوں اور خامیوں کیساتھ یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ جنگ جوئی ہمارا سب سے ہردل عزیز مشغلہ تھا۔ لوگ اپنا پورا نہیں تو کم از کم فارغ وقت نشانہ بازی، تلوار بازی،اور نیزہ بازی میں صرف کرتے تھے۔ پر آج ہمارے پاس مشکل سے ان کارناموں کا کوئی تحریر موجود ھو جو یہ بتا سکے کہ اوکسسس اور انڈس کے سنگھم میں لڑی جانے والی اخری لڑائی کہاں لڑی گئی ؟ گلیت ملکاں کا گھوڑا کہان ماراگیا؟ سوملک کا نیاز کدھر پکا؟ بھوپ سنگھ پڑی کی لڑائی میں سپہ سالار کون اور سپاہی کون تھے؟ کس راجہ کی حکومت چترال کیلاش اور بونجی تک پھیلی ہوئی تھی؟۔ گوہر امان نے کتنی مرتبہ شکست کھائی۔۔۔۔آدم خور بادشاہ کو کس نے کس جگہ جہنم واصل کردیاتھا؟۔ جارج ہیورڈ کو میر ولی نے درکوت کے مقام پر قتل کیوں کروایا؟۔۔ ایف سی آر کے خاتمے سے کم وبیش سات سال پہلے کس جگہ راجگی نظام کا بستر گول کرکے رعا یا نے جمہوریت کے ہاتھوں بیت کی۔ کیا ان واقعات کی آثار اور نشانیاں آج بھی موجود ہیں؟ اور کس حال میں ہیں؟
گلگت بلتستان کے باشندوں نے مختلف ارتقائی مراحل کا تجربہ کیا ہے۔ یہاں ذرتشت سے لیکر اسلام تک تمام مذاہب کے رسم و رواج کی تابعداری آپ کو نظر ائےگی۔ آگ کی حرمت، ُپریستاں کی حکمت، مختلف جانوروں سے عقیدت،، مافوق الافطرت کہانیوں کی راویت اور دیومالائیت آج بھی لوگوں کے دلوں پر حکمراں ہے۔ یہاں آج بھی بچوں کو خوٖف کے سائے میں سلایاجاتاہے۔ چاریتوئے کے مقام پر دلہا، دلہن اور نومولود بچوں کی یاسین انٹری سے پہلے مرغی زبح کر کے کسی راہ گیر کو دینا آج بھی ہر طبقہ فکر کے سامنے مقدم اور متبرک ہے۔ میرزا اور برانداس پیر کی دوستی سے عبارت معجزات کے ہر کوئی قائل ہے۔ اس طرح کے بیشمار رسمیں ایسی ہیں جنہیں یہاں کی ثقافت کا مضبوط حصہ تصور کیاجاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رسمیں بھی متروک ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے مطابق کلچر انسان کی ذہنیت اور سوچ کا نا م ہے، جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا جاتا ہے لیکن ان کی حفاظت حد ترقی کو تعین کرنے میں بہت مددگارثابت ہوتا ہے۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہےکہ ان تمام موہمات و رسومات کے پس پردہ اس سماج سے جھڑی ہوئی کوئی نہ کوئی تاریخی لمحہ پنہاں ہے جو گزشتہ اور یاد رفتگاں کی طرز حیات اور اس وقت کی طرز معاشرت کی عکاسی کرتا ہے۔ ہماری تاریخ و تمدن بابل، جمنا اور گنگا کی طرح پرانی نہیں تو ہم عصر ضرور ہے۔لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے سے زیادہ دوسروں کی سماج و تاریخ کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ ہم بہت کجھ جانتے ہیں احمد شاہ ابدالی کے بارے میں ، سلطان محمود غزنوی کے بارے میں، شاہ ولی اللہ کے بارے میں ۔ لیکن کچھ بھی نہیں جانتے ہیں گوہر امان کے بارے میں، علی شیر انچن کے بارے میں، سلطان علی عارف کے بارے میں سوملک کے بارے میں، گلیت ملکاں کے بارے میں— ہمیں بہت کچھ پتہ ہے وٹیکن سٹی کے متعلق، برمودہ ٹرائی انگل سے متعلق، مزار شریف کے بارے میں ، سرکل اسٹونز کے بارے میں، لیکن کجھ بھی پتہ نہیں جاروں ملک کے بارے میں، پھرانی دوکھٹم کے بارے میں ، سارگن کے بارے میں ،ھنی ساری کے بارے میں، یہاں تک کہ، موسقی کی بنیاد سارے گاما (سا رے گا ما پا دنی سا) کی شننا زبان سے تعلق کے بارے میں ۔۔ ہم نابلد ہیں—
گلگت بلتستان حکومت نے حال ہی میں ایک ادبی میلہ منعقد کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ یہاں کی اد ب و ثقافت کی حفاظت اور ترقی کے لیے کام کرنا چاہتی ہے۔ خوش آئند ہے مگر یہاں ہر ترجیحات کی درجہ بندی اشد ضروری ہے کہ ہماری تاریخ مسخ ہو رہی ہے ثقافت رنگ بدل رہی ہے۔ ایسے میں اس بات ک بہت اہمیت ھوگی کہ شروعات تاریخ اور تاریخی آثارو واقعات کی ڈاکومنٹیشن اور ان سے متعلق ریسرچ سے ہو۔ اگر ہم حکومت کی سربراہی میں چھوٹے پیمانے پرپروموشنل ایوارڈز متعارف کرائے تو شاید مختصر عرصےمیں ہم دور رس نتائج حاصل کر سکے گیں ۔
اس ضمن میں غیر سکاری تنظمیں جیسا کہ اے کے آر ایس پی اور ہاشو فاونڈیشن کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ شکوہ آغاخان کلچر سروس سے ھے کہ ہمارا کلچر حالت نزع میں ھے ہمارےآثار قدیمہ ختم ھو رہے ہیں – مگر ادارہ ہذا آغاخان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے کلچرلر ڈیویلپمنٹ کے مینڈیٹ کو اپنے پاس رکھتے ہوےبلتت کی گلیوں ، خہ بسی اور شقم کے گرین ووڈ تک محدود ہیں۔ یہاں اس بات کو واضح کرتا چلوں کہ گلگت بلتستان میں اے کے ڈی این کی موجودگی کو جواز بناکر انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کے ادارے کام نہیں کرتے۔ کیونکہ یونیسکو جیسے ادارے اے کے ڈی این کو اپنا پارٹنر گردانتے ہوے متوازی کام کو ڈوپلکیشن آف ایفرٹز مانتے ہیں ۔ این جی اوز اور مخیر حضرات مائل بہ کرم ہیں آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے جھنڈے تلے اے کے سی ایس پی کے ہوتے ہوئے ان کو کسی اور کی درخواست منظور نہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارہ ہذا کو فعال اور پرو اکٹیو بنایا جائے تو فنڈز کا انبار موجود ہے۔ اے کے سی ایس پی کی موجودہ سرگرمیوں سے یوں لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کے کلچر کا مرکز صرف ایک دو گاوں یا ایک دسٹرک تک محدودہی ہےاور صرف پرانے قلعوں کی مرمت ہی کلچر کہلاتا ہے۔
اس ضمن میں حکومت وقت کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن ہے۔ اول تو حکومت کی جانب سے اس سیکٹر میں کو ئی قابل تعریف اور خاطر خواہ کام نظرہی نہیں ارہا ہے۔ ٹوریزم پروموشن کے شعبے میں اگرچہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت کافی منصوبے جاری ہیں لیکں اس سکٹر کا روح یعنی کلچر پر براہ راست منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ہے۔ وزیر سیاحت کے اپنے گاوں گوپس کا حال اپ کے سامنے تصویروں میں۔ دوسرا پہلو مانیٹرنگ اینڈ ایوالویشن میں بھی حکومت کی دلچسپی حوصلہ افزاء نہیں۔ وہ ان تمام غیر سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ کے بھی ذمہ دار ہے جو گلگت بلتستان میں کام کررہی ہیں۔ حکومت وقت سے درخواست ہےکہ وہ ان تمام اداروں کی پرفارمنس کو کم از کم کا جائزہ لے کیونکہ ان اداروں کی موجودگی کا جواز بنا کر ترقیاتی ادارے یہاں کا رخ نہیں کرتے۔