Uncategorized

حقوق نسواں اور عورت

از شفیق آحمد شفیق‎‎‎‎‎

’حق ‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا لغوی مطلب ہے، ’درست‘ اور ’صحیح‘۔ جبکہ لفظ انسان “انس“ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے “ محبت“ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حق اور محبت ایک ساتھ ہو تو انسان خوشحال رہ سکتا ہے۔ حق کی جمع حقوق ہے گویا انسانی حقوق کا مسئلہ دراصل اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اخلاقیات کا مقصد ایک ایسےانسان کی تخلیق ہے جو روحانی اور مادی دونوں صورتوں میں خوشحال ہو۔ بشرطیکہ اخلاقیات ریاست کے مفاد پرستوں کا تخلیق کردہ اور اشرافیہ کے تحفظات کا آئینہ دار نہ ہو۔

عورت تاریخ کے ہر دور میں مرد کےتابع رہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں ترقی یافتہ ملکوں میں عورت اور مرد
کو مساوی بنانے کی کوشش کی گئی۔حقوق نسواں کی ایک جرمن خاتون نے کہا تھا۔ “ میری تاریخ کی کتابیں جھوٹ بولتی ہے وہ کہتی ہے کہ میرا وجود نہیں تھا ۔“ کیونکہ تاریخ میں عورت کا وجود ہے لیکن وہ وجود جو مرد نے تشکیل دیا ۔ اور بدقسمتی سے لفظ عورت ہی اپنے اندر “شرم، حیا “ کے معنی لیئے ہوئے ہیں۔ جس سے لفظ کے تخلیق کاروں نے عورت کو محدود اور حیا کے زنجیر میں باندھ کر اور بھی کمزور کر دیا ۔

تاریخ ہمیشہ عورتوں کے متعلق بے وفا رہی ہے۔ چنانچہ عورتوں کی حقوق کیلئے مختلف تحریکیں چلائی گئ۔ جن میں ایک حقوق نسواں ہے جس سے مراد وہ حقوق اور قانونی استحقاق جن کا مطالبہ دنیا کے بہت سے معاشروں میں خواتین اور لڑکیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے اور جن کے مطالبہ نے انیسویں صدی کی حقوق نسواں تحریک اور بیسویں صدی کی تحریکِ نسائیت کو بنیاد فراہم کی۔ دنیا کے کئی ممالک میں ان حقوق کو قانونی اور سماجی تحفظ حاصل ہے لیکن بہت سے ممالک میں ان حقوق کو غصب یا نظر انداز کیا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کی اصطلاح میں تمام انسانی حقوق شامل کئے جا سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر اس موضوع میں وہی حقوق شامل کئے جاتے ہیں جن کے استحقاق کے حوالے سے معاشرہ مرد اور عورت کے درمیان فرق روا رکھتا ہے۔ چنانچہ حقوقِ نسواں کی اصطلاح عام طور پر جن حقوق کے لئے استعمال کی جاتی ہے ان میں خواتین کے لئے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوں کے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، افزائش نسل کے حقوق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔

دنیا کے مختلف تہذیبوں ، مذاہب اور ثقافتوں نے عورت کواپنے دائرہ سماج میں وقار بخشا۔ جن کے اثرات آج بھی ہم موجودہ دور میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مثلا قدیم یونانی تہٰذیب میں زیادہ تر خواتین سیاسی حقوق اور سماجی برابری سے محروم تھیں تاہم آرکیک دور (آٹھویں صدی قبل مسیح تا پانچویں صدی قبل مسیح) میں انہیں یک گونہ آزادی بھی حاصل تھی۔ محفوظ ریکارڈز سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈیلفی ، گورٹن ، تھیسلے ، میگارا اور سپارٹا کے قدیم شہروں میں خواتین زمین و جائداد کی ملیکیت کا حق رکھتی تھیں۔ تاہم آرکیک دور کے بعد خواتین کا سماجی مقام بہت گر گیا تھا اور بہت سے ایسے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا جو صنفی تفاوت اور استحصال کا باعث بنے۔

کلاسیکی اتھینز میں خواتین کو قانونی شہریت حاصل نہیں تھی۔ ان کی سماجی حیثیت کا تعین مرد (kyrios) کی سربراہی میں ایک گھرانے (oikos) کا حصہ ہونے کی بنیاد پر تھا۔ شادی سے پہلے عورت کا سر پرست باپ یا کوئی مرد رشتہ دار ہوا کرتا تھا۔ شادی کے بعد عورت کا سرپرست (kyrios) شوہر ہوتا تھا۔ خواتین براہ راست قانونی کارروائی نہیں کرسکتی تھیں بلکہ یہ معاملات عورت کے مجاز پر مرد کے زیر نگرانی چلتے تھے۔ ایتھنز کی خواتین کا جائیداد رکھنے کا حق محدود تھا اور اسی وجہ سے عورتوں کو مکمل شہری نہیں گردانا جاتا تھا کیونکہ شہریت اور قانونی استحقاق کی تعریف جائیداد کے حوالوں سے کی جاتی تھی۔ تاہم خواتین جہیز ، تحائف اور وراثت کے ذریعوں سے جائیداد کی مالک بن سکتی تھیں اگرچہ عورت کا سرپرست (kyrios) اس جائیداد کی خرید و فروخت کا مجاز تھا۔ عورتیں اناج کی ایک مخصوص مقدار سے کم قیمت کے مالی معاہدات کرنے کا حق رکھتی تھیں اور اس لحاظ سے تجارتی معاملات میں ایک محدود حد تک عمل دخل رکھ سکتی تھیں۔ عورتوں کی طرح غلاموں کو بھی مکمل شہریت حاصل نہیں تھی لیکن پھر بھی چند نادر حالات میں وہ آزاد ہو کر مکمل شہریت حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن صنف شہریت کے حصول میں ایک مستقل رکاوٹ تھی اور قدیم اتھینز کی جمہوریہ میں کسی عورت کو کبھی بھی مکمل شہریت حاصل نہیں ہوئی۔

اسلام انسانیت کے لیے تکریم، وقار اور حقوق کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا۔ اسلام سے قبل معاشرے کا ہر کمزور طبقہ طاقت ور کے زیرنگیں تھا۔ تاہم معاشرے میں خواتین کی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ تاریخِ انسانی میں عورت اور تکریم دو مختلف حقیقتیں رہی ہیں۔ قدیم یونانی فکر سے حالیہ مغربی فکر تک یہ تسلسل قائم نظر آتا ہے۔ یونانی روایات کے مطابق پینڈورا (Pandora) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر دیا۔ ابتدائی رومی قانون میں بھی عورت کو مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی عیسائی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی۔ اور اسلام میں بھی حضرت حوا نے ممنوعہ پھل کھا لیا ۔ جس میں اس کو شیطاں نے پھسلایا تھا ۔ اور یوں آدم جنت سے نکل کر دنیا میں آگیا ۔ یہ تصوارات جو کہ چنداں مختلف نہیں۔

سینٹ جیروم (St. Jerome) نےیہا ں تک کہہ دیا کہ :
"Woman is the gate of the devil, the path of wickedness, the sting of the serpent, in a word a perilous object.”

اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ جس کی سادہ سی مثال یہ ملتی ہے کہ اگر کچھ قبیلے عورتوں کو زندہ در گور کرتی تھی۔ تو اسی سماج میں حضرت خدیجہ کی صورت میں کامیاب تاجرہ بھی ہوا کرتی تھی۔ اور ساتھ ہی جو لوگ سو سے زائد شادیاں اور سب سے زیادہ شہوت پسند تھے۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے شا ہ جس کی سو سے زائد بیویاں تھی۔ ایسے معاشرے کو اسلام نے چار پہ لا کر روک دیا جو کہ اس وقت کے لحاظ سے سماجی مسائل کے باوجود رسول خدا نے بدل دیا۔ تاہم یہ الگ بات ہے جو موجودہ دور میں اسلام کی غلط تشریح سے سامنے آیا ۔

اس کے بر عکس مغرب میں عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑا۔ نوعی امتیاز کے خلاف عورت کے احتجاج کا اندازہ حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی طرف سے عورت کے لیے womyn کی اصطلاح کے استعمال سے ہوتا ہے جو انہوں نے نوعی امتیاز سے عورت کو آزاد کرنے کے لیے کیا۔ مختلف اَدوار میں حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین میں (1820-1906) ۔Susan B. Anthony کا نام نمایاں ہے جس نے National Woman’s Suffrage Association قائم کی۔ اور اسے 1872ء میں صرف اس جرم کی پاداش میں کہ اس نے صدارتی انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی کوشش کی، جیل جانا پڑا۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد 1961ء میں صدر John Kennedy نے خواتین کے حقوق کے لیے کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات پر پہلی مرتبہ خواتین کے لیے fair hiring paid maternity leave practices اور affordable child care کی منظوری دی گئی۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کی کامیابی طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوئی۔ Jeanette Rankin of Montana پہلی مرتبہ 1917ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہو سکی۔

حاصل بحث یہ ہے کہ مرد اور عورت کے باہمی تعاون سے زندگی کا پہیہ چلتا ہے۔ جن معاشروں میں توازن نہیں ہے۔ تو انھیں چاہئے کہ ایسے اقدامات کریں جن سے سماج میں توازن اور خیر کا نتیجہ ہو۔ تاریخ میں جو چیز منظور نظر رہی وہ یہ کہ عورتوں کو ان کا حق دیا جائے۔ جن سے مختلف تحریکں جنم لیں۔ اور بعض انقلاب کا سبب بھی بنیں۔ چنانچہ امر لازم یہ ہے کہ سماج میں دونوں صنفوں کو ایک کا ایک پہ برتری کی بجائے برابری اور احترام کے عنصر کو عام کیا جائے۔

نوٹ: یہ کالم پہلے زیل نیوز پر شائع ہو چکی ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button