اخبارات میں آتا ہے کہ ادارے تباہی سے دوچار ہیں ۔واپڈا ،پیسکو اور پیڈو اس تباہی اور بربادی کی نمایاں مثالیں ہیں۔جب بھی واپڈا کی نجکاری کی بات آتی ہے کرپشن مافیا سامنے آتا ہے اور نجکاری کو روک دیتا ہے۔جب بھی پیڈو کی نجکاری کے لئے تجویز آتی ہے کرپشن مافیا اس کی نجکاری کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے لوگ مارشل لاء کو اس لئے پسند کرتے ہیں کہ مارشل لاء میں اس طرح کے کرپٹ اداروں کو ڈنڈے کے زور پر ٹھیک کیاجاتا ہے۔چترال کے عوام واپڈا،پیسکواور پیڈو کے باہمی جھگڑوں سے اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ آئیندہ کو ئی واقعہ ناخوشگوار شارٹ سرکٹ وغیرہ کا پیش آیا تو پیسکو یا پیڈو کے خلاف ایف آئی آر کروائینگے۔اندورنی طورپر پیڈو کے اندر بد انتظامی تھی۔پیسکو حکام کی نااہلی کے نمونے بھی رپورٹوں میں آئے تھے تاہم عوام کی سطح پر دونوں اداروں کی بدانتظامی اور نااہلی کا علم عام صارفین کو نہیں تھا ۔گذشتہ سال چترال کے اندر سرحد رورل سپورٹ پروگرام نے دو میگاواٹ بجلی گھر سے بجلی دیدی۔اس بجلی کو پیڈو کے لائن سے گذر کر پیسکو کے گرڈ سٹیشن تک لانا تھا۔دونوں اداروں نے آپس کی دشمنیوں اور مخالفتوں کی وجہ سے اس کام میں8مہینے ضائع کئے۔کئی مہینوں تک بجلی کسی کو نہ ملی،اب بھی چترال ٹاون اور بازار کے کئی علاقوں میں روزانہ16گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے 8گھنٹے 70والٹ کی بجلی آتی ہے جس میں انرجی سیور بھی روشن نہیں ہوتا ،کمپیوٹر اور مشین کام نہیں کرتا۔ایک اطلاع کے مطابق گولین گول میں واپڈا کے30سال پُرانے پن بجلی منصوبے کا پہلا یونٹ 25دسمبرکو مکمل ہورہا ہے۔افتتاح بھی ہونے والا ہے۔آرمی چیف یا اُس وقت کا وزیراعظم افتتاح کرے گا مگر پیسکو اور پیڈو حکام کے جھگڑوں نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ اگلے دوسالوں تک عوام کو بجلی نہیں ملے گی لوڈشیڈنگ اور کم وولٹیج کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔اندرونی کہانی یہ ہے کہ پیڈو کو صوبائی حکومت کی طرف سے حکم ملا ہے کہ واپڈا کو اپنی لائن ہرگز نہ دو،واپڈا کو وفاقی وزیر پانی وبجلی عابد شیر علی نے حکم دیا ہے کہ پیڈو کی لائن استعمال نہ کرو۔عوام کی مشکلات دونوں حکومتوں کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔وفاقی وزیر اپنا اُلوسیدھا کرنا چاہتے ہیں۔صوبائی وزیر اعلیٰ اپنی ضد پوری کرنا چاہتے ہیں اگلے دوسالوں تک واپڈا اپنی سروس لائین نہیں بچھا سکیگی۔پیڈو اپنی سروس لائن استعمال کرنے نہیں دیگی۔106میگاواٹ کی بجلی ضائع جائیگی2سالوں میں3ارب روپے کا ریونیو ضائع جائے گا۔اس کے لئے اردو میں مشہور مقولہ ہے’’دوملاوں میں مرغی حرام‘‘یعنی پاکستان کے دو اداروں میں بجلی حرام۔چترال کی ضلعی حکومت اس قابل نہیں ہے کہ صوبائی حکومت کے ساتھ بات کرسکے۔چترال کے عوامی نمائندے اس قابل نہیں ہیں کہ عوام کی مشکلات سے وفاقی حکومت کو آگاہ کرسکیں۔عابد شیر علی ذاتی طورپر پختون قوم اور خیبر پختونخوا کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں۔چترال کے عوام کے ساتھ بُغض اور عداوت رکھتے ہیں بلوں کی100فیصد ریکوری ہونے کے باوجود روزانہ 16گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ماضی میں ایسے مسائل کو جی او سی ملاکنڈ اور کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس نے حل کیا ہے اب بھی عوام کی نظریں پاک فوج پر لگی ہوئی ہیں۔پیسکو اور پیڈوحکام کو ڈیو ہیڈکوارٹر سوات یا چترال سکاؤٹس ہیڈکوارٹر چترال بلاکر اگلے دومہینوں میں بجلی کی تقسیم کا معاہدہ طے کرکے مسئلے کو صرف پاک فوج حل کرسکتی ہے۔