شفیق آحمد شفیق
دو پیڑوں پہ کھڑا قامت بھی سیدھا کیا میں آدمی ہوں۔ لیکن سوچتا ہوں کہ یہ آدمی بھی مجھے لفظوں نے بنا یا ۔ اور لفظوں ہی نے میری خوبصورت تشریح کی، جو اسم انسان کی صورت میں واضح ہے۔ لیکن مجھے سوچ ، فکر، روح و جسم کا وجود بھی لفظوں ہی نے بخشا۔ اور نہ صرف مجھے بلکہ کائینات اور خدا کو بھی لفظوں نے بنا یا ۔ اگر کسی سیانے سے پوچھو گے تو یہی بتائے گا۔ کہ پاگل لفظوں نے ہمیں زندگی دی ہے۔
لفظ ، عربی زبان کا کلمہ ہے اور اسکے معنی بنیادی طور پر خارج کرنے، نکالنے، پھینکنے وغیرہ کے آتے ہیں چند حروف کو آپس میں ملانے سے لفظ بنتا ہے۔یا چند حروف کو آپس میں ملا کر بولنے یا لکھنے سے لفظ بنتا ہے۔اور اسی سے اسکا وہ لسانیاتی مفہوم نکالا جاتا ہے جس میں یہ بکثرت زبانِ اردو میں مستعمل ہورہا ہے یعنی منہ سے خارج ، نکالی یا ادا کی گئی کوئی بات یا اسکا تحریری خاکہ؛ لفظ کی جمع الفاظ کی جاتی ہے۔ جب کوئی لفظ یعنی منہ سے خارج کی گئی کوئی آواز بامعنی ہو یا یوں کہہ لیں کہ جب اس آواز سے دماغ میں کوئی تصور یا مفہوم پیدا ہوتا ہو تو پھر ایسی صورت میں اس لفظ کو عربی و اردو قواعد کی رو سے کلمہ کہا جاتا ہے، یہی لفظ دیگر معنی بھی رکھتا ہے جیسے گفتار یا کلام وغیرہ؛ اور گفتگو کرنا یا مخاطب ہونے کے لیے جو کلام کی اصطلاح آتی ہے وہ بھی لفظ کلمہ کی طرح عربی کے کلم سے ماخوذ ہے۔
زبان اور سوچ کی حرکت لفظ کو جنم دیتا ہے، جو کہ کسی وجود سے متعلق ہوتا ہے۔ لفظوں کی ارتقائی عمل اور انسان کی ارتقا کی تاریخ بھی ایک معمہ ہے۔ جیسا کہ انسان خود ایک معمہ ہے۔ بہر حال جو بھی ہے وجود آدمی، وجود کائینات اور بہت کچھ ایسے ازلی مسلہ ہے۔ جس کا حل شاید خدایاں خدا بھی نہ دے سکیں۔
تب ہی تو شاعر جون ایلیا نے خوب کہا تھا
تاریخ روزگار فنا لکھ رہا ہون میں
دیپاچہ وجود پر لا لکھ رہا ہوں میں
لفظ اور آدمی کا تعلق ایسا ہے، جیسا کہ روح اور جسم کا ۔ لفظ نہ تو آدمی کی روح نکل جائے۔ اور جسم تڑپتا رہے ۔ اور لفظوں سے ہی آدمی جیتا ہے، اور جینے کیلئے لفظوں کے جال میں مختلیف تصورات کو شکل و صورت دیتا ہے ۔ جیسا کہ لفظکا مسلہ بہت سنگین ہے، اور آسان بھی۔ لفظ مذہب ہے،لفظ پیغمبری ہے ، لفظ الہام ہے،لفظ بندگی ہے، لفظ روحانی ہے، لفظ عقلی ہے، لفظ فکری ہے، لفظ سوچ ہے، لفظ علم ہے، لفظ خیر ہے، لفظ شر ہے، لفظ بیماری ہے، اور لفظ شفا ہے، لفظ قدر اور بے قدری دونوں ہے۔ لفظ محبت ہے، لفظ نفرت ہے، لفظ سچائی ہے، لفظ برائی ہے، لفظ شاعری ہے، لفظ عبادت ہے، لفظ سجدہ ہے، لفظ قرار ہے، لفظ بے قراری ہے، لفظ شعور ہے، لفظ آگہی ہے۔ لفظ آہ ہے،لفظ واہ ہے، لفظ پردہ ہے، لفظ سے ہی پردہ اٹھایا جا سکتا ہے، لفظ امید ہے، لفظ خوف ہے، لفظ دل ہے، لفظ جان ہے، لفظ آقا ہے لفظ غلام ہے ، لفظ انا ہے، لفظ سادگی ہے، لفظ بینائی ہے، لفظ اندھا پن ہے۔ لفظوں بولنا ہے، لفظ خاموشی ہے،لفظ مولوی ہے، لفظ رحوں کے ساتھ کیھلوار کا نا م ہے، لفظ دہشت ہے، لفظ جان دینا اور جان لینا ہے۔ لفظ عمل ہے، لفظ فعل اور فاعل دونوں ہے۔ لفظ اصل میں لفظوں کے کھیل ہے، لفظوں کی جادوگری ہے۔
لفظ سیاست ہے، اور پاکستان کی سیاست میں لفظ گالی ہے، لفظ مفادات کا تحفظ ہے۔ لفظ بے وقوف بنانے کا آلہ ہے۔ لفظ جھو ٹے دعوں کا اظہار ہے۔ لفظ نواز شریف ہے، لفظ پانامہ ہے۔ لفظ عمراں خان ہے، زرداری ہے ،لفظ اسفندیار ولی ہے، لفظ فضل و رحمان ہے، لفظ سراج الحق ہے۔ لفظ واراثتی سیاست اور جایرداری نظام کا نام ہے۔ لفظ سادہ لوح عوام کو مغلوب رکھنے کا نام ہے۔
مختصر یہ کہ آدمی لفظوں کا مارا ہے، آدمی لفظوں کی دنیا میں جیتا ہے، اور پھر اپنا وقت پورا کرکے جا چکا
ہوتاہے۔ لفظ میں ہوں، لفظ تم ہو، لفظ آدمی ہے، لفظ لفظوں کا مارا آدمی ہے
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button