الہامی مذاہب کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بارگاہ الہی میں جب انسان کی تخلیق کا فیصلہ ہوا تو سب سے پہلا انسان یعنی حضرت آدمؑ کی تخلیق ہوئی اور اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ، جنت میں گھومایا پھرایا گیا، مگر ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں لاسکے۔ بارگاہ الہی میں پھر اجلاس بلایا گیا کہ حضرت انسان کے چہرے پر مسکراہٹ کیسے لایا جا سکے۔تو فیصلہ یہ ہوا کہ اس کے (یعنی آدمؑ کے) بائیں پسلی سے اس کے لئے عورت بنایا جائے ، تو بی بی حوا کی تخلیق ہوئی اور اس سے دیکھ کر آدمؑ مسکرائے اور یوں انسانی میں جو پہلی مسکراہٹ آئی وہ بوجہ عورت تھی۔ اس کے بعد انہیں جنت میں رکھا گیا اور رہنے کے کچھ قوانین بتائے گئے مگر وہ غلطی کر بیٹھے اور یوں انہیں جنت سے بے دخل کرکے دنیا کی طرف روانہ کیا گیا۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا میں آنے مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی مرضی سے زندگی گزارسکے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں وہ معاشرہ ترقی کر چکے ہیں جہاں مر د اور عورت برابری کی بنیاد پر زندگی گزار تے ہوں۔ فرسودہ روایات میں گھوم اور جہالت میں ڈوبے ہوئے معاشروں کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے معاشروں میں ہمیشہ عورت مظلوم رہی ہے۔ عورت پر کئے گئے مظالم مردانگی کے ثبوت اور غیرت کے نشان مانے جاتے تھے۔ ظہور اسلام سے پہلے عرب معاشرے کا یہ حال تھا کہ جس کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی تھی اسے زندہ دفنایا جاتا تھا کیونکہ عورت اس معاشرے میں رسوائی کی علامت سمجھی جاتی تھی اور ان کم بخت لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس دنیا میں عورت ہی انکی وجہ وجود ہے۔ ظہور اسلام کے بعد جو سب سے پہلا کام کیا گیا وہ تھا بیٹیوں کے زندہ دفن کرنے کے گمراہ کن عمل کا خاتمہ۔ پیغبر اسلام ؐ نے بیٹیوں کو اللہ تعالی کی رحمت قرار دیکر معاشرے میں عورت کے حقوق واضح کئے۔
موجودہ دور میں ترقی اور خوشحالی ان معاشروں میں ملتی ہے جہان مرد اور عورت ہر میدان میں کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہیں۔ اور ان معاشروں میں عورت کو بطور انسان دیکھا جاتا ہے اور انسانی بنیادوں پر سلوک کیا جاتا ہے۔ مگر مملکت خداداد میں صورت حال کچھ گھمبیر نظرآتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اس صورت حال کو تبدیل نہیں کیا گیا تو تباہی اور بربادی جسے ہمیں اب بھی سامنا ہے، ہمارا مقدر اور رسوائی ہماری پہچان بن جائے گی۔
ہم اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات ، حادثات (چاہے قدرتی آفات ہو یا کوئی دنیاوی حادثات) کو اگرمعاشرتی نکتہ نگاہ سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں اب بھی بہت سے لوگ ان واقعات و حادثات کے ذمہ دار عورت کو ٹہراتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی زلزلہ آئے یا طوفان ، بم دھماکہ ہو یا کوئی اور دلخراش حادثہ ، جسمیں انسانی جانین ضائع ہوگئے ہوں یا بہت بڑی تباہی پھیل گئی ہو، ان واقعات کے بعد اگر آپ متاثرہ علاقے کے حوالے سے کسی فرد کا رائے معلوم کرنے کی کوشش کریں گے تو افسوس کے بعد ہر دوسرا شخص اس واقعے کو یوں بیان کرتا دیکھائی دےگا کہ ” یہ آفت قہر قہرخداوندی ہے اور قہرخداوندی کیون نہیں ہوگا جس معاشرے کی خواتین دوپٹے کے بیغیر گھوم پھر رہی ہوں، جس معاشرے میں لڑکیان پتلون پہننا شروع کر دیں، پردے کے بیغیر عورت بازاروں کی سیر کرنا شروع کر دیں تو اللہ تعالی اُن معاشروں پر عذاب نازل کرتا ہے”۔ اگر زلزلہ یا طوفان کی وجہ سائنسی اعتبار سے کچھ بھی ہو مگر معاشرے میں موجود ایک طبقہ اسکا ذمہ دار عورت کو ہی ٹہراتی ہے۔
پچھلے دنون ملالہ یوسفزئی کی جینس پہن کر تصویر شوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اکثریت کا یہ رائے تھا کہ اس قسم کی لباس سے ہماری بدنامی ہو رہی ہے۔ فلمی اداکارہ ماہرا خان کی ایک تصور شوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ، جس میں اداکارہ ایک اداکار کے ساتھ جینس پہن کر سیگریٹ کا کش لگاتی نظر آئی تھی۔ اس تصویر کے بعد آسمان سر پر اٹھایا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ اس طرح کی حرکتوں سے ملک اور اسلام دونوں کی بدنامی ہورہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ مثال ہیں جن سے ہم سب تقریبا باخبر ہیں اور ان تصاویر پر اپنے رائے کا بھی اظہار کر چکے ہیں مگر معاشرے میں کسی لڑکی کو ڈوپٹے کے بے غیر دیکھا جائے یا اگر کوئی لڑکی فیشن کے طور پر یاجینس پہن کر دیکھا جائے تو ہم اسے اپنے اور اپنے ملک کے ساتھ توہیں سمجھنے لگتے ہیں۔ اپنے حد تک یہ شور مچایا جاتا ہے کہ قومی وقار اس طرح کی حرکتوں سے بدنامی ہوتی ہے۔
قوموں کے وقار ، غیرت اور پہچان بطور قوم ان کی مجموعی کردار،عمل اور معاشرتی اخلاقیات سے ہوتی ہےنہ کہ عورت کی پہناوے سے!!! ۔۔۔۔۔ مگر یہ حقیقت بھی ماننا پڑے گا کہ جس قوم کے مساجد میں بیٹھے ہوئے نمازیوں کو دوران نماز اپنی آخرت سے زیادہ باہر پڑے اپنے جوتوں کے بارے میں فکرمند ہونا پڑے، یا گلی محلوں میں لگے سبیل کے کولروں کے ساتھ رکھی گلاس کو زنجیر سے باندھناپڑے تو یقینا اس قوم کی وقار ، غیرت اور پہچان عورت کی شلور یا پھر ڈوپٹے سے لٹکتی رہتی ہے۔ چاہتے ڈوپٹہ ہوا کے جونکے سے اڑ جائے یا کسی اور وجہ سے، قومی وقار اور غیرت داؤ پر لگ جاتی ہے۔