خواتین کی خبریںکالمز

ملالہ کی جینز اور مردوں کے جینز

’’اگر آپ کسی سرکاری دفتر میں ایک سے دو بجے کے درمیان چکر لگائیں تو پتہ چلے گا کہ سب لوگ نماز پڑھنے گئے ہیں، جب افسر سے لے کر اہلکاروں تک تمام لوگ باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو پھر نہ جانے دفاتر میں وہ کون سے جنات ہوتے ہیں جو رشوت لیتے ہیں، فائل دبا لیتے ہیں، جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں، سائلوں سے بد تمیزی کرتے ہیں، عورتوں پر فحش جملے کستے ہیں اور اُن کے لباس کی بنیاد پر کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔‘‘ واہ! بہت اعلیٰ اور فکر انگیز تحریر۔ آپ بھی پڑھے اور مثبت سوچوں کو تقویت دیجئیے۔ یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں:

’’ملالہ کو شرم آنی چاہئے، مغرب کی ایجنٹ تو تھی ہی، اب حلیہ بھی اُن جیسا ہی بنا لیا!‘‘ یہ جملہ اُن لا تعداد تبصروں میں سے ایک ہے جو ملالہ یوسفزئی کی آکسفورڈ میں جینز میں ملبوس تصویر پر کئے گئے۔ مسئلہ ملالہ کی جینز کا نہیں، مسئلہ اُن کروڑوں ویلے اور مسٹنڈے مردوں کے جینز کا ہے جو قوم کی عظمت کا مینار عورت کے دوپٹے پر کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم روزانہ کئی عورتوں کو دیکھتے ہیں، کسی نے حجاب اوڑھا ہوتا ہے، کسی نے جینز پہنی ہوتی ہے، کسی نے عبایہ لیا ہوتا ہے، کسی نے نقاب سے چہرہ چھپایا ہوتا ہے، کسی نے چادر لی ہوتی ہے، کسی نے دوپٹہ گلے میں ڈالا ہوتا ہے اور کوئی ایسی جی دار بھی ہوتی ہے کہ سلیو لیس پہن کر دفتر آجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم ہر کسی کے بارے میں اپنی کچھ نہ کچھ رائے ضرور قائم کرتے ہیں، بدقسمتی سے مگریہ رائے محض لباس دیکھ کراُس عورت کے براہ راست کردار کے بارے میں نہایت اطمینان اور قطعیت کے ساتھ قائم کر لی جاتی ہے۔ دفتر میں سلیولیس پہن کر آئی ہے تو یقینا بدکردار ہوگی، شرعاً نقاب اوڑھ رکھا ہے تو باکردار ہو گی، جینز پہنتی ہے تو ماڈرن ہوگی ’’چانس‘‘ لیا جا سکتا ہے، شلوار قمیض میں ہے تو ’’شریف‘‘سی لگتی ہے، دفعہ کرو۔ مردوں کے بارے میں بھی رائے قائم کی جاتی ہے، بغیر مونچھ کے داڑھی اور ٹخنوں سے اونچی شلوار تو نمازی اور پرہیزگار، سوٹ ٹائی میں ہو تو ماڈرن، ساتھ میں کلین شیو بھی ہو تو لبرل، شلوار قمیض میں ہو تو جمعہ پڑھنے والا مرد اور جینز ٹی شرٹ میں ہو تو کھلنڈرا نوجوان….. لیکن اِن مردوں کے فحش لطیفے سنانے پر کوئی پابندی نہیں، اِس پرکوئی انہیں کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرتا۔ جنہیں ہم لبرل کلین شیو سمجھتے ہیں اُن میں سے بے شمار عورتوں کو پاؤں کی جوتی جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے اور جن کی داڑھی دیکھ کر ہم یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ انتہا پسند ہوگا، اُن میں سے لاتعداد ایسے ہوتے ہیں جو عورتوں کا مکمل احترام کرتے ہیں۔ اس بات کو بھی چھوڑیں اور جمعے کے بعد اپنے شہر کی کسی بھی مارکیٹ میںچلے جائیں اور دکانداروں سے فقط فون کا اوریجنل چارجر طلب کریں، کیا باریش اور کیا کلین شیو، ہر کوئی قسم اٹھا کر بتائے گا کہ وہ صحیح مال بیچ رہا ہے اور باقی دو نمبر۔ کچھ عرصہ پہلے کسی فیکٹر ی میں کام کرنے والوں کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک باریش مالک اپنے ملازموں کو جن میں عورتیں بھی شامل تھیں، تھپڑوں اور گھونسوں سے تواضع کرتا دیکھا گیا، اسی طرح پاکستان میں کپڑوں کے ایک بڑے برینڈ کے ملازمین نے اپنے کلین شیو مالک کی زیادتیوں کے خلاف ہڑتال کی تو انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ شاہیر نیازی، پاکستان کا ایک ذہین نوجوان ہے جس کی سائنسی تحقیق نے دنیا میں ایسا تہلکہ مچایا ہوا ہے کہ بی بی سی اور دنیا کے دیگر عالمی نشریاتی ادارے آئے روز اس کا انٹرویو کر رہے ہیں۔ کیا کسی نے یہ سوال اٹھا یا کہ شاہیر نیازی مغربی لباس میں یہ انٹرویو کیوں دے رہا ہے، قومی لباس شلوار قمیض اور شیروانی یا واسکٹ کیوں نہیں پہنتا، کیا اسے ہماری قومی حمیت یا غیرت کی ذرا بھی پروا نہیں؟ نہیں، کیونکہ وہ ایک لڑکا ہے، یہی کام اگر کسی لڑکی نے کیا ہوتا او ر وہ جینز اور ٹی شرٹ میں یہ انٹر ویو دیتی تو اُس کی سائنسی ایجاد کو بھاڑ میں ڈال کر ہم نے اُس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جانا تھا کہ تیری جرأت کیسے ہوئی جینز پہننے کی۔ قومی غیرت کے جو قلعے ہم عورتوں کے لباس سے تعمیر کرنا چاہتے ہیں، مردوں کو اس سے استثنیٰ کیونکر حاصل ہے!

ملالہ نے تصویر میں جینز پہن رکھی تھی مگر ساتھ ہی اُس نے دوپٹہ بھی اوڑھا ہوا تھا، اِس بچی کے ساتھ نہ جانے ہم نے کس بات کا بدلہ لینا ہے جسے طالبان نے چودہ برس کی عمر میں اُس وقت گولی ماری جب وہ اسکول جا رہی تھی، دنیا نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا، اعزازات سے نوازا، پاکستان کی توقیر ہوئی، ہماری دنیا میں اگر تھوڑی بہت نیک نامی ہے تو ملالہ یوسفزئی کی وجہ سے، مگر ہم میں سے کچھ لوگوں کو یہ عزت ہی ہضم نہیں ہو رہی، یہ لوگ خود تو اِس قابل نہیں کہ اپنے علاقے کے ایس ایچ او کے سامنے ہی کھڑے ہو سکیں اس لئے انہیں اس بات کا حسد ہے کہ ایک بچی اتنی بہادر کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کالم کا موضوع مگر ملالہ نہیں، وہ مائنڈ سیٹ ہے جواپنی خود ساختہ اورنام نہاد غیرت کو عورت کے لباس سے تولتا ہے اور اسے کردار کی سند جاری کرتا ہے چاہے اس عمل میں وہ دنیا کے سامنے خود ہی بے لباس کیوں نہ ہو جائے۔ ایسے موقع پر اکثر ایک بھونڈی دلیل سننے کو ملتی ہے جس کا جواب میں پہلے بھی دے چکا ہوں مگر دہرانے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر آپ عورتوں کے ’’اس قسم کے کپڑوں‘‘ پر معترض نہیں تو اپنی ماں بہن کو بھی کیا آپ یہی کپڑے پہننے کی اجازت دیں گے؟ اس دلیل میں تین نقائص ہیں۔ پہلا، یہ دلیل نہیں بلکہ بات کرنے کا گھٹیا انداز ہے، اس قسم کی بات کرنے والا دراصل بالواسطہ یہ اعتراف کر رہا ہوتا ہے کہ اُس کے پاس اصل دلیل کا تو جواب نہیں سو ذاتی حملہ کرکے دیکھتے ہیں کیا جواب آتا ہے، بات کرنے کے انداز سے واضح ہے کہ اس قسم کے لوگ عورت کا احترام تو دور کی بات مذہب کی تعلیمات کو بھی اہمیت نہیں دیتے، کیا اسلام میں یہ طرز تخاطب گوارا ہے؟ دوسرا، اس دلیل پہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ مرد ہی دراصل یہ طے کرے گا کہ کسی عور ت نے کیا پہننا ہے اور یہ عورت کا اپنا اختیار ہی نہیں، حالانکہ بالغ مرد اور عورت کو اپنے اوپر مکمل اختیار ہے اور کوئی دوسرا اس پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا، اگر کوئی اِس ضمن میں کوتاہی کا مرتکب ہوگا تو اُس سے روز محشر باز پرس اس کا خدا کر لے گا، ہمیں خدا نے یہ اختیار نہیں دیا۔ تیسرا، کسی بھی عورت کی لباس کی آزادی کی بات کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ اُس عورت کے لبادے کی ہر چیز کی حمایت کر رہے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی شخص کی آزادی اظہار کی حمایت کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ اُس کے افکار سے بھی متفق ہیں۔

کسی کا لباس دیکھ کر اس کے کردار کے بارے میں رائے قائم کرنا ایسے ہی ہے جیسے گوشت کی دیگ سونگھ کر یہ فرض کر لینا کہ گوشت حرام ہے یا حلال۔ کسی بھی شخص کے بارے میں رائے ضرور قائم کریں مگر اُس کے افکار اور اُس کا عمل دیکھ کر۔ اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے، ناجائز منافع خوری کرتا ہے، ملاوٹ کرتا ہے، عورت کو وراثت میں حصہ نہیں دیتا، جہیز لانے پر لعن طعن کرتا ہے، حق مہر ادا کرنے کی پروا نہیں کرتا، اپنے علاوہ سب کو لا دین سمجھتا ہے اور جس کا تمام تر زور عورت پر ہی چلتا ہے تو ایسے شخص کا حلیہ چاہے سوٹ ٹائی کلین شیو ہو یا داڑھی اور شلوار قمیض، کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ منافق ہی کہلائے گا۔ اگر آپ کسی سرکاری دفتر میں ایک سے دو بجے کے درمیان چکر لگائیں تو پتہ چلے گا کہ سب لوگ نماز پڑھنے گئے ہیں، جب افسر سے لے کر اہلکاروں تک تمام لوگ باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو پھر نہ جانے دفاتر میں وہ کون سے جنات ہوتے ہیں جو رشوت لیتے ہیں، فائل دبا لیتے ہیں، جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں، سائلوں سے بد تمیزی کرتے ہیں، عورتوں پر فحش جملے کستے ہیں اور اُن کے لباس کی بنیاد پر کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ سو، اگلی مرتبہ جب آپ کسی عورت کو دیکھیں تو اُس کے لباس کی بنیاد پر اُس کے کردار کے بارے میں رائے قائم نہ کریں بلکہ بہتر ہو گا کہ اپنے کردار پر توجہ دیں، اِس سے آپ کی صحت بھی بہتر ہو گی، ہاضمہ درست رہے گا اور رات کو برے برے خواب بھی نہیں آئیں گے۔‘‘

 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button