خبریں

دیامر ڈیم کمیٹی کے نام پر چندعناصر ذاتی مفادات کا حصول چاہتے ہیں۔ حقیقی متاثرین ڈیم کمیٹی

چلاس(بیورورپورٹ) حقیقی متاثرین ڈیم کمیٹی کے راہنماؤں حاجی عبدالعزیز،حمایت اللہ،مفتی عثمان،مفتی امیر حمزہ ، حاجی جان عالم،ریاض اللہ و دیگر نے پر ہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیامر ڈیم کمیٹی کے نام پر چندعناصر ذاتی مفادات کا حصول چاہتے ہیں۔خود کو ڈیم متاثرین کے نمائندے ظاہر کر کے درجن بھر افراد جمع کر کے حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں۔نام نہاد ڈیم کمیٹی سے حقیقی متاثرین ڈیم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔نہ ہی دیامر ڈیم متاثرین کے حقیقی ترجمان سمجھے جاتے ہیں ۔چند لوگ خود کو عوامی نمائندے اور ڈیم کمیٹی کے ذمہ دار بنا کر تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ علاقے بھر کے جملہ متاثرین ڈیم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ان لوگوں کا مقصد حکومت کو بلیک میل کر کے حقیقی اور سو فیصد متاثرین ڈیم کے جائز حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔2010اسلام آباد معاہدہ تمام متاثرین ڈیم کی متفقہ کمیٹی کے ساتھ ہوا تھا۔جس میں تانگیر سے تھلیچی تک ہر نالے کے نمائندے شامل تھے۔اور حقیقی متاثرین ڈیم کمیٹی کی جانب سے اس وقت کی ڈیم کمیٹی میں حمایت اللہ نمائندگی کر رہے تھے۔اور جنرل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔بعد ازاں اس متفقہ اور مشترکہ متاثرین ڈیم کمیٹی کو نظر انداز کر دیا گیا۔قانون اور انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ اس معاہدے کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنا کر ڈیم کے جملہ مفادات و مراعات میں ہر قبیلے کو آبادی کی مناسبت سے کمپنسیٹ کیا جاتا۔مگر مبینہ رشوت کی بنیاد پر تمام تر زمینی ،قانونی ،شرعی حقوق پر شب خون مار کر تاریخی نا انصافی اورحق تلفی کی گئی۔جس کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائی مگر وفاقی حکومت،صوبائی حکومت اور واپڈا کی جانب سے اہم ترین مسئلے پر کوئی پیشرفت نہیں کی گئی۔جو انتہائی افسوسناک اور اذیت ناک امر ہے۔ان راہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ بنجر اراضیات اور ڈیم کے فوائد میں حصہ دار تسلیم کر کے فوری کمپنسیٹ کیا جائے۔چونکہ سونیوال قبائل دیامر بھاشہ ڈیم کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر ہیں۔مکمل طور پر بے گھر اور ان کی شناخت ہی مٹ رہی ہے۔اور تمام زمین جائیدادیں ڈیم کی زد میں آرہی ہیں۔ڈیم کی مد میں ملنے والی مراعات پر سب سے پہلا حق ہی حقیقی متاثرین کا ہونا چاہیئے تھا۔اسلام آباد معاہدے کے تحت بنجر اراضی متاثرین ڈیم کو پیکیج کے طور پر دی گئی تھی۔مگر بنجر اراضی سے حقیقی متاثرین کو بے دخل کر دیا گیا ہے۔حالانکہ بنجر اراضیات زمانہ قدیم سے سونیوال قبائل اور حقیقی ڈیم متاثرین کی زیر تصرف بھی رہی ہیں۔1978کے نوتوڑ رول کے مطابق بنجر اراضیات خالصہ سرکار ہیں۔اس خالصہ سرکار کو ایک فریق کی ملکیت تسلیم کرنا سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے۔ہرپن داس ماڈل ویلیج میں انتظامیہ اور واپڈا جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔جو بڑے سانحے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔فوری طور پر متاثرین ڈیم کو پلاٹس اور زرعی اراضی فراہم کیا جائے۔واپدا ملازمتوں میں بھی سونیوال قبائل کا کوٹہ مختص کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ ری الائمنٹ روڈ کے سروے میں حقیقی متاثرین ڈیم کو اعتماد میں لیا جائے۔مطالبات پر فوری عملدرآمد یقینی نہیں بنایا گیا تو جلد ہی احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیں گے۔ایک سوال کے جواب میں حقیقی ڈیم متاثرین کمیٹی کے راہنماء حمایت اللہ نے کہا کہ نام نہاد کمیٹی کے چند افراد حقیقی متاثرین پر ڈیم مخالفت کے الزامات لگا رہے ہیں۔جو سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔ہم اپنے حقوق کے حصول کی خاطر پر امن جدو جہد کر رہے ہیں۔ہم پاکستان کی سالمیت اور استحکام کی خاطر جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ حقیقی متاثرین کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں وہ اصل میں ڈیم مخالف قوتوں کے آلہ کار ہیں۔وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ڈیم بنے اور ملک خوشحالی کی طرف بڑھے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button