کالمز

پاکستان دوہزار پچاس میں انشاء اللہ!

پروفیسر شہناز نصیر صاحبہ جتنی اچھی شخصیت رکھتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ اچھے خیالات بھی رکھتی ہیں۔ ہماری اچھی دوست ہیں۔ بزمِ اساتذہ سندھ کی سیکریٹری اطلاعات ہیں۔ ہم جب بھی شہر قائد میں خیمہ زن ہوتے ہیں محترمہ اپنی بزم کی محفلوں میں ہمیں بطور مہمان مدعو کرنا نہیں بھولتیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عرفان شاہ، پروفیسر فرزانہ خان اور پروفیسر شہناز نصیر کے دم قدم سے ہی بزمِ اساتذہ سندھ آباد ہے۔ شہناز نصیر صاحبہ نے آج صبح میرے وٹس ایب پہ ایک میسیج بھیجا۔ میسیج ’’پاکستان دوہزار پچاس میں انشاء اللہ!‘‘ کے عنوان سے تھا۔ جس کو پڑھ کر حقیقت نہ سہی خوش فہمی کی دُنیا میں سہی دل باغ باغ ضرور ہوا اور دل کی عمیق گہرائیوں سے یہ دُعا نکلی کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ اس میسیج میں دو امریکی باشندوں میں ایک دلچسپ مکالمہ ہے۔ جوزف اور مارک ترقی یافتہ پاکستان کیوں آنا چاہتے ہیں؟ مناسب سمجھا کہ وہ مکالمہ آپ کے ساتھ شیئر کروں۔

’’جوزف: ہیلو مارک! کل تم آفس نہیں آئے تھے؟ خیریت؟

مارک: ہاں یار۔ میں پاکستانی ایمبیسی گیا تھا۔ ویزہ لینے۔

جوزف: اچھا واقعی؟ پھر کیا ہوا؟ میں نے سنا ہے آج کل انہوں نے بہت سختیاں کردی ہیں۔

مارک: ہاں! لیکن میں نے پھر بھی کسی نہ کسی طرح لے ہی لیا۔

جوزف: بہت اچھے یار۔ مبارک ہو۔ یہ بتاؤ کہ ویزہ پراسیس میں کتنا وقت لگا؟

مارک: بس کچھ مت پوچھو یار۔ تقریباً مہینہ بھر لگ گیا۔ پہلی بار جب میں پاکستان ایمبیسی گیا تھا تو صبح چار بجکر تیس منٹ پر وہاں پہنچا۔ پھر بھی مجھ سےپہلے دس لوگ کھڑے تھے۔ لمبی قطار۔ اور ہاں مجھ سے کچھ آگے بل گیٹ بھی اپنا پاسپورٹ اور بنک سٹیٹمنٹ ہاتھ میں لیا لائن میں کھڑا تھا۔

جوزف: اچھا۔ بل گیٹ کو ویزہ مل گیا۔

مارک: نہیں۔ انہوں نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ بل گیٹ پاکستان جانے کے بعد وہاں سلپ ہوجائے گا اور امریکہ واپس نہیں آئے گا۔

جوزف: یار۔ پاکستانی ایمبیسی کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ اسلام آباد میں ہماری امریکن ایمبیسی تو پاکستانیوں کو ایک گھنٹے میں ویزہ دے دیتی ہے۔ پھر یہ کیوں ایسا کرتے ہیں؟

مارک: ارے یار۔ تمھیں تو پتہ ہے پاکستان اس وقت دنیا کی سپر پاور ہے۔ اس کا ویزہ لینا گویا مریخ کا ویزہ لینے کے برابر ہے۔ اور پھر قصور ہمارا امریکیوں کا بھی ہے۔ ہم بھی وہاں وزٹ ویزہ پر جاکر واپس نہیں آتے نا۔

جوزف: اچھا یہ بتاؤ۔ تمھیں ویزہ کیسے مل گیا؟

مارک: میں نے وہاں کی مشہور فرم ‘پھالیہ شوگر ملز لمیٹیڈ’ سے بزنس وزٹ کا انویٹیشن منگوایا تھا۔ بس اسی بنیاد پر کام بن گیا۔

جوزف: ایک بار پھر مبارک ہو۔ یہ بتاؤ کب جا رہے ہو پاکستان؟

مارک: جیسے ہی ٹکٹ ملا۔ دراصل میں نے دنیا کی مشہور ترین اور اعلی کلاس کی ائیر لائن میں ٹکٹ کے لیے درخواست دی ہے۔ میرا بچپن سے خواب تھا کہ کسی دن پاکستان انٹرنیشنل ایر لائنز (پی آئی اے) میں سفر کر سکوں۔ اگر ٹکٹ مل گیا تو میرا دیرینہ خواب پورا ہوجائے گا۔

جوزف: پاکستان میں کتنا عرصہ رکو گے؟

مارک: کتنا عرصہ؟ کیا مطلب؟ مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو پاکستان چھوڑ کر واپس امریکہ آنے کی سوچوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے انٹرنیٹ پر چیٹ کے ذریعے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے مضافات میں ایک صحت افزا مقام ‘کامونکی’ کی ایک لڑکی سیٹ کر لی ہے۔ میں اس سے شادی کرکے گرین پاسپورٹ اپلائی کردوں گا اور وہیں سیٹ ہوجاؤں گا۔

جوزف: یار تم بہت خوش قسمت ہو۔ لیکن تمھارے ماں باپ کا کیا ہوگا۔

مارک: پاکستانی گرین پاسپورٹ مل جانے کے بعد میں ماما-پاپا کو بھی وہیں بلا لوں گا۔

جوزف: کس شہر میں رہنا پسند کرو گے؟

مارک: کامونکی والی لڑکی نے مجھے کہا ہے کہ پنجاب سٹیٹ صحت و صفائی کے اعلی معیار کی وجہ سے ویسے تو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ لیکن ہم کراچی سیٹل ہوں گے۔ وہاں آپرچیونٹیز بہت ہیں۔ پتہ ہے نا؟ کراچی اس وقت دنیا میں ٹریڈ اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اول نمبر کا شہر ہے۔ اور وہاں کا چھ سو ساٹھ منزلہ حبیب بنک پلازہ دیکھنا بھی میری زندگی کی بہت بڑی خواہش ہے۔ سنا ہے اس کی اوپرکی دو سو منزلیں بادلوں میں ڈھکی رہتی ہیں۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤو واٹ آ ڈریم یار۔

جوزف: اچھا یہ بتاؤ اپنے ساتھ کتنے ڈالرز لے کر جاؤ گے؟

مارک: ڈالرز؟ وہاں کون پوچھتا ہے۔ تمھیں پتہ ہے ایک پاک روپے کے مقابلے میں آجکل دو سو دس ڈالرز بنتے ہیں۔ یعنی میری اگر وہاں دس ہزار پاکستانی بھی تنخواہ نکل آئی تو امریکہ میں چند مہینوں میں لاکھ پتی بن جاؤں گا۔

جوزف: میں نے سنا ہے پاکستان کا لائف سٹینڈرڈ بہت اعلی ہے۔

لکژری کار پچیس ہزار پاک روپے میں ، جبکہ مرسٹڈیز بی ایم ڈبلیو بتیس ہزار میں مل جاتی ہے۔ لیکن میں تو سوزوکی یا چنگچی لوں گا۔ خالصتاً پاکستانی میڈ آٹوز ہیں۔ کچھ مہنگی ہیں لیکن بہت اعلی کلاس کی ہیں۔

البتہ کراچی میں فلیٹ بہت مہنگے ہیں۔ اور کوئی بھی بلڈنگ سو فلور سے کم تو ہے ہی نہیں۔ انسان ہر وقت خود کو فضاؤں میں اڑتا محسوس کرتا ہے۔

جوزف: اچھا یہ بتاؤ کہ وہاں کام کیا کرو گے۔

مارک: میں نے معلومات کی ہیں۔ وہاں پر آئی ٹی میں بہت سکوپ ہے۔ لیکن تم تو جانتے ہو وہ ہمارے ملک کے تعلیمی معیار کو اپنے برابر نہیں سمجھتے اس لیے مجھے شروع میں وہاں کسی کسان کے گدھے وغیرہ نہلانے پڑیں گے۔ یا پھر ہوسکتا ہے کسی مشہور پارک کے دروازے پر جوتے پالش کا کھوکھا ہی کھول لوں۔ کچھ نہ ہوا تو ٹیکسی کا لائسنس کرلوں گا۔ امریکہ سے تو پھر بھی کئی گنا بہتر کما لوں گا۔ اور ہاں اگر میں وہاں کا گرین پاسپورٹ ہولڈر ہوگیا تو پھر ساری زندگی حکومت مجھے بےروزگاری الاؤنس اور میڈیکل سہولیات فری فراہم کرے گی اور گرین پاسپورٹ کی بنا پر مجھے دنیا کے اسی فیصد ممالک میں بغیر ویزے کے وزٹ کرنے کی سہولت مل جائے گی۔

جوزف: بہت خوب۔ یہ بتاؤ۔ تمھیں ان کی زبان کیسے آئے گی؟

مارک: اوہ بھائی۔ میں پچھلے دس سال سے اردو لینگوئج سیکھ رہا ہوں۔ کالج میں آپشنل سبجیکٹ بھی اے گریڈ میں پاس کیا ہے۔ اور ہاں میں بھی کیا ہے۔

جوزف: یار یہ TOUFL کیا ہے؟

مارک: Test Of Urdu as a Foreign Language

جوزف: تم بہت خوش قسمت ہو یار۔ کاش میں تمھاری جگہ ہوتا۔

سنا ہے وہاں پر ٹرین سسٹم بہت اچھا ہے۔

مارک: ہاں۔ کراچی سے لاہور اور وہاں سے پشاور اور کوئٹہ کے لیے دنیا کی تیز ترین اور آرام دہ ترین ٹرین ’’تیز گام‘‘ چلتی ہے۔ اس میں سفر کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ اور لاہور میں ہی دنیا کا مشہور فلم سٹوڈیو لالی وڈ بھی ہے۔ جہاں پر میں دنیا کے عظیم اداکاروں سلطان راہی، شفقت چیمہ اور ریما کے مجسمے دیکھوں گا۔ سنا ہے آج کل ان کے بچے بھی فلم انڈسٹری میں ہیں۔

اور راولپنڈی میں دنیا کی سب سے بڑی اور گہری جھیل ’’راول ڈیم‘‘ بھی ہے۔ اس میں بوٹنگ کرنا بھی مجھے ہمیشہ سے ہی خواب لگتا ہے۔ لیکن اب یہ خواب بھی حقیقت بن جائے گا۔

جوزف: سنا ہے ہمارا صدر اگلے مہینہ امداد لینے پاکستان بھی جائے گا؟

مارک: ہاں! ایسا ہی ہے۔ اور قرضے بھی ری شیڈول کروانے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان کے محکمہ نسواریات کا منسٹر پختون خان، وہائٹ ہاؤس آیا تھا تو دس لاکھ روپے کا ڈونیشن تو صرف یہاں چلنے والے ایک منشیات کے ادارے کو دے گیا تھا۔ تاکہ ہماری نوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ منشیات باآسانی مہیا ہوسکیں۔

جوزف: اچھا تمھیں یاد ہے ہمارا پرائمری سکول کا کلاس فیلو ’’پیٹر‘‘۔ وہ بھی تو کہیں پاکستان میں سیٹ ہے۔

مارک: ہاں! وہ کوئٹہ کے قریب ایک وادی ’’پوستان‘‘ میں سیٹ ہے۔ سنا ہے پوسٹ کے کھیت سے پوست اکٹھی کرنے کا کام ہے اس کا۔ ایک ہی سیزن میں اتنا کما لیتا ہے کہ باقی چھ ماہ بیٹھ کر کھاتا رہتا ہے۔ عیش ہے اس کی تو۔

جوزف: یار میں بھی پاکستانی ویزہ کے لیے اپلائی کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ انسٹرکشن تو دو؟

مارک: پاکستانی ایمبیسی میں ہمیشہ شلوار قمیض پہن کر جانا۔ وہ لوگ اپنے قومی لباس کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اور کوشش کرنا کہ ویزہ کی درخواست انگریزی کی بجائے اردو میں پُر کرنا۔ اس سے بھی اچھا تاثر ملے گا۔

اور ایمبیسی میں داخل ہوتے ہی ’’السلام علیکم! جناب کیا حال ہے؟‘‘ کہنا مت بھولنا۔

اس سے پتہ چلے گا کہ آپ کتنے مہذب ہو۔

جوزف: تھینک یو یار۔

مارک: تھینک یو نہیں شکریہ۔ اب میں پاکستانی ویزہ ہولڈر ہوں۔ مجھے شکریہ کہنے میں فخر ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

ہائے ہائے یہ مکالمہ پڑھ کر ہمیں فیض احمد فیض رہ یاد آگئے۔ انہوں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں کہا تھا؎

دل نا اُمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

بلکہ پوری غزل سنیئے؎

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے

دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے

کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں

شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے

دل مدّعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے

اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے

دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں

دستِ فلک میں گردشِ ایّام ہی تو ہے

آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا

وہ یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے

بھیگی ہے رات فیض غزل ابتدا کرو

وقتِ سرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے

یار زندہ۔ صحبت باقی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button