کومل صورت، دھیما لہجہ اور پُروقار انداز کی مالکہ پروین شاکر کو ہم سے بچھڑے پورے تیئس سال گزر گئے۔ چھبیس دسمبر کو ان کی تئیسویں برسی تھی۔ ان کے نام میں کیا اثر ہے کہ پروین نام کے ہر انسان سے ایک عقیدت سی لگتی ہے۔ یہی کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ پروین شاکر کی زمین پر کہی گئی جب میری ایک غزل کے دو شعر شروع اور آخر میں یاسمین اور پروین نام کا یکے بعد دیگرے استعمال ہوا تھا تو یقین کیجئیے گا ہر ملنے والی پروین اور یاسمین یہی ایک سوال پوچھتیں ’’سر! آپ کے شعر میں جو پروین اور یاسمین نام آئے ہیں وہ کون ہیں؟‘‘ بعض دفعہ کتنا مشکل ہوتا ہے سوالوں کا جواب دینا۔ بس ہماری طرف خاموشی کو آدھی رضامندی سمجھ کر وہ اور خوش ہوتیں اور شعر والی پروین اور یاسمین کی جگہ خود کو بٹھانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتیں۔ غزل کا پہلا شعر کچھ یوں تھا؎
خوشبو سے یاسمین کی مہکی ہے کائنات
اُس کا خیال بھی ہے ملاقات کی طرح
آخری شعر؎
بارِ الم کو کون بھلا دوش دے سکے
پروین خود دُکھی ہیں میری ذات کی طرح
پہلا شعر تو کسی کی فرمائیش پر لکھا گیا تھا البتہ اس آخری شعر کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ کئی سال پہلے کسی فیلڈ ڈیوٹی پر طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ سر درد کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ دوستوں کے اصرار پر گاؤں کے اکلوتے مرکز صحت سے چیک اپ کروانا ہی پڑا۔ گاؤں اور دیہات میں یہی چھوٹے چھوٹے صحتی مراکز ہوا کرتے ہیں جہاں ایک آدھ کمپوڈر اور نرسز اپنی خدمات دے رہی ہوتی ہیں۔ لیکن گاؤں والے انہیں ڈاکٹر ہی سمجھتے ہیں اور پیار سے ڈاکٹر کہہ کر پکارتے بھی ہیں۔ کیونکہ جہاں صحتی سہولیات کے حوالے سے یہ صحتی مراکز ان کی کل کائنات ہوتے ہیں وہاں یہ نرسز ان کے لیے ڈاکٹر کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ یہ گاؤں والوں کی مشکلات اور تکالیف کو قریب سے دیکھتی ہیں اور اپنے پیشے سے بڑھ کر اپنی خدمات دیتی ہیں۔ ان کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری نہیں ہوتی لیکن ان کے معصوم چہرے پر مسکراہٹ ضرور ہوتی ہے۔ گاؤں والوں کو بھی ڈگری کی فکر نہیں ہوتی ان کو ڈگری کا اچار ڈالنا ہے کیا؟ ان کو تو خوش دلی کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ نرسیں بخوبی سرانجام دیتی ہیں۔ یہی ہمارا بھی ایک ایسی ہی ڈاکٹر صاحبہ سے آمنا سامنا ہوا۔ بلڈ پریشر چیک کرنے لیے جب بی پی سیٹ میرے بازو سے باندھا گیا کچھ دیر بعد بی پی سیٹ کی ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ ایک اور دکھ بھری آواز سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے غالباً سوال کیا تھا۔ ’’سر! بی پی تھوڈی ہائی ہے کوئی ٹینشن تو نہیں لیتے؟‘‘ ان کی آواز میں اتنی اپنائیت تھی اور اتنا درد تھا کہ شاید میرا سر درد کہیں پس منظر میں چلا گیا تھا۔ مجھے بجائے سوال کا جواب دینے بے اختیار ان سے پوچھنا پڑا تھا۔ ’’آپ کا نام؟‘‘ جب انہوں نے دھڑکتے دل، لرزتے لہجے اور اداس مسکراہٹ کے ساتھ پروین کہا تو فی البدیھہ مذکورہ بالا شعر کہنا پڑا تھا۔ کیونکہ ہمارا درد مشترک معلوم ہو رہا تھا۔ اور یہ شعر جو میری ایک غزل کا آخری شعر تھا جب میری تیسری کتاب ’’تیری یادیں‘‘ کا حصہ بن کے شائع ہوا تھا تو جہاں کتاب کا انتساب ’’ان اوّلین جمیلہ کاوشوں، عظمیٰ ارادوں اور شگفتہ یادوں کے نام‘‘ زیر بحث تھا وہاں یہ شعر بھی زبانِ زدِ خاص و عام ہوا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم بہت سارے لوگوں سے مل جاتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کچھ لوگوں میں آخر ایسی کیا بات ہوتی ہے کہ مل کے بچھڑ جانا اور بچھڑ کے مل جانے کو جی چاہتا ہے۔ شاید یہ اجنبی اپنائیت ہوتی ہے یا درد کا مشترکہ رشتہ جو پل پل آپ کی انگلیاں تھام کے سائے کی طرح آپ کے ساتھ ہمسفر ہوتا ہے۔
اس سمے گاؤں والی اس اکلوتی ڈاکٹر پروین (جن کی شکل و صورت پروین شاکر سے کافی ملتی جلتی تھی۔) کا سوال، ان کا بلڈ پریشر سیٹ اور شاعرہ پروین شاکر کے اس شعر کا یاد آنا کتنا حسین اتفاق تھا۔ پروین شاکر نے ایسے ہی کسی حالات سے دوچار ہوکر کہا تھا؎
اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھلا یہ پیشانی پر کسی مہربان کا ہاتھ ہو یا بازو پر بلڈ پریشر کا سیٹ، تاثیر تو روح کی گہرائیوں تک اتر ہی جاتی ہے۔ شرط صرف اتنا ہے کہ ان کے ساتھ آپ کے درد کا رشتہ مشترک ہو۔
اوہ ان خیالات کے بھی گویا پر ہوتے ہیں کہیں سے کہیں پرواز کر جاتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی کومل جذبوں والی شاعرہ پروین شاکر کی۔ گاؤں والی ڈاکٹر پروین سے معذرت کے ساتھ کہ آپ کی یاد تو اچانک آگئی اصل میں مجھے آج شاعرہ پروین پہ بات کرنی ہے۔ پروین شاکر چوبیس نومبر انیس سو باون میں پیدا ہوئی اور بیالیس سال کے عین شباب میں چھبیس دسمبر انیس سو چورانوے کو ایک ٹریفک حادثے میں اپنے مداحوں کو اداس چھوڑ گئیں، لیکن ان کی شاعری کی بھینی بھینی خوشبو آج بھی قارئین ادب کے اذہان معطر کئے ہوئے ہے؎
مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
پروین شاکر کے بارے میں وائس آف امریکہ کے معروف صداکار خالد حمید نے بہت خوبصورت کالم لکھا ہے۔ میں ان کے شکریے کے ساتھ وہ کالم آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔ پڑھئیے اور لطف اُٹھائیے۔ خالد حمید لکھتے ہیں:
چوبیس نومبر آیا اور گزر گیا۔ یہ پروین شاکر کی سالگرہ کا دن تھا جو ان کی یادوں کو فضا میں بکھیرتا چلا گیا۔ کچھ ٹی وی چینلز نے انہیں بڑی محبت سے یاد کیا۔ ان کی غزلیں چلائیں، ان کے انٹرویوز اور تصاویر دکھائیں اور ان کے پرستاروں کو آبدیدہ کر دیا۔
حالانکہ شاعرہ کا اپنا خیال تھا؎
مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، میرے ہونے کی گواہی دیں گے
لیکن، لوگوں نے نہ صرف اُس کومل صورت کو یاد رکھا ہے، بلکہ ان کے دھیمے لہجے، ان کے پروقار انداز اور دل میں اتر جانے والے شعروں کو بھلایا نہیں ہے۔ اور ان کے کہے لفظ، آج بھی، ان کے ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔
پروین شاکر سے میرا پہلا تعارف، ستّر کی دہائی کے اوائل میں ہوا۔
میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں اس وقت اناؤنسر تھا، کمرشل سروس میں،جس میں مقبول نغموں کے ساتھ تجارتی اشتہار بھی نشر کئے جاتے تھے۔ دو گھنٹے کی اس سروس میں ہم نے ان نغموں کو جوڑنے کےلیے، مختلف پروگرام اور عنوان رکھے ہوئے تھے۔ مثلاً، پروگرام، ’’مجھے یاد آیا‘‘، جس میں سامعین کی ایسی یادوں کو نشر کیا جاتا تھا جو کسی نغمے کے ساتھ وابستہ ہوتی تھیں۔ یہ بہت ہی مقبول سلسلہ تھا اور شاید اسی لیے، میں نے اپنے اس بلاگ کا عنوان بھی یہی رکھا، ’’مجھے یاد آیا‘‘۔
کسی ایک لفظ یا موضوع پر پروگرام کرنے کا خیال آیا تو کوئی اچھا سا ٹائٹل سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اس گتھی کو سلجھانے کی لیے، میں اپنے ایک ماموں کے گھر چلا گیا، جو بہت عمدہ شاعر اور با علم شخصیت تھے، مصطفیٰ راہی مرحوم۔ وہ مجھے اتنے پسند تھے کہ بعد میں ان کی سب سے چھوٹی بیٹی مُنزّہ کو، جو خود بھی شعر و ادب کی دلدادہ تھیں، اپنی شریک حیات بنا کر، راہی صاحب کو اپنا سسر یا والدِ قانونی بنا لیا۔
ان سے جب مسئلہ پوچھا تو حسبِ عادت انہوں نےسگریٹ سلگایا اور ٹہلنا شروع کر دیا۔ لگتا تھا کہ کوئی آمد ہونے والی ہے اور کچھ دیر میں شعر وارد ہوگا۔ لیکن، تھوڑی دیر بعد، ان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور کہنے لگے، میر انیس کا ایک مصرع ہے۔ اصل میں وہ جگر صاحب کے عاشقوں میں سے تھے۔ ان پر کئی کتابیں بھی لکھی تھیں۔ اور ان کی سوچ جگر مراد آبادی سے شروع ہوتی تھی اور انہی پر ہی ختم ہو جاتی تھی۔ لہٰذا، خیال تھا کہ ان کا ہی شعر ہوگا۔ لیکن، مصرع وارد ہوا تو وہ ایک اور بلند پایہ شاعر کا تھا اور وہ اتنا مناسب اور اتنا جاندار تھا کہ انکار کی گنجائش ہی نہ تھی؎
’’اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘
اور جب میں نے اس عمدہ انتخاب پر داد دی، تو پھر بڑے ترنگ میں انہوں نے پورا شعر پڑھا؎
گلدستہٴ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
لہٰذہ، اس عنوان کےلیے موسیقی کا انتخاب کیا گیا اور میں نے ٹائٹل اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے، یہ پروگرام شروع کر دیا، جو سامعین نے بہت پسند کیا۔ ان کے علاوہ بھی کئی اور مقبول سلسلے تھے اور جن میں سے ایک تھا ’’ایک شعر ایک نغمہ‘‘۔
ہر نغمے سے پہلے ہم لوگوں کے بھیجے ہوئے خوبصورت اشعار پڑھتے اور پھر کسی ایک شعر پر موزوں گیت یا غزل سنواتے تھے۔
ہر ہفتے سینکڑوں خطوط ان پروگراموں کے حوالے سے آتے تھے۔ ہم اپنی فلم ریکارڈز کی لائبریری میں بیٹھ کر خط منتخب کرتے اور سکرپٹ تحریر کرتے۔ جاوید محبوب لائبریرین تھے۔ جو شعر و ادب کا ذوق رکھنے والے بہت پرخلوص اور محبت والے انسان تھے، اور وہ ان پروگراموں کی تیاری میں مدد بھی کرتے تھے۔
جلد ہی ان سے یہ دفتری تعلق ایک پائیدار دوستی میں بدل گیا جو ان کی وفات تک قائم رہا۔
مجھے یاد ہے کہ وہ میری شادی میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر کراچی سے آئے اور اپنے والد کا لکھا ہوا ایک خوبصورت سہرا بھی لائے۔
مرحوم جو بھی خوبصورت شعر یا کتاب پڑھتے دوسرے دن صبح آ کر پہلے مجھے سناتے۔ ان میں سے اکثر کو، میں اپنے پروگرام میں شامل کر لیتا۔
ایک دن وہ بڑے خوش خوش آئے اور حسبِ عادت اشعار سنانے شروع کئے۔ اتنی اچھوتی اور عمدہ شاعری سن کر میں نے فوراً ان کے ہاتھ سے کتاب اُچک لی اور ریڈیو کے خوبصورت سبزہ زار میں بیٹھ کر اس سے لطف اٹھانے لگا۔ میں شعر پڑھتا اور جاوید کہتے ’’واہ واہ۔ یار، کیا غضب کی شاعرہ ہے۔ اتنی کم عمری میں کتنی پختہ شاعری‘‘۔ غرض ہم دونوں ہر ہر شعر پر سر دُھنتے رہے اور اسے اپنے پروگراموں میں شامل کرنے کے منصوبے بناتے رہے۔
یہ پروین شاکر سے ہمارا پہلا تعارف تھا اور کتاب تھی’’خوشبو‘‘
اور پھر یوں ہوا کہ’’خوشبو‘‘ مقبولیت کے ریکارڈ توڑنے لگی۔ پروین شاکر کے اشعار اور مصرعے زبان زدِ عام ہونے لگے۔ جیسے کہ یہ مصرع؎
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اور پھر، وہ شعر کہ؎
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
ملک کے معروف گلوکاروں نے ان کی غزلیں گائیں اور ان کی یہ غزل تو اس وقت امر ہوگئی جب عظیم گلوکار مہدی حسن نے اسے اپنی آواز کا روپ دیا؎
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
یہ بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ خان صاحب پی ٹی وی کی ایک محفلِ موسیقی میں شریک تھے۔ جب پروڈیوسر نے یہ غزل پڑھنے کو دی۔ خان صاحب، ادب شناس اور شعر شناس شخصیت تھے۔ اس شاعری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے چند منٹ کے اندر اس کی دھن ترتیب دے دی اور پھر راگ درباری میں اسی وقت حاضرین کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
شاعری، آواز، موسیقی اور ایک بلند پایہ فنکار کی ادائیگی، غزل راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔
پروین شاکر، ریڈیو اور ٹی وی کے تقریباً ہر بڑے مشاعرے کی پسندیدہ شاعرہ ہوتی تھیں۔ اور یوں ان سے ملاقات ہونے لگی۔ لیکن، تفصیلی ملاقات ٹی وی کے ایک پروگرام ’’آج کے مہمان‘‘میں ہوئی۔ جس کے پروڈیویسر جمشید فرشوری تھے اور میزبان ایک نوجوان کومپئیر، عادل نجم تھے۔
یہ میری انتہائی خوش قسمتی تھی کہ پروین شاکر اور ہاکی کے تاریخ ساز کپتان اصلاح الدین کے ساتھ تیسرا مہمان میں تھا۔ بڑی یادگار نشست تھی اور عادل نجم نے بڑے خوبصورت انداز میں ہمارے تعارف کو جوڑا۔
وہ کہنے لگے: ’’پروین، خبریں پڑھنے میں خالد کا انداز اور لہجہ بہت دھیما ہوتا ہے اور آپ کی شاعری بھی بہت نرم اور دھیمے انداز کی ہوتی ہے۔ شاید یہ مماثلت ہی آپ دونوں کو آج کا مہمان بنانے کا سبب بنی۔‘‘
جواب میں پروین صاحبہ نے میری تعریف میں بڑے اچھے الفاظ ادا کئے جو میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔
لیکن، میرے لیے سب سے بڑا اعزاز وہ تھا جب مجھے اور پروین شاکر صاحبہ کو ایک ہی تقریب میں ایک ہی وقت میں ’’تمغہٴحسنِ کارکردگی‘‘ عطا کیا گیا۔
مرحوم صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں یہ تمغے ہمیں پہنائے گئے۔ لیکن، یہ بھی عجب حسنِ اتفاق تھا کہ میری چند اور پسندیدہ شخصیتوں کو بھی اسی سال یہ اعزاز ملا۔ ان میں، فلمسٹار نذیر بیگ، المعروف ندیم، شہرہ آفاق شاعر جناب افتخار عارف، ہاکی کے مشہور کھلاڑی شہناز شیخ، اور ممتاز لوک گلوکار شوکت علی شامل تھے۔
اور جب ان عظیم لوگوں کے ساتھ میں ایک گروپ فوٹو میں شریک ہوا تو یہ لمحہ میرے لیے ایک خواب کی مانند تھا۔ کیمرے کی آنکھ نے آج بھی اس منظر کو زندہ رکھا ہے۔ میرے ذہن میں سب سے ملاقات تازہ ہے۔ خدا سب کو سلامت رکھے۔ بس ایک پروین شاکر تھیں جو خوشبو کی طرح فضاؤں میں بکھر گئیں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
اور چھبیس دسمبر کو، ان سے بچھڑے پورے تئیس سال ہوگئے۔
اور جب ایک بار میں اسلام آباد کے قبرستان میں سفید سنگِ مرمر سے بنی ان کی خوبصورت قبر کے سرہانے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کھڑا تھا، تو نہ جانے کیوں ان کے وہ اشعار باربار یاد آنے لگے جو انہوں نے دبئی کے ایک مشاعرے میں پڑھے تھے؎