بوڑھا رکشا والا(۱)
ایک شام میں پنڈی راجہ بازار سے اسلام آباد جارہا تھا۔دسمبر کے آخری دن تھے۔اس مہینے میں سردی ویسے بھی اپنا سکّہ جما دیتی ہے۔اس شام زوروں کی بارش ہورہی تھی۔اس لیے سردی، گرم کپڑوں سے اندر گُھس کر بدن کو ٹھٹھرا رہی تھی۔فوارہ چوک کے آس پا س کی سڑکیں ،کیچڑ اور پانی سے لُتھڑی ہوئی تھیں۔
میں گلگت سے آیا تھا۔اپنے زیر تعمیر مکان کے لیے رنگ وروغن ،پانی اور بجلی کا سامان خریدنا تھا۔ نصف سامان کی خریداری سے فارغ ہونے تک ، بارش کے پانی اور کیچڑ سے لت پت ہوگیا تھا۔جسم کے گرم کپڑے بھیگ کر بدن سے چپک گئے تھے۔ہم جو پہاڑی علاقوں کے سرد موسموں کو جھیلنے والے ہیں مگر اس شام کی ٹھنڈ میں بڑی کاٹ تھی۔
بارش میں بھیگتا اور کیچڑ میں پھسلتا ، فوارہ چوک سے گھوم کر ،لیاقت باغ والے روڑ پہ آگیا ۔مری روڑ تک جانے کے لیے ایک رکشا روکا ۔اس کا ڈرائیور ایک بڑی عمر کا سفید ریش بزرگ تھا۔رکشا پرانے ماڈل کا تھا۔ایک طرف کا دروازہ بھی موجود نہیں تھا۔ اس رم جِھم بارش میںیہ ٹوٹا پھوٹا رکشا بھی غنیمت تھا۔میں لپک کر اس میں بیٹھ گیا ۔
برستی بارش سے نجات مل گئی تو رکشا ڈرائیورکو غور سے دیکھا ۔وہ بڑی کم زور جسامت کا بوڑھا شخص تھا۔ایک عام سی ،رنگت اُڑی چادر کا بُکل مار کے ،بدن کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔سر پہ سفید ٹوپی تھی۔پتلے سے گلوبند کو سر کے گرد پگڑی کی طرح باند ھ رکھا تھا۔بارش کے کئی قطرے اس کی داڑھی میں اٹکے ہوئے تھے۔
میرے اندر کو ئی چیز چھن سے ٹوٹ گئی ۔یہ عمر ،یہ صحت اور یہ سردی کی بارش۔۔۔اس وقت اسے کسی کمرے کے آسودہ ماحول میں ہونا چاہیے تھا ،پنڈی کی پُر شور اور آلودہ سڑکوں پہ رکشا کھینچتے ہوئے نہیں۔
میں نے پوچھا۔’’چچا ! کب سے رکشا چلا رہے ہیں؟‘‘
’’دو سال ہوئے ۔‘‘ اس کی باریک سی بوڑھی آواز گونجی۔’’پہلے دکان تھی اپنی۔‘‘
’’دکان کیوں چھوڑی ؟رکشے سے تو آرام ہے دکان داری میں ۔‘‘
اس نے سامنے لگے ہوئے چھوٹے سے آئینے میں ،میری طرف دیکھتے ہوئے ایک گہری سانس لی۔پھر جیسے لفظ چباتے ہوئے کہا۔’’چھوڑ دو بیٹا ! کیا کرو گے سن کے ؟اپنی منزل پہ رکشے سے اتر جاؤ گے اور میری بات کہیں گِرا دو گے۔‘‘
سڑک پہ گاڑیوں کا شدید رش تھا۔رکشا جیسے گِھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔اور یہ میرے لیے بہتر تھا۔میں اس بندے کو سمجھنا چاہتا تھا۔اس لیے پوچھا۔’’چچا ! آپ کے بیٹے ہیں ؟‘‘
’’ہاں ہیں۔۔۔تین۔‘‘ رکشوں ،گاڑیوں اور تیز بارش کے شور میں اس کی کراہتی ہوئی سی آواز سنائی دی۔
مجھے حوصلہ ملا ۔’’وہ کیا کرتے ہیں ؟آپ کے ساتھ ہی رہتے ہیں؟‘‘
وہ کچھ نا بولا۔شام کے اس وقت تیز بارش سے جل تھل سڑک پہ، ہیڈ لائٹس کی رنگ بدلتی روشنیوں کی پُھوار تھی۔ اس کا عکس اندر بوڑھے رکشا والے کے چہرے پہ بھی پڑ رہا تھا ۔جُھریوں اور ہڈیوں سے بھرا وہ چہرہ ،سامنے لگے چھوٹے سے آئینے میں، اس لمحے بڑا بھیانک لگ رہا تھا۔ اس کی مرجھائی ہوئی آنکھیں سامنے بھیگی سڑک پہ جمی تھیں ۔بارش کے کئی قطرے اس کے سر سے بندھے مُفلر سے پھسل کر اس کی پیشانی اور پلکوں پہ اٹک گئے تھے۔مگر زمانوں کی پیاس اس کی صحراؤں سی آنکھوں سے اُبل رہی تھی ۔اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔جیسے کوئی بات اندر قید کر رہا ہو اور وہ سلاخیں توڑ کے نکلنا چاہ رہی ہو۔۔۔
پھر وہ بولا ۔اس کے ہونٹ کھل گئے۔بات کوآزادی مل گئی ۔اس کی کپکپاتی ،ٹپ ٹپ برستی بارش میں بھیگتی آواز سنائی دی ۔’’اولاد کسی کی نہیں ہوتی ہے بیٹا !اولاد کسی کی نہیں ہوتی ۔۔۔‘‘
میں اندر سے لرز گیا ۔یہ اس جہاں دیدہ بزرگ کا تجربہ تھا۔اس کی زندگی کا المیہ تھا۔ضروری نہیں سب ایسا سمجھیں ۔مگر وہ ایسا کہہ رہا تھاتواس کی کوئی وجہ بھی تھی۔
تھوڑا سا آگے ہوکر میں نے بلند آواز میں کہاْ ’’چچا ! اولاد اللہ کی نعمت ہوتی ہے ۔بڑھاپے کا سہارا ہوتی ہے۔آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟‘‘
اس نے بڑی گہری سانس لی۔’’اچھی اولاد ہر کسی کو نصیب کہاں ہوتی ہے؟میں بھی ایسا ہی بے نصیب ہوں ۔میرے تین بیٹے ہیں ۔تینوں کی شادی کی ہے۔تینو ں ایک نمبر کے ہڈ حرام اور نمک حرام ہیں۔تینوں نے زندگی بھر مجھے دکھ دیا ہے۔‘‘
میں نے کہا ۔’’چچا ! اولاد بگڑتی ہے قصور صرف ان کا نہیں ،والدین بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔آپ سے بھی کہیں غلطی ہوئی ہے۔‘‘
اس نے سر جھٹکتے ہوے کہا۔’’میری اولاد کی بگاڑ میں ماں کا بڑا کردار رہا ہے۔وہ جب کوئی غلط کام کرتے تھے۔میں انہیں ٹوکتا تھا،ان کی سرزنش کرتا تھاتو ماں ان کی حمایت میں کھڑی ہوتی تھی۔ان کو فرشتہ ثابت کرتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیٹے میری روک ٹوک پر سنبھلنے کے بجائے ،مجھ سے گستاخی کرنے لگے۔ان کی ماں تب بھی خاموش رہی۔۔۔
’’بیٹے بگڑتے گئے ۔کسی نے بھی ڈھنگ سے نہیں پڑھا ۔بڑے ہوکر کسی نے مزدوری کی ۔کسی نے ورکشاپ میں کام کیا ۔چھوٹا بیٹا کسی ہوٹل میں ملازم لگا۔
اس دوران میرے پاس کچھ پونجی اکٹھی ہوئی تھی۔اسی چھوٹے بیٹے کے کہنے پر پیرودھائی میں ہوٹل کھولا ۔یہی چھوٹا سا ،چھپر ہوٹل ۔چھوٹا بیٹا جو ہوٹل میں کام کرتا تھا،اپنے سا تھ بٹھایا۔اکثر ایسا ہوتا تھا،میں وقت سے پہلے ہی ہوٹل بیٹے کے حوالے کر کے گھر چلا جاتا تھا۔کچھ عرصہ بعد کام چل پڑا ۔ساتھ ہی بیٹے کا ہاتھ بھی چلنے لگا ۔آئے دن ہوٹل خسارا دینے لگا۔میں نے کھوج لگائی۔ پتا چلا ،صاحبزادہ پورے پیسے نہیں بتاتا تھا۔روزانہ بڑی رقم چُپکے سے دبا دیتا تھا۔اس کے علاوہ ،اکثر آوارہ قسم کے نشے کے عادی دوستوں کی محفل جماتا تھا،انہیں مفت کھانا کھلاتا تھا۔
’’یہ سب معلوم ہوا تو سخت غصہ آیا ۔رات کو گھر میں اس سے باز پُرس کی ۔ماں بیچ میں آئی تو اسے بھی برا بھلا کہا۔بجائے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے، دونوں مجھ سے لڑ پڑے ۔گھر کا ماحول سخت کشیدہ ہوگیا۔میں نے اس کا اتنا اثر لیا کہ ہوٹل ہی بند کردیا ۔کچھ عرصہ بیکار رہ کر محلے میں ہی چھوٹی سی دکان کھولی۔چھوٹا بیٹا کسی اور ہوٹل میں ملازم لگ گیا۔باقی دونوں بیٹے بھی یہاں وہاں دھکے کھا رہے تھے۔کبھی کچھ کماتے تھے ،کبھی بے کار پِھرتے تھے۔
’’بڑے مشکل حالات سے گزرنے کے بعد تینوں کی شادی کی۔کچھ عرصہ بعد ہی ان کی بے کاری اور کاہلی رنگ دکھانے لگی یاد کریں۔
(باقی واقعات آئندہ قسط میں)