کالمز

کرکٹ و سیاست اور کرکٹرز و سیاستدانوں مماثلت

وسیم عباس
سیاست اور کرکٹ کی طرح سیاستدانوں اور کرکٹز میں بھی کمال درجے کی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں کے پرستاروں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ان کو جس طرح ہیرو بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اسی طرح زیرو بننے میں بھی کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی۔کرکٹرز کی فارم سیاستدانوں کے عروج کی طرح ہوتی ہے۔ لائف ٹائم فارم کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے اور اگر ایک دفعہ بندہ آؤٹ آف فارم ہوجائے تو پھر عروج سے زوال کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ فارم کی واپسی کے لیے ہزار جتن کرنے پڑتے ہیں، گراؤنڈ لیول پر کام کرنا پڑتا ہے پھر جاکے کہیں بیل منڈھے چڑھتا ہے۔ ہاں البتہ کچھ باتیں ان دونوں میں منفرد ہیں جیسے کرکٹ میں دوسرا چانس ہوتا ہے اگر پہلی اننگ میں ناکام تو دوسری سہی، بولنگ نہیں تو بیٹنگ ، بیٹنگ نہیں تو بولنگ یا پھر فیلڈنگ سہی۔ لیکن سیاست ایک ایسا میدان ہے جہاں کوئی دوسرا چانس نہیں ملتا۔ یہاں ہر صورت پہلی اننگ میں رزلٹ دینا ہے نہیں تو گیم ختم۔ایک اور بات یہ کہ کرکٹ کی طرح سیاست میں ایمپائر کا فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔
میاں صاحب کو ہی لیجیۓ ۔ آپ ایک ایسے کرکٹر کی مانند ہے جس پر قسمت کی دیوی مہربان ہے لیکن آپ کنفیوز کرکٹر ہیں ۔ ڈراپ کیچز کا فائدہ نہیں اٹھا پاتے ، پھر وہی غلطی دہراتے اور پکڑے جاتے ہیں۔ ایسے کرکٹرز کی اکثر کوشش ہوتی ہے کہ ایمپائر کے علاوہ مخالف کرکٹرز بھی اپنے ہوں۔ ایسے کرکٹرز مشکل میں ہوں تو پاؤں اور جب طاقت میں ہوں تو گریباں پکڑتے ہیں۔ ایسے کرکٹرز اچھے اوقات میں دوسروں پر ہوٹنگ کرتے ہیں اور مشکل وقت میں ایسے منہ لٹکائے کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کا منہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔ جب مخالف تگڑا ہو تو ان پر ترس آنے لگتا ہے۔ ایسے کرکٹرز مشکلات کو شعیب اختر کے ان باونسرز کی مانند لیتے ہیں جو وہ کبھی سچن ٹنڈولکر کو پھینکا کرتے تھے۔ ایسے کرکٹرز جوے کے ماہر ہوتے ہیں لیکن ہر بار ان کے بکیز انہیں بچالیتے ہیں۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے، بالآخر پکڑے ہی جاتے ہیں۔۔
اب کپتان کو ہی لے لیجئے۔ آپ اصل میں بھی کپتان رہے ہیں اور بڑے جارحانہ کپتان رہے ہیں۔ ان جیسے کرکٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹیم جیتے چاہے اپنا کوئی فائدہ ہو کہ نہ ہو۔ ایسے سیاستدان ہوں یا کرکٹرز ان کی فین فالونگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے کرکٹرز کو ناکامی پر بڑی گالیاں بھی سہنی پڑتی ہیں کیونکہ قوم کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ جب فارم میں ہوتے ہیں تو یہ تن و تنہا کئی میچز جتوا دیتے ہیں اور بڑے بڑوں کے چکھے چھڑا دیتے ہیں۔160 لیکن جب یہ ایک میچ میں ناکام ہوں تو قوم ان کی پرانی پرفامنسز کو بھول کر لعن و طعن کرنا شروع کردیتی ہے۔ ایسے کرکٹرز کی قدر بعد از ریٹائرمنٹ اور ایسے سیاستدانوں کی قدر بعد از مرگ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اور کچھ زرداری قسم کے کرکٹرز ہوتے ہیں۔ ان کو بلاشبہ کرکٹ کے پروفیسرز کہا جاسکتا ہے۔ ایسے کرکٹرز کو ٹیم کی کوئی فکر نہیں ہوتی بس ٹیم میں اپنی جگہ بچانے کے لیے کھیلتے ہیں۔ ایسے کرکٹرز سنگلز ڈبلز لے کر خود کو سٹرائیک سے دور کرتے ہیں تاکہ آخر تک گراؤنڈ میں موجود رہیں اور وقت ضرورت چوکا چھکا لگا کر ہیرو بن سکیں ۔ ان کے چوہے بلی کے کھیل میں سٹرائیک ریٹ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ گیم جیتنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے ۔ ایسے کرکٹرز مشکل کنڈیشنز میں انجریز کا بہانہ بنا کر گراؤنڈ میں نہیں اترتے اور اگر میدان میں اترنے کے بعد پھنس جائیں ہسپتال جانے کے لیے تو ایسے ہڈی پسلی ٹوٹنے کا بہانہ کرتے ہیں جیسے سیاستدان نیب کے پکڑ میں آنے کے بعد ہارٹ اٹیک کا۔ ایسے کرکٹرز تب تک گراؤنڈ میں نہیں اترتے جب تک گراؤنڈ، کںڈیشنڈ ، اور حالات موافق نہ ہو۔ ایسے کرکٹرز اور سیاستدان تیز باونسرز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیںں کرتے اور جھک کر جانے دیتے ہیں۔ ایسے کرکٹرز گراؤنڈ میں اکثر بیٹ، پیڈ یا ہیلمٹ بدلتے رہتے ہیں جیسے سیاستدان اپنے مہرے بدلتے ہیں۔ اور اگر یہ کبھی ٹیم سے باہر ہوجائیں تو فوراً ایسی بھونگیاں مارتے ہیں کہ خودبخود خبروں میں آجاتے ہیں۔ ایسے کرکٹرز کبھی دل گردے والی ایسی بات کرجاتے ہیں کہ برسوں ٹیم سے باہر ہوجاتے ہیں۔ جیسے کہ تھرڈ ایمپائر کی حیثیت کو چیلنج کرنا کہ کھیل میں دوڑ دوڑ کے تھک ہاریں ہم آپ ہوتے کون ہیں جو ائرکنڈیشنڈ روم میں بیٹھ کے ہماری قسمت کا فیصلہ کریں۔ یہ ایمپائرز کو سمجھاتے ہیں کہ آپ اپنے ساڑھے تین گھنٹے کے میچ کے بعد فارغ ہوتے ہیں ہم نے ساری عمر عوام کا سامنا کرنا ہے اس لیے ذرا سنبھلکے۔.۔۔ایسےکرکٹرز کرکٹ سے جو کماتے ہیں وہ وہیں پر لٹانے کا جگرا بھی رکھتے ہیں۔ ایسے کرکٹرز جہاں کرکٹ میں کرپشن کی وجہ سے کوڑے کھاتے ہیں وہیں اسی کرکٹ میں کرپشن کی وجہ سے کروڑوں بھی کھاتے ہیں اور اکثر کوڑوں اور کروڑوں میں فرق بھی نہیں کر پاتے۔۔ ایسے کرکٹرز چاہیں زیرو پر اوٹ ہوں، ٹیم سے ڈراپ ہوں یا میچ فکس کرتے ہوئے پکڑے جائیں مجال ہے کہ ان کے چہرے پر تھکن آجائے۔ ایسے لوگ کیمرے کو دیکھتے ہی دانت باہر نکالتے ہیں، کھسیانی ہنسی ہنستے ہیں اور وکٹری کا نشان دکھاتے ہیں۔ ایسے کرکٹرز کو ڈراپ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ پہلے سے زیادہ دبنگ انداز میں واپسی کرتے ہیں اور اپنی پچھلی مظلومیت کا رونا روتے ہیں اور عوام کی نظر میں پارسا بن جاتے ہیں۔ ایسے کرکٹرز اور سیاستدان دونوں لیجنڈز کے نام پر کھیلتے ہیں اور اکثر ہوتے بھی لیجنڈز کی نسل سے ہیں۔ یہ لوگ آباواجداد کے نام پر یوں کھیلتے ہیں جیسے کسی زمانے میں جاوید میانداد کے نام پر فیصل اقبال کھیلا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہمارے مولانا فضلو بھی ہیں۔ آپ کی عادات کرکٹرز سے کم ایمپائرز سے زیادہ ملتی ہیں۔ آپ بیک وقت دونوں ٹیموں کی طرف سے کھیلتے ہیں اور کبھی کسی کے محبوب رہتے ہیں تو کسی کے معطون اور اگر کسی کے معطون تو کسی نہ کسی کے محبوب۔۔ کسی کی وکٹ گررہی ہو تو آپ روکتے نہیں بلکہ گرانے والے کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگر یہ پہلی ٹیم کی وکٹ گرانے میں دوسری ٹیم کی مدد کرے تو پہلے ناراض اور پھر یہ پہلی ٹیم کو خوش کرنے کے لیے ان کی مدد کرتے ہیں کہ یہ دوسری ٹیم کو آؤٹ کریں اور یوں یہ دونوں ٹیموں کے لیے قابل قبول ہو جاتے ہیں اور وقت ضرورت دونوں کوصرف اپنی مہربانیاں یاد دلاتے ہیں اور وہیں ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں۔ اور اگر کبھی آپ کا یہ جاننے کا من کرے کہ آج کل کس کا عروج ہے اور کس کا زوال تو صرف یہ دیکھئے کہ مولانا نے اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالا ہوا ہے۔ جس پلڑے میں مولانا ہوں تو سمجھئے کہ آج کل ان کی چاروں انگلیاں گھی میں ہیں اور ان کا زوال ان کا بڑی بے چینی سے بانہیں کھولے منتظر ہے۔ آپ بڑے گھاک کےایمپائر ہیں، آپ سیاست کے علیم ڈار ہیں جو ہر فیصلے کی رگ رگ تک سرایت کر جاتے ہیں اور آپ کا کوئی فیصلہ غلط نہیں ہوتا البتہ نیت میں فتور ہو تو الگ بات ہے۔ آپ کھلاڑیوں اور تماشائیوں میں اپنا بھرم رکھنے کے لیے ایمپائرنگ کے مقدس شعبے کا بڑی بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔ آپ ایسے گراؤنڈ ایمپائر ہیں جو تھرڈ ایمپائر کا فیصلہ پہلے سے ہی جانتے ہیں اور اس کے خلاف کبھی نہیں جاتے۔۔۔.
اب پرانی ٹیم کے نئے کپتان سراج الحق کی بات کرتے ہیں۔ آپ جناب اپنی عزیز داری کی وجہ سے بکیوں کو شہید اور کرکٹرز کو جہنمی قرار دیتے ہیں۔ آپ میں بے شمار خامیاں سہی لیکن ایک بات کی آپ کو داد دینی پڑے گی کہ آپ سیدھے بلے سے کھیلتے ہیں۔ جیسا سوچا ویسا کہا اور اس پر عمل کیا۔ آپ اور کرکٹر حسن علی میں کسی حد تک مماثلت ہے۔۔ دونوں نے دھماکہ دار انٹری دی ہے۔ حسن علی کی انگریزی اور سراج الحق کی اردو کا کوئی توڑ نہیں۔ سراج الحق سیاست کے عقلمند بولر واقع ہوئے ہیں۔ بھانت بھانت کر ہی گیندیں کراتے ہیں۔ سلو ڈیلیوریز، باونسرز، یارکرز سمیت تمام ورائٹیز کا آپشن کھلا رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ٹیم سے ڈراپ نہیں ہوتے۔ آپ کرکٹرز اور بکیز کے باہمی آتحاد کے حامی ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے ملکی معیشت اور ملکی ثقافت اور ملکی حالات کو بڑا فائدہ ہوگا۔آپ سمجھتے ہیں کہ بکیز بھی انسان ہیں۔ انہیں حالات نے ایسا بنادیا ہے۔ آپ اس کے زمہ دار بھی کرکٹ کو ہی قرار دیتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان کے چاچے دادے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کا سسٹم پر سے اعتبار ا ٹھ گیا ہے۔۔۔
اور ایک محمود خان اچکزئی بھی ہیں۔ آپ کی خصوصیات ان سابق کھلاڑیوں سے ملتی ہیں جو کسی نوکری کے لیے بورڑ کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اور نوکری کے ملتے ہی ایسے چپ ہوجاتے ہیں جیسے انہیں کچھ پتہ ہی نہ ہو کہ بورڑ میں کیا ہورہا ہے۔ اچھی پوسٹوں پر اپنے عزیز و اقارب کو کھپوادینے کے بعد یہ پیچھے بیٹھ کر ملک کی خیر خواہی کرتے ہیں۔ اچکزئی ٹائپ کے سابق کرکٹر مخصوص علاقوں کے کھلاڑیوں کو مظلوم بناکے پیش کرتے ہیں تاکہ ان علاقوں کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں۔ دراصل انہیں ان کرکٹز سےکوئی ہمدردی نہیں وہ تو بس اس واسطے آپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔۔۔۔
کچھ کرکٹرز اپنے بھائی کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے کھیل کی وجہ سے نہیں اپنی اوٹ پٹانگ حرکات کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں۔ ایسے کرکٹرز ٹیلنٹ میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں اور ہر کوئی اس کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ ایسے کرکٹرز ہوں یا سیاستدان اپنی صحت پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے۔ عمر اکمل کرکٹ کے بھائی قرار دیے جاسکتے ہیں۔ بھائی ٹائپ کے کرکٹرز کو آئی۔سی۔سی اور پی۔سی۔بی سے لے کر اپنے ساتھیوں تک سے شکایتیں ہوتی ہیں اور اگر کوئی ان کی جگہ لیتا دکھائی دےتو اسے راستے سے ہی ہٹادیتے ہیں چہ جائیکہ اپنا کوئی کمالو آجائےجن کے آگے ان کی ایک نہ چلے جیسے کرکٹ کے بھائی کے آگے بابر اعظم۔ اگر بھائی ٹائپ کے کرکٹرز فارم میں ہوں تو ایسی پرفامنس دیتے ہیں کہ ان کی ایک پپی ادھر اور ایک پپی ادھر لینے کو دل کرتا ہے۔
اور کچھ کرکٹرز شیخ رشید کی طرح ہوتے ہیں جو کسی بھی ٹیم میں جگہ نہ ملنے پر کمنٹری کی طرف آجاتے ہیں اور اپنے ان ساتھیوں کے کیریئر کا سورج تین مہینوں میں غروب ہونے کی نوید سنادیتے ہیں جو ان سے اچھی تکنیک ، فارم اور صلاحیتوں کے باعث ٹیم میں سلیکٹ ہوئے ہیں۔ اور اگر سالوں بعد کبھی وہ ٹیم سے ڈراپ ہوں تو کہتے ہیں کہ بس سال آگے پیچھے ہوا ہے ڈراپ کی تاریخ وہی ہے ۔۔۔یہ ایسے مسافر ہیں جن کے پاس جہاز تو ہےساتھ چلنے کے لیے کوئی مسافر نہیں۔۔۔آپ جیسے کرکٹرز موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کسی گرتے کو ایک اور دھکا دیں۔۔ ان جیسے کرکٹرز کی عادت ہوتی ہے کہ گراؤنڈ میں کچھ نہ کچھ بولتے رہیں تاکہ خبروں میں رہیں اور اکثر فیلڈ میں ان کی باتیں اور حرکات ایسی ہوتی ہیں کہ بڑے بڑوں کے لیے ہنسی روکنا محال ہوجاتا ہے۔ جب آپ کمنٹری پینل میں ہوں تو ایمپائر کا فیصلہ ان سے پہلے سنادیتے ہیں مگر یاد رہے اگر آپ صحیح فیصلہ جاننا چاہتے ہیں تو عرض ہے کہ صحیح فیصلہ شیخ صاحب کے تجزیے کے بلکل الٹ ہوگا۔۔
اور کچھ اسفندیار ولی خان جیسے کرکٹرز ہوتے ہیں جو کھیلنا کسی اور ٹیم کی طرف سے چاہتے تھے موقع نہ ملنے پر مجبوری میں کسی اور ٹیم کی طرف سے کھیلیں۔ ایسے کرکٹرز ڈومیسٹک میں تو پرفامنس دیتے ہیں لیکن قومی سطح پر ان کی کارکردگی زیرو ہوتی ۔۔۔۔۔

وسیم عباس لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کا طالب علم ہیں. 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button