کہانی کو چلنے دو
ہمارے گاؤں میں ایک چھوٹے نمبردار تھے ،چھوٹے اس لئے کہ ان سے نمبرداری کے اختیارات چھن چکے تھے ،اپنے دور میں انہوں نے عوام کے اوپر مظالم کی انتہا کر دی تھی عوام سے لوٹ مار ان کی زندگی کا مقصد بن چکا تھا ،انہی مظالم سے تنگ آکر عوام نے کسی نہ کسی طرح نمبرادار سے اختیارات چھین لئے اور دوسرے ایک معزز اور رحم دل شخص کو نمبرداری سونپ دی ،نئے نمبردار نے عوام کی زندگی آسان بنانے کے لئے کئی عوام دوست اقدامات کئے ،نمبرادار کے انہی عوام دوست اقدامات کی وجہ سے پرانے نمبردار کی اہمیت ختم ہو گئی ، سابقہ نمبردار نے اپنی ساکھ بحال کرنے کے ہزار جتن کئے لیکن کوئی حربہ کام نہیں آیا ،چیلے تو ہر نمبردار کے ہوتے ہیں ان چیلوں کا اجلاس نمبردار نے بلایا اور ایجنڈا بیان کیا کہ ہمارے اقتدار کا سورج تو نئے نمبردار کے عوام دوست اقدامات کی وجہ سے ہمیشہ کیلئے ڈوب رہا ہے کیاایسا کیا جائے کہ لوگ نمبردار سے نفرت شروع کریں اور عوام کی توجہ پھر سے ہماری طرف ہو ،چیلوں نے بہت سارے مشورے دئے ان پر عمل شروع ہوا ،کسی ایک چیلے نے کہا کہ عوام کو نمبردار کے خلاف عدم اعتماد کے لئے تیار کیا جائے اس سازش کے تحت چونکہ اس وقت تو میڈیا تو تھا نہیں گاؤں کے کچھ مخصوص لوگ ہی چلتے پھرتے اخبار کا کام دیتے تھے انہوں نے افوا پھیلا دی کہ نئے نمبردار کے خلاف بغاوت یا عدم اعتماد کی تیاری ہے ،اس افوا کو عوام نے سنا تو عوام ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے کہ ہم کیوں بغاوت کریں اس نئے نمبردار نے تو علاقے میں امن دیا خوش حالی دی اور عوام کو شعور دیا ،اس سازش میں سابقہ نمبردار اور اس کے چیلوں کو ناکامی ہوئی تو مختلف افواہوں کا سہارا لیا کہ نئے نمبردارنے یہ کیا ،وہ کیا ،سب کچھ ختم ہوا ،لٹ گئے تو پٹ گئے ،جیسے آج کل کے سیاسی نمبردار رونا روتے ہیں وہی رونا وہ بھی روئے ،عوام نے ایک نہ سنی،،سابقہ نمبردار اور اس کے چیلوں نے بھی ہار نہیں مانی اور کہنا شروع کیا کہ نئے نمبردار عوام کی زمینوں کو ہڑپ کرنا چاہتے ہیں ،اوربہت ہی بیہودہ الزام لگایا کہ ہمارے دور میں امن و امان نہیں تھا تو اس کے پیچھے بھی اسی نئے نمبردار بننے والے کا ہاتھ تھا ،عوام نے یہ الزام بھی سابقہ نمبردار اور اس کے چیلوں کے منہ پر مارا کہ سابقہ دور کے حکمران آپ تھے آپ نے اپنے دور میں لوٹ مار کے علاوہ کوئی کام کیا نہیں امن اس لئے تباہ کیا کہ عوام کی توجہ آپ کی لوٹ مار پر نہ جائے اب قوالیاں کسی کام کی نہیں ،اور زمینوں کے الزام پر نئے نمبردار نے عوام دوست اقدام یہ کیا کہ بنجر زمینوں کی آباد کاری کر کے عوام کو حوالہ کرنے کا منصوبہ بنایا ۔الغرض ،پرانے نمبردار کا کوئی حربہ اور کوئی سازش کام نہ آئی ۔عوام نے عوام دوست نمبردار کے عوام دوست کارناموں کی بدولت اس کی تعریفیں بھی شروع کر دی تو سابقہ نمبردار کو تو پیٹ مروڑ اٹھنے لگے ،،،،ہر طرف سے ناکامی کے بعد نمبردار نے اپنے چیلوں کو ایک عجیب اور تباہ کن کام پر لگا دیا ،اپنے چیلوں سے میٹنگ کرکے انہیں کہا کہ اب آپ صرف ایک کام کرو وہ یہ کہ علاقے میں قسم قسم کے جھگڑے اور تنازعات پیدا کرو ،چیلوں نے اپنے کام کا آغاز کر دیا ،سابقہ نمبردار کے پاس حکومت ختم ہونے کے بعد چونکہ کوئی کام تو تھا نہیں اس لئے اس نے لوگوں کی محفلوں میں جانا شروع کر دیا ،عوام سے ہمدردی جتانے لگ گئے ،ہر غم خوشی میں جانے لگے ،ادھر اس کے چیلے اپنا کام انتہائی ہوشیاری سے کر رہے تھے ،جیسے آج کل کے سیاسی چیلے کرتے ہیں ،نئے نمبردار چونکہ عوام دوست تھے دن رات علاقے کی ترقی کیلئے کوشاں رہتے تھے ،گاؤں کی ترقی کیلئے دوسرے گاؤں کا دورہ کر کے اپنے گاؤں کیلئے منصوبے لاتے تھے ،حکومتی کاموں اور علاقے کی ترقی میں مصروف تھے ،اور عوام کی شادیوں اور اموات میں جانے کیلئے وقت نہیں ملتا تھا ،اور نہ ہی چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی صلح کیلئے وقت ملا ،اس صورتحال میں چونکہ پرانے نمبردار کے چیلوں کو بھی خاطر خوا کامیابی مل چکی تھی ،اس کے چیلوں نے تنازعات اور جھگڑوں کا آغاز کمال ہوشیاری سے کرا دئے تھے ایسے میں سابقہ نمبردار عوام کے ہمدرد بن کر ہر محفل میں تقریر کر کے اپنے آپ کو عوام دوست اور نئے نمبردار کو عوام دشمن بتانے لگ گئے۔ادھر ہر جھگڑے کی صلح کے بھی سابقہ نمبردار جرگہ دارا بن کر حاضر ہوا ،نمبردار روز جھگڑوں کی صلح کیلئے حاضر ہوتا ،نئے نمبردار علاقے کی ترقی اور حکومتی کاموں میں مصروف تھا وہ اگر اپنے اصل فرائض سے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں الجھتے تو حکومتی نظام میں خلل پڑتا تھا ایسے میں پرانے نمبردار کو موقعہ مل گیا پرانے نمبردار کی اس تبدیلی پر عوام کے دل میں بھی تھوڑی نرمی پیدا ہو گئی ،ہر محفل میں پرانے نمبردار کی آؤ بھگت شروع ہوئی ، ہر کوئی کہتا آج پرانے نمبردار صاحب آرہے ہیں ،،آج نمبردار صاحب جا رہے ہیں ،الغرض نمبردار کی آنیاں جانیاں بڑھ گئی ،لیکن جھگڑے ختم ہونے کے بجائے مزید الجھتے گئے ،جس جھگڑے کی ایک دن میں صلح ممکن تھی اسے مہینوں الجھاتے اور روز جرگے کرتے ،ایک دن اس کے ایک چیلے نے سوال کیا کہ نمبردار صاحب جان کی امان پاؤں توایک سوال ہے کہ جو جھگڑا ایک دن میں ختم ہو سکتا ہے اسے مہینوں کیوں الجھاتے ہو ،،،نمبردار نے جواب دیا ،بے قوف کہیں کے ،،حکومت تو پہلے ہی چھن گئی ہے ،نئے نمبردار نے ترقی ،امن اور خوشحالی سے عوام کو اپنا گرویدہ بنایا ہے ،ہمارا کردار تو اب محض محفلیں جمانا رہ گیا ہے ایسے میں جھگڑے کی صلح ایک دن میں کراؤں تو میری کیا اہمیت رہ جائے گی ،پھر کون میری آؤ بھگت کرے گا ،کون کہے گا نمبردار صاحب یہاں تشریف رکھیں ،کون کہے گا کہ آج نمبردار صاحب آرہے ہیں تو آج نمبردار صاحب جا رہے ہیں ،بے قوف بس اس کہانی کو چلنے دو ،کہانی یوں ہی چلے گی تو ہماری ساکھ بھی برقرار رہے گی۔
اس کہانی کے بعد مجھے بے اختیار گلگت بلتستان کی سابقہ حکومت کی کہانی یاد آتی ہے اتفاق سے ہمارے گاؤں کے سابق ناکام نمبردار کی کہانی اور سابقہ پیپلز پارٹی کی کہانی میں حیرت انگیز ملاپ ہے ،پی پی کے حکمرانوں نے بھی ہمارے گاؤں کے نمبردار کی طرح عوام سے لوٹ مار کی اور امن و امان تباہ کیا ،کرپشن ،اقربہ پروری اور سفارش کلچر کو پروان دیا ،پیپلز پارٹی کے نمبرداروں کے انہی کارناموں سے تنگ آکر عوام نے نمبرداری مسلم لیگ ن کو دی اور مسلم لیگ ن نے علاقے میں امن قائم کیا ،ترقی میں ستر برسوں کا ریکارڑ توڑ دیا ،عوام مسلم لیگ ن کے کارنا موں پر تعریفیں کرتے ہیں تو ہمارے گاؤں کے ناکام نمبردار کی طرح پیپلز پارٹی کے نمبردار بھی اسی طرح کی من گھڑت افواہیں پھیلاتے ہیں ،اسی طرح جھگڑوں کی صلح کے نام پر الجھاتے ہیں ،چونکہ ہمارے گاؤں کے ناکام نمبردار کی طرح پیپلز پارٹی کی بھی خواہش ہے کہ عوام ان کی آؤ بھگت اسی طرح کرتے رہے اور مستقبل میں عوام رحم کھا کر اقتدار انہیں سونپیں اس لئے ہمارے گاؤں کے ناکام نمبردار کی طرح کہانی کو یوں ہی چلانا چاہتے ہیں ،اب چونکہ نمبردار کی طرح ان کا بھی کوئی کام کاج تو ہے نہیں اس لئے ان کی رضا مندی اور ان کی خوشی کیلئے کہا جا سکتا ہے کہ ،کہانی کو چلنے دو۔