کالمز

"مرد کوہستانی”‌ – امان اللہ خان

اقوام متحدہ کے ’استصواب رائے ‘ کی تلوار تلے اپنے مستقبل کے سفر کا انتظار کرنے والے کشمیر کے تین حصے ہیں۔ ایک حصہ انڈیا کے زیر قابض اور دو حصے پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔ تینوں اکائیوں میں سب سے بڑا علاقہ انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر ہے جبکہ دوسرے نمبر پر گلگت بلتستان (بلحاظ رقبہ) اور تیسرے نمبرپر آزاد کشمیر ہے ۔ ان تینوں علاقوں کی سیاسی جدوجہد اور اصلاحات و نظام میں بھی مقبوضہ کشمیر آف انڈیا سب سے آگے ہیں تاہم دوسرے نمبر پر آزاد کشمیر اور تیسرے نمبر پر گلگت بلتستان کا علاقہ ہے ۔ مقبوضہ کشمیر ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے آپس میں بھی تعلقات کبھی بہتر نہیں رہے بلکہ تعلقات ہی نہیں رہے ہیں آئے روز دوریوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر نے برصغیر کی سیاست میں بڑے بڑے قدآور سیاستدان پیدا کئے مگر وہ سارے قدآور شخصیات اور سیاستدان مظفر آباد آزاد کشمیر میں آکر متنازعہ قرار پائے ۔ پھر آزاد کشمیر نے اپنی سیاسی تاریخ میں بڑے بڑے سیاسی شخصیات پیدا کئے جنہوں نے ملکی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی اپنی بات بھی پہنچائی اور اپنا لوہا منوایا مگر گلگت بلتستان کی سرزمین میں آکر وہ تمام سیاسی قائدین متنازعہ قرار پائے ۔ آج گلگت بلتستان کی سیاست میں کسی کشمیری لیڈر کا اثر رسوخ نہیں ہے مگر گلگت بلتستان نے صرف ایک سیاسی شخصیت پیدا کی جس نے آزادی کشمیر کی تحریک کو نیا موڑ دکھایا انہوں نے اس تحریک کو دو ملکوں کی سرحدوں سے نکال کر تمام بڑے ممالک اور اقوام متحدہ تک پہنچایا مرد کوہسار کی راہ میں قدم قدم رکاوٹیں کھڑی کی گئی مگر عالمی پولیس سے لیکر مقامی پولیس تک کسی کے سامنے نہیں جھکے ۔ گلگت بلتستان کے اس سپوت کا نام امان اللہ خان ہے جسے آج آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر ، پاکستان ، ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔

امان اللہ خان آزادی کشمیر کی جدوجہد میں نئی روح پھونک کر خود ابدی نیند سو گئے ۔ 26اپریل 2016کو امان اللہ خان دار فانی سے کوچ کرگئے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ ملک کے دیگر علاقوں میں گزارنے کے باوجود وصیت کی کہ مجھے اپنی سرزمین گلگت بلتستان میں دفنایا جائے اور مورخہ 28اپریل 2016کو انہیں گلگت کونوداس کے قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا ۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ حریت رہنما 85سال کی عمر میں جان کی بازی ہار گئے ۔ زمانہ طالبعلمی سے ہی مرحوم کا گلگت بلتستان سے لگاؤ تھا ان کے سیاسی میدان کی پہلی سیڑھی بھی ’گلگت بلتستان یونائیٹڈ آرگنائزیشن ‘نامی تنظیم تھی جس کے پلیٹ فارم سے امان اللہ خان نے 1960کی دہائی میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں گلگت بلتستان کو بھی نمائندگی دی جائے اس زمانے میں گلگت بلتستان سے راجگی نظام کا خاتمہ بھی نہیں ہوا تھا اور مقامی سطح پر سیاسی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔مختلف سیاسی و غیر سیاسی اور طلباء کی جماعتیں بناکر انہوں نے جی بی کے لوگوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ کئی افراد کی زمانہ طالبعلمی میں خوب امدادبھی کی ۔ کراچی میں ان کے زاتی گھر میں رہائش کے لئے صرف ایک تعارف کی ضرورت تھی کوئی بھی اس گھر میں جاکے کہتا کہ میں گلگت بلتستان کا ہوں تو وہ اس گھر کا مستقل باشندہ کہلاتا تھا ۔ سیاسی طور پر وہ گریٹرکشمیر کے حامی تھے اور گلگت بلتستان کو کشمیر ریاست کا اٹوٹ انگ سمجھتے تھے ان کے نظریہ سے اختلاف کسی کو بھی ہوسکتا ہے مگر اپنے نظریہ اور اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے جوجہد مسلسل کی ہے اس پر اس کے مخالفین بھی معترف ہے ۔

خود مختار کشمیر کے حامی امان اللہ خان سیاسی منظر نامے میں اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب سابق صدر ایوب خان نے مسئلہ کشمیر کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ختم کرنے کی کوشش کی تو امان اللہ خان نے رد عمل میں کشمیر انڈیپنڈنس کمیٹی کی بنیاد رکھی اور بھرپور مزاحمتی سرگرمیاں شروع کیں۔ انہیں سرگرمیوں کو مزید تیز کرنے کے لئے ’کشمیر محاز رائے شماری ‘کا قیامعمل میں لایا گیا پہلے اجلاس میں امان اللہ خان کے علاوہ بھی گلگت بلتستان کی نمائندگی موجود تھی اور قابل فخر بات یہ ہے کہ خودمختار کشمیر کے راہ میں پہلے شہید کا تعلق بھی گلگت بلتستا ن سے تھا ۔یہ تنظیم بعد ازاں 1970میں جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ میں تبدیل ہوگئی جبکہ 1977میں یہ تنظیم لندن میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بن گئی ۔جس نے مشہور زمانہ سیز فائر لائن کئی بار عبور کرنے کا ہدف مقرر کر لیا ۔ شہید مقبول بٹ جیسے کشمیری رہنمااسی تنظیم کے اہداف کے حصول میں پھانسی کے پھندے تک پہنچ گئے ۔

امان اللہ خان کی سیاسی سرگرمیاں گو کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں زیادہ تھیں مگر اس کے باوجود گلگت بلتستان میں ان کی سیاسی سرگرمیوں کے گہرے نقوش موجود ہیں ۔ نومبر 1970میں امان اللہ خان کو گلگت میں عوامی حقوق مانگنے اور عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی تحریک چلانے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے جہاں سے انہیں لاہور شاہی قلعہ کے ازیت خانہ میں بند کردیا گیا ۔ شاہی قلعہ کی جسمانی مشقتیں اور ازیتوں سے زمانہ واقف ہے ۔

امان اللہ خان نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے کئی ممالک کے دورے بھی کئے اور ایک زمانے تک جلاوطن بھی رہے ۔ انڈیا کی ایماء پر انہیں انٹرپول کے زریعے گرفتار بھی کیا گیا ۔امان اللہ خان نے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے لئے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر فورم پر آواز اٹھائی گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کے لئے انہوں نے 17مہینے اور10سلاخوں کے پیچھے گزاردئے جبکہ پچیس دن اڈیالہ جیل میں قید کاٹی جس میں آزاد کشمیر و مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی شامل تھے امان اللہ خان ،مقبول بٹ اور دیگر کو گلگت سے تین بار علاقہ بدر کیا گیا،1964میں گلگت بلتستان میں دھاندلیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔گلگت بلتستان سے متعلق 3کتابچے اقبال جرم 1970،گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت 1987،اور گلگت بلتستان کا مستقبل 1965بھی لکھا جبکہ ان کی سوانح عمری میں جابجا گلگت بلتستان کے عوام اور سیاسی رہنماؤں کا زکر ملتا ہے جبکہ یوم آزادی گلگت بلتستان یکم نومبر کو اکثر و مضامین اور مطالبات پہنچاتے رہے ۔انہوں نے گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر کے متعلق پانچ کتابیں فری کشمیر 1970(انگریزی)،جہد مسلسل اول ، جہد مسلسل دوم ، جہد مسلسل سوئم اور انڈیپنڈنٹ کشمیر (انگریزی ) بھی لکھی۔اپنی رحلت تک امان اللہ خان گلگت بلتستان کے حالات سے خوب معلومات اور واقفیت رکھتے تھے انہوں نے کئی افراد کی خفیہ امداد بھی کی ہے (خفیہ سے مراد تنظیمی طور پر نہیں زاتی طور پر ) جن میں شہداء ، غازیوں کے پسماندگان ودیگر شامل تھے ۔

امان اللہ خا ن 24اگست 1931کو گلگت بلتستان کے دورافتادہ علاقے استور میں جمعہ خان کے ہاں پیدا ہوئے ۔جہاں سے بعد ازاں مقبوضہ کشمیر پھر پاکستان کے مختلف علاقوں میں زندگی گزاری ۔ 26اپریل 2016کو دار فانی کو الوداع کرگئے اور اپنی وصیت کے مطابق گلگت کے زمین تلے ابدی نیند سوگئے ۔ 24اگست سے 26اپریل تک انہوں نے زندگی کا سفر نہیں کیا بلکہ جہدمسلسل کاٹی ۔ یہی وجہ ہے ان کی وفات کے بعدگلگت (28اپریل کو (، آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا کے کئی ممالک میں مرحوم کی خدمات کاتذکرہ کرنے اور ان کی جہد مسلسل کو سلام پیش کرنے کے لئے تقریبات اور ریفرنسز کا انعقاد کیا گیا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

فہیم اختر

فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔

متعلقہ

Back to top button