کیا بچپن کا عدم تحفظ ساری زندگی ساتھ رہتا ہے ؟
تحریر: سبطِ حسن
بچے کالگاؤ ہر کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ لگاؤ کو محفوظ بنیاد فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صرف اس فرد کی طرف لگاؤ کے لیے دیکھا جائے جو اس کا اہل ہو۔ بچے میں اعتماد کا احساس پیدا کرنے میں ایسے لوگوں کا اہم کردار ہوتا ہے جو اس کے لگاؤ کے اہل بن سکتے ہیں۔محفوظ بنیاد سے ہی دیرپا اعتماد پیدا کرنا ممکن ہے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ بچہ بے شک ماں کے پیٹ میں ہو یا نو زا ئیدہ اس کے لیے ایسے قابلِ اعتماد افراد بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ بچہ اپنے ابتدائی تجربات میں صرف دو ہی صورتوں پر اپنا دھیان مرکوز رکھتا ہے اور وہ یہ کہ ماحول محفوظ ہے یا غیر محفوظ ہے۔ جو بچہ ابھی پیدا نہیں ہوا، اس کے لیے ماں کا پیٹ محفوظ یا غیر محفوظ ہوسکتا ہے۔مثال کے طور پر عورتوں سے نفرت کرنے والے سماج میں ماں کے پیٹ میں بچی محفوظ نہیں۔ نوزائیدہ کے لیے محفوظ یا غیر محفوظ ہونے کا تجربہ اس کی ماں کے پستان سے وابستہ ہے۔ ویسے بھی وہ بچہ جو اپنی نفسیاتی زندگی کا آغاز کر رہا ہو اس کے لیے ماں کا وجود محفوظ یا غیر محفوظ ہو نے کے احساس کا باعث بن سکتا ہے۔ محفوظ یا غیر محفوظ ہونا بظاہر ایک مبہم سا تصور معلوم ہو تا ہے مگر ہماری زندگیوں میں ان دونوں سے وابستہ احساسات یا تجربات نہایت بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا آنے والی زندگی پر اثر حتمی ہوتا ہے۔بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی مہینوں میں صرف دو ہی طرح کے احساسات یا تجربات کرتا ہے ، ایک یہ وہ محفوظ ہے اور دوسرا یہ کہ وہ غیر محفوظ ہے۔ محفوظ ہونے سے مراد یہ ہے کہ بچہ جسمانی طور پر دوسروں کی ایذارسانی سے محفوظ رہے ۔ یہ بھی کہ اس کی جسمانی ضروریات کو بروقت پورا کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے احساسات اور قدرتی صلاحیّتوں کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ ان پر اعتبار بھی کیا جائے۔ ایک ماہر نفسیات سلیوان (Sullivan) کہتا ہے کہ جو ماں اپنے بچے کو ایک محفوظ ماحول مہیا کرتی ہے وہ ’ اچھی ‘ ماں ہے۔جو ماں بچے کے ارد گرد غیر محفوظ ماحول بناتی ہے اوراس میں رہتے ہوئے بچہ گھبراہٹ اور بے قراری کاتجربہ کرتا ہو،تو ایسی ماں ’ بری‘ ماں ہو تی ہے۔ بچہ اپنی ماں کی موجودگی میں جس قدر سکون اور نرمی کا برتاؤ محسوس کرے گا اسی قدر ماں ’ اچھی‘ ہو گی اور جس قدر ماں گھبراہٹ اور بے قراری کا باعث بنے گی اسی قدر وہ ’ بری ‘ ماں شمار کی جائے گی۔ یہاں اچھا یا برا کہنے کا مطلب کوئی اخلاقی محاکمہ جاری کرنا نہیں بلکہ بچے کے نقطہ ء نظر سے اس کی ضروریات کو زوردار طریقے سے پیش کرنا ہے۔ واضح رہے کہ بچہ اپنی ابتدائی زندگی میں جہاں اپنی زندگی کومحفوظ یا غیر محفوظ ، دو معانی میں دیکھتا ہے اسی طرح وہ زندگی کو کسی پیچیدگی سے قطع نظر دو پہلووؤں کے تناظر میں دیکھتا ہے، اگر محفوظ ہے تو وہ فرد یا جگہ اچھی ورنہ برُی ۔
بچے کی بہبود یہی ہے کہ اس کی نشوونما اچھے طریقے سے ہو۔ اس میں صرف وہی لوگ اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں جو بچے میں اپنا اعتماد پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد بچے کے لیے محفوظ ماحول پیدا کرنے ، بچے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے اور اس کے جذبات کا احترام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ضروریات کو پورا کرنے میں سب سے اہم بات ضروریات کو محض پورا کرنا نہیں بلکہ اس کو بر وقت پورا کرنا ضروری ہے۔ بچے بڑے زور شور سے اپنی ضروریات کے پورا نہ ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔ انھیں جب بھوک لگتی ہے تو وہ روتے ہیں۔ اگر ان کو انسانی جسم کے لمس کی ضرورت ہے تو وہ کلبلائیں گے۔ بچے ایسا اس وقت تک کرتے رہتے ہیں جب تک کہ ان کی ضروریات پوری نہ ہو جائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب بچہ ایسا کر رہا ہو تو اس وقت اس کے پاس کو ئی با اعتماد فرد کاموجود ہونا ضروری ہے جو اس کے ان اشاروں کو سمجھ سکے اور پھر پوری کوشش کر کے ان ضروریات کو پورا کر سکے۔
بچے کی کونسی ضروریات کو ترجیحی طور پر پورا کرنا ہے اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ بچہ اپنی نشوونما کے حوالے سے کس درجے پر ہے۔ ایک امریکی نفسیات دان میسلو(Maslow)کے نزدیک صحت مندنفسیاتی نشوونما کے لیے پانچ ضروریات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ انھی ضروریات کو پورا کرنا زندگی میں ایک بڑے محرک کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی محرک کی بنیاد پر ہمارے رویے یا کردار کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بچے ہو ں یا بڑے ، سب کے لیے یکساں طور پردرست ہے۔ میسلو نے ان ضروریات کو ایک ترتیب میں رکھا ہے اور یہ ترتیب نسبتاًکم ضروری سے نہایت ضروری کی طرف جاتی ہیں۔ اس ترتیب میں سب سے اہم جسمانی ضروریات ہیں۔ اس کے بعد تحفظ کی باری آتی ہے۔ تحفظ کی ضروریات پوری ہو جائیں تو پھر دوسروں کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی باری آتی ہے۔ اس کے بعد تعریف و توصیف کے تقاضے آتے ہیں۔ سب سے آخر میں خود افروزی (self-realization) آتی ہے۔ میسلو کا خیال ہے کہ جب ادنیٰ سطح پر آنے والی ضرورت پوری ہو جائے توخود بخود اس کے بعد آنے والی اعلیٰ ضرورت کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر چہ انسانی نفسیاتی نشوونما ضروریات کی اس ترتیب سے مشروط نہیں تاہم غیر محسوس طور پر یہ ترتیب بہر نوع نشوونما میں موجود رہتی ہے۔ چھوٹے بچے کے لیے اس کی جسمانی ضروریات لازمی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان ضروریات کو پورا کیے بغیر اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں۔ کھانا پینا،آرام اور گرمائش سب ضروری ہیں مگر یہ ماں کے ساتھ وابستگی کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر بچے کو یہ ضروریات تشفی بخش طور پر میسر آجائیں تو بچے میں لازمی طور پر اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے کا بنیادی احساس پیدا ہو جاتا ہے۔
جو شخص بچے کی واجب ضروریات کو بر وقت پورا کرتا ہے وہی بچے میں اپنا اعتماد پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بظاہر بچے کی جسمانی ضروریات کا تعلق اس کے محفوظ ہونے سے کسی طور منسلک نظر نہیں آتا، تاہم یہ دونوں باتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ جب بچے کی جسمانی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں تو اس وقت اسے تحفظ کا بالواسطہ احساس شروع ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ جب بچے کی جسمانی ضروریات پوری نہیں ہورہی ہوتیں تو اس محرومی کا جو احساس اسے ہوتا ہے اس کا بالغوں کو ہونے والے احساس سے قطعی مختلف ہو تا ہے۔ جب بچہ بھوکا ہو تا ہے تو اس وقت اس کا پورا وجودمکمل طور پر اس تگ ودو میں ہو تا ہے کہ اسے کسی طرح کھانا مل جائے۔ اس وقت اس کا پورا جسم بھوک کی وجہ سے تکلیف سہ رہا ہوتا ہے۔ وہ انتظار نہیں کر سکتا۔ جب اس کی ضروریات کی فراہمی میں دیر ہو رہی ہوتی ہے تو اس کی پوری زندگی داؤ پر لگی محسوس ہوتی ہے۔ اسی لیے میسلو کہتا ہے کہ بھوک ، بچے کا ہی دوسرا نام ہیں۔ شیر خوار بھی اپنی بے خبری کے باوجود کھانے اور پیاس کا اعلان کرنا جانتا ہے۔ اسے کھانا دینے کا وہی وقت مناسب ہو تا ہے جب وہ بھوکا ہونے کا اشارہ دیتا ہے۔ اگر اسے وقت سے پہلے یا انتظار کے بعد کھانا دیا جائے تو وہ فوراًسمجھ جاتا ہے کہ وہ کسی کے رحم و کرم پر جی رہا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے لیے کسی دوسرے کا محتاج ہے۔ اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اس کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بچے کے لیے کھانے کا مل جانا محض بھوک مٹانا نہیں بلکہ اس کا مطلب ماں کا جسمانی لمس حاصل کرنا بھی ہے۔ ماں کی ’اچھی‘ چھاتیاں بھوک تومٹاتی ہی ہیں،ساتھ ہی ماں سے قربت اور پیار کی پیاس بھی بجھاتی ہیں۔ جسمانی لمس بچے کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جیسے پودے کے لیے سورج کی روشنی اور پانی کی اہمیت ہوتی ہے۔ بچے کی جلدکو اگر ماں کے پیٹ میں خوش کن احساسات ملے ہوں تو وہ چاہتا ہے کہ پیدائش کے بعد بھی یہ احساسات ملتے رہیں۔ ایسا لمس ، جسمانی تحفظ اور نفسیاتی سکھ کو دائمی بناتا ہے۔ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ایسے تجربات سے ہی بچے کو اپنے جسم کا ادراک ہوتا ہے۔ ایلیتھا سولٹر (Aletha Solter) کا کہنا ہے کہ دوسروں کا لمس بچے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی کی بدولت اس میں اپنی زیست یا اپنے ہونے کا احساس پنپتا ہے۔ ہر بچے میں دوسروں کے جسمانی لمس کا احساس انفرادی اور ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس لمس میں بڑوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر حاضر ہوں۔ واضح رہے کہ جب بچہ ماں کا دودھ پی رہا ہوتا ہے تو اس وقت یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ ایسا دودھ کی بوتل سے ممکن نہیں۔
زندگی کے ابتدائی سالوں میں بچے کے لیے ایک اور اہم ضرورت آرام کرنا ہے۔ آرام کا مطلب سونا نہیں۔بچے کو آرام فراہم کرنے کا اصل مطلب اسے ایسے محرکات یا لمس فراہم کرنا ہے جن سے اس کی ذہنی صلاحیتوں کو سکون ملے۔ بچہ کی ذہنی صلاحیتیں ہر قسم کے لمس یا تحریک کو سمجھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ اگر ان کو ضر ورت سے زیادہ تحریک دی جائے تو بچہ گھبراہٹ اور تذبذب کا شکار ہو جائے گااور وہ ایسی تحریکات سے لاتعلق رہنے میں عافیت سمجھے گا۔ بچے میں آرام و سکون اور نیند کا ایک آہنگ ہوتا ہے اور اس آہنگ کی بدولت اسے اپنی جان پر بھروسہ پیدا ہوتا ہے۔ آرام و سکون سے یہاں ہر گز مطلب نہیں لینا چاہیے کہ بچے کو ہر وقت بستر پر لٹائے رکھنا چاہیے۔ آرام و سکون کا مطلب دوسروں کی قربت ہے۔ بچے کے لیے ماں کی گود میں ملنے والے سکون اور آرام سے زیادہ قربت کوئی نہیں ہو سکتی۔ اگر بچہ جھولے میں اکیلا لیٹا ہو تو وہ یہی محسوس کرتا ہے کہ اسے اس کے حال پر تنہا چھوڑ دیا گیا ہے اور اسے اس صورتحال میں اپنے کسی شفیق بڑے کے بغیر ہی گزارہ کرنا ہو گا۔ یعنی یہ کہ وہ جب چاہے ، سو سکتا ہے۔ جھولا ایسی جگہ نہیں کہ جب بچے سے جان چھڑانی ہو، اسے اس میں ڈال دیا جائے۔ مغربی ممالک اور اب ہمارے ہاں بھی ، بچے کی پیدائش سے پہلے بچے کا کمرا سجایا جاتا ہے۔ اس کمرے کو سجانے میں بڑا جوش اور ولولہ دکھایا جاتا ہے۔ اس طرح کے بندوبست کو بچے کو اس کے پیاروں سے بیگانہ کرنے کی طرف ایک قدم سمجھنا چاہیے۔ عام طو ر پراسے ایک نارمل عمل سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ عمل ایک ذہنی مرض کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب اکثریت اس قسم کے مرض میں مبتلا ہو جائے تو مرض ’ نارمل ‘ بن جاتا ہے۔ اس قسم کے بندوبست کے پیچھے یہ بات چھپی ہوتی ہے کہ بچے کو کسی قسم کے خلل کے بغیر بڑے آرام سے اپنے پنگوڑے میں دن رات بسر کرنے چاہییں۔ بچے کی فطری ضروریات کیا ہیں اس کے بارے میں غور نہیں کیا جاتا۔ سولٹر کہتی ہیں کہ بچے ایسے سازوسامان کے بغیر زیادہ سکھی رہتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ حیوانات کی دنیا میں، رات میں بچے اپنی ماؤں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ بچے کی فطری خواہش یہ نہیں کہ وہ تنہا رہے۔ اس خواہش کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں عجیب و غریب دلائل دیے جاتے ہیں۔
لائیڈلوف(Liedloff) کا کہنا ہے کہ انسانوں میں پیدائشی طور پر یہ صلاحیت ہو تی ہے کہ وہی چیز منتخب کریں جو ان کے لیے مناسب ہوتی ہے۔ یہ بات انسان نے اپنے لاکھوں سالوں کے ارتقا کے نتیجے میں سیکھی ہے ۔ انسان ہونے یا انسان کا بچہ ہونے کے ناطے یہ گن ناگزیر طور پر بچوں میں آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو کوئی بات ایک بچے کے لیے مناسب ہے وہ اس کے خاندان، اس کے قبیلے، اس کی نسل اور یہاں تک کہ پوری انسانیت اور فطرت کے لیے موزوں ہو گی۔ لائیڈلوف اس خیال کو تسلسل کا نظریہ (Continuum Theory) قرار دیتی ہیں۔ انسانوں نے فطرت کے ایک مخصوص آہنگ میں اپنے ارتقا کی منزلیں طے کیں ۔ اسی ماحول اور اس کی انسانی فطرت کے ساتھ تال میل کے باعث انسان کے اندرفطری ممکنات ودیعت ہوئے۔ کلچر اور بالخصوص تحکمانہ نظاموں نے اس فطرت کو انسانی تجربات کی زمانی تہوں میں بہت نیچے دفن کردیا ہے۔ اب جو کچھ قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے وہی نارمل ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ فطری بھی ہو۔ اینا فرائیڈ (Anna Freud)نے 1965 میں کہا تھا کہ بچے کو اپنی حیاتیاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے حقیقی والدین کی مسلسل موجودگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بات کو موجودہ ثقافت میں نظر انداز کیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ بچے کو تنہائی میں چھوڑ دینا اور اسے اکیلے سونے کی عادت ڈالنا صحت مندانہ مشق ہے۔ یہ سراسر غلطی ہے ۔
یہ بات پہلے بھی کہی گئی ہے کہ بچے کو جسمانی ضروریات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں عافیت کا احساس پیدا کرنے کے لیے ضروری ماحول برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے۔ بچہ سلامتی کے احساس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسے ہر صورت میں یہ احساس رہنا چاہیے کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور یہ کہ وہ بس اپنے ہونے کی موج میں چین سے رہے۔ اگر ایسا بندوبست برقرار رکھنے میں کامیابی ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو ایک محفوظ دنیا میں محسوس کرتا ہے۔ ایسی دنیا میں وہ اپنی دریافت کی فطری جستجو شروع کر سکتا ہے۔ اپنی اسی دریافت کے سلسلے میں بچے اپنے والدین سے دور بھی جا سکتے ہیں ۔ ایسی دوری ان کے اپنے والدین پر بھروسے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس عمر میں بچے اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ انسیت کا تعلق پیدا کرنے کی خواہش انھیں ایسا کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ اس کے بعد بچوں میں اپنی شناحت کی قبولیت اور دوسروں کی توصیف کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ تعلق بنانے میں ان دونوں کا کردار مرکزی ہوتا ہے۔ چھوٹے بچے اپنی صلاحیتوں کے سماجی اعتراف کی ضرورت پر بہت حساس ہو تے ہیں کیونکہ یہیں سے ان کی ذات کی آزادانہ حیثیت کا آغاز ہو تا ہے۔ یہ احساس ان کے لیے پر لطف ہو تا ہے۔ بچوں کی خواہش ہو تی ہے کہ جو بھی کریں اسے کسی تعلیمی یا اخلاقی معیار سے قطع نظر صرف ان کی کاوش کے طور پر دیکھا جائے اور اس کی توصیف کی جائے۔ اسی بنیاد پر آگے چلتے ہوئے بلوغت تک پہنچتے ہی بچے کو اپنی تکمیلِ ذات(Self-actualization) کی ہوتی ہے۔ تکمیلِ ذات کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ بچے نے سماجی طو ر پر کو ئی مقام حاصل کر لینا ہے جو دوسروں کی آنکھوں میں رشک پیدا کر دے۔ تکمیلِ ذات کا مطلب یہ ہے کہ بچہ اپنی فطری صلاحییتوں کی ایک محفوظ اور پر اعتماد ماحول میں پرورش کر سکے۔ ایسی عافیت کا احساس ایک ایسی زندگی کی طرف لے جائے گا جو ایک بااعتماد اور امن پسند زندگی کے نیچے بہتارہے گا۔ واضح رہے کہ عام طور پر تکمیل ذات یا زندگی میں کچھ کر گزرنے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی نے کس قدر روپیہ کمایا، اس نے کس قدر آسائش اور نمود کی زندگی گزاری۔ اس کا بالفاظِ دیگر یہ مطلب ہے کہ آپ نے کتنی اور کس نوعیت کی چیزیں استعمال کیں۔ کیونکہ امارت کوئی غیر مرئی شئے نہیں۔ امارت اور اسی طرح سادگی کو ثابت کرنے کے لیے چیزوں کو ہی وسیلے کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔ دوسری طرف اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے دوسروں کو اپنے رعب میں لانے کے لیے کس طرح کا عہدہ حاصل کیا اور تیسری بات یہ کہ آپ نے کس قدر ریاستی یا سماجی وسائل کو استعمال کیا کیونکہ امارت کا جلدی حصول ان دونوں کے بغیر شاید ہی ممکن ہو تا ہے۔ ان تمام رجحانات کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بچپن میں پرورش ایک محفوظ اور پرُ اعتماد ماحول میں نہیں ہوئی۔ آ پ کی ذات کے بہت اندر جو عدم تحفظ جی رہا ہے وہ آپ کو کچھ ثابت کرنے پر اکساتا ہے اور آپ اس عدم تحفظ کے بھنور میں گھومنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ دنیا کو ترک کردیں اور کسی گوشے میں بیٹھ انسانوں سے دور ہونے کی تلقین شروع کر دیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ زندگی میں آسانیاں ضرور حاصل کریں مگر ان کا حصول آپ کے لیے کچھ ثابت کرنے کا مسئلہ نہیں بن جانا چاہیے۔ آپ کی زیست کا اختیار آپ کے اپنے پاس ہونا چاہیے نہ کہ لوگوں کے پاس کہ جن کو آپ متائثر کرنا چاہتے ہیں۔ چیزوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی خوشیوں کو پانے کے لیے اپنی مرضی کا کام یا اپنی صلاحیتوّں کی پرورش کرنے کا لطف اٹھانا چاہیے۔
بچہ اپنی جسمانی نمو کے تناظر میں صرف وہی کا م کر سکتا ہے جب وہ اور اس کا جسمانی نظام اس کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اس معاملے کی وضاحت ٹوائلٹ کی تربیت سے کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بچے کے ابتدائی مہینوں میں ٹوائلٹ کی تربیت کر دینی چاہیے تاکہ وہ جب چاہے، کسی کی مدد کے بغیر پیشاپ یا پاخانہ کر سکے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تہذیب کے ابتدائی دور میں مختلف ثقافتوں میں اس قسم کی تربیت نہیں کی جاتی تھی۔ اگر اب ٹوائلٹ کی تربیت کی بات کی جاتی ہے تو اس کی غالب وجہ ہمارے گھروں یارہائش کا مخصوص اندازاور کپڑوں کا مخصوص ڈیزائن ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کی ٹوائلٹ تربیت کب کی جائے؟ یہ سوال اس شعبے کے ماہرین سے پوچھا جاتا ہے مگر بچوں سے نہیں پوچھا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچوں کی ٹوائلٹ تربیت اس وقت شروع کر دی جاتی ہے جب ان کے جسم اس کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسا کرنے سے بچہ یہی نتیجہ نکالتا ہے کہ اس کو چھوٹا سمجھنے کی بجائے ، اسے اس کے والدین یا بڑے بہن بھائیوں کے برابر سمجھا جارہا ہے۔ ٹوائلٹ کی تربیت میں بنیادی معاملہ کسی کی مرضی نہیں بلکہ بچے کی جسمانی اور نفسیاتی صورتحال ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ بچے کا بلیڈر اور اس کے پٹھے کس حد تک اس تربیت کے لیے تیار ہیں۔ یہ بھی کہ کیابچہ اپنے جسم کے افعال کا خود خیال رکھ سکتا ہے۔ سولٹر نے نتیجہ نکالا کہ اس تربیت میں بنیادی بات جو والدین کو سمجھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ آپ بچے کو ٹوائلٹ کو استعمال کرنے کے بارے میں سمجھا دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ یہ سب کیسے کرنا ہے اور اس کے بعد یہ معاملہ اس پر چھوڑ دیں۔ اس تربیت کو ایک لازمی فرض بنانے اور اسے اس سلسلے میں دباؤ میں رکھنے کی بجائے بڑی متانت سے اس کی صرف حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ بچہ صرف ا سی وقت کسی قاعدے یا اصول کی بنیا د پر اپنا رویہ یا کردار تبدیل کر سکتا ہے جب وہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر ایسا کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے۔ بالبی کا خیال ہے کہ بچہ کسی بھی صورتحال یا معاملے میں اپنا داخلی آہنگ قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب وہ ایسا آہنگ حاصل کر لے تو وہ اپنی خواہشات اور ضروریات اپنے ارد گرد لوگوں کو بتا سکتا ہے۔
بچہ جس فرد کے ساتھ اپنا لگاؤ قائم کرتا ہے ، اس کے ساتھ ایک صحتمند لگاؤ کی تمنا رکھتا ہے۔ ایسا لگاؤ صرف اس وقت ممکن ہے جب ایسا فرد بچے کے ہر طرح کے احساسات کا احترام کرے۔ وہ بچے کے احساسات اور جذبوں پر تحکمانہ، مثبت یا منفی اخلاقی محاکمہ نہ دیتا رہے۔ ہماری آراء اور نقطہ ہائے نظر عام طورپر اخلاقی ضابطوں سے مغلوب رہتے ہیں۔ اس تناظر میں ہم جذبوں اور احساسات کو دو حصوں یعنی اچھے یا برے گوشوں میں تقسیم کر دیتے ہیں: پیار کا جذبہ، درگزر، قناعت اور اس سے ملتے جلتے احساسات اور جذبوں کو مثبت گردانا جاتا ہے۔ نفرت، حسد، رشک، غصے وغیرہ کو منفی جذبوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ہم جب ایسا کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل ہم احساسات یا جذبوں کی نہیں بلکہ اخلاقیات یا اخلاقی معیاروں کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ ’ مثبت ‘جذبوں کے اظہارسے دوسروں پر خوشگوار اثر ہو تا ہے او ر ’ منفی ‘ جذبوں کے اظہار سے غیر خوشگوار اثر ہوتا ہے۔ حالانکہ احساسات اور جذبات اچھے ہو تے ہیں اور نہ ہی برے ہو تے ہیں۔ وہ بس ہوتے ہیں اور ان کو ظاہر کرنا پڑتا ہے۔ احساسات اور جذبات کو کسی اخلاقی سانچے یا حدود میں قید کرنا ممکن نہیں۔کوئی کیسے محسوس کرتا ہے ، یہ محسوس کرنے والے فردپر منحصر ہے اور ان احساسات کو کس طرح اور کس انداز میں ظاہر کرنا اس کی آزادی ہے۔ عام طور پر بچوں کو اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ حسد، نفرت یا ناپسندیدگی ایسے جذبات ہیں جو ہر بچہ اپنے ارد گرد لوگوں کے بارے میں محسوس کرتا ہے۔ یہ قدرتی عمل ہے اور ان ا حساسات و جذبات کے وسیلے سے بچہ اپنی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے یا ان کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے۔ جو چیز یا فرد اسے لبھائے گا وہ اس کو پیار کرے گا ۔ جو چیز یا فرد اسے نہیں لبھائیں گے وہ انھیں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے گا۔ اگر اس کی جماعت میں کوئی ہم جماعت اس سے بہتر کھانا لائے گا تو وہ رشک یا حسد محسوس کرے گا۔ بعض اوقات وہ ان جذبات کو سمجھ نہیں پاتا تو وہ تشکیک یا بے قراری میں مبتلا ہو جائے گا۔ بلوغت کے بعد خاص طور پر ایسی صورتحال ضرور درپیش ہو جاتی ہیں۔ اگر بچے کو اس کی ذات میں بہنے والے احساسات یاجذبات کے ہو بہو اظہار کو روک کر اسے مخصوص اخلاقی پیمانوں میں گم کردیا جائے تو اس عمل کے دوران بچہ ایک طرف اپنے اندر سے پھوٹنے والے احساسات یاجذبات پر اعتبار کرنا چھوڑ دیتا ہے تو دوسری جانب ایک سماجی مکھوٹہ پہن لیتا ہے جو اس کے احساسات یاجذبات کا حقیقی نمائندہ نہیں ہوتا۔ اس طرح اس کا اپنی دنیا کے ساتھ ایک جعلی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ ایسا تعلق ایک جعلی زندگی کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ اس میں ہر کام کرنے سے پہلے یہ سوچا جا تا ہے کہ کیا ایسا کرنا طے شدہ اخلاقی ضابطے کے حساب سے مناسب ہو گا یا نہیں ۔اس صورتحال کا اظہار عام طور پر یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ ’ لوگ کیا کہیں گے؟‘۔ جس طرح اپنے احساسات یاجذبات کے سچے یا جھوٹے ہونے کی تصدیق اس فرد کے ارد گرد موجود لوگوں سے ہو تی ہے اسی طرح اس کا ہر فعل اس کی ذاتی پسند یا خوشی سے قطع نظر اس کے باہر کسی قوّت کے پاس چلا جاتا ہے۔ ا یسے لوگ کسی بھی خارجی ترغیب کے بہترین شکار بن سکتے ہیں کیونکہ ان میں ذاتی پسند، ناپسند یا ناقدانہ نقطہ ء نظر کا فقدان ہوتا ہے۔ جب احساسات یاجذبات کو اپنی حقیقی صورت میں ظاہر ہونے سے روک دیا جائے گا توبچے میں منفی رجحانات نمو حاصل کر لیں گے۔مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ اپنے ہم جماعت کی امارت کی وجہ سے اس سے حسد کرتا ہے اور وہ اس جذبے کو ظاہر نہیں کرسکتا تو وہ حسد کے جذبے کو تشدد کی صورت میں ظاہر کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ وہ اس کی گاڑی کے دروازے پر لوہے کی کسی چیز سے لکیر لگا دے۔ امیر لڑکے کے کپڑوں پر کیچڑ پھینک دے یا اس کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں گھڑ لے گا۔ اجتماعی سطح پر تشدد کی اساس یہیں کہیں ہے۔
انعام اور سزا سے متعلق معاملات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ تاہم یہاں یہ بات کہنی ضروری ہے کہ احساسات یاجذبات کو سزا نہیں دینی چاہیے۔ احساسات یاجذبات دراصل آپ کے بہت داخلی بلکہ نہایت نجّی تجربات کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا تجربہ اور اس کااظہار اچھا یا برا نہیں ہو سکتا۔ اگر احساسات یاجذبات پیدا ہوں گے تو ان کو ظاہر کر دینے سے ہی تشفی ہو گی۔ جب ایسا ممکن نہ ہو گا تو پھر ایسی صورتحال میں تخریب ، بیگانگی اور جعلی معاشرہ پیدا ہو گا۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ بچے کے احساسات یاجذبات کا احترام سرسری بات نہیں بلکہ ایک صحتمند فرد اور پھر ایک صحتمند معاشرہ بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔
جو فرد بچے کے ساتھ لگاؤ کا دعویدار ہے اس کے لیے ضروری کہ وہ نہ صرف بچے کے احساسات یاجذبات کی شناخت اور احترام کرنا جانتا ہو بلکہ یہ بھی کہ وہ خود بھی اپنے احساسات یاجذبات کی شناخت رکھتا ہو اور اسے ان پر پیہم بھروسہ بھی ہو۔ وہ بچے کے ساتھ اس تعلق میں مستقل مزاج رہے۔ صرف ایسا فرد ہی بچے کے احساسات یاجذبات پر پوری حسّاسیت کے ساتھ اپنا ردِعمل دے سکتا ہے۔ یہ محض یک طرفہ مجہول قسم کا واسطہ نہیں بلکہ بنیادی طور ایک فعال اورموئثر ردعمل ہے جو بچے کی ضرورت کے تحت متحرک ہو تا ہے۔ ایسے فرد کی وساطت سے وہ بچہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھے گا۔ بالبی کہتا ہے کہ ایک محفوظ بچہ یہ بات سیکھ جاتا ہے کہ وہ اپنے والدین پر اعتبار کر سکتا ہے۔ جب اسے ضرورت ہو گی ،وہ اس کے پاس موجود ہو ں گے اور یہ بھی کہ وہ لازمی طور پر اس کی پریشانی یا گھبراہٹ میں اس کا ساتھ دیں گے۔ بعض اوقات بچے اپنے اندر ہونے والی جذباتی تبدیلیوں کو سمجھ نہیں پاتے اور وہ کسی بھی صورتحال میں ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کر دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بچے تشدد آمیز بھی ہو جاتے ہیں۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں مستقل مزاجی سے کام لیں اور بچوں کے ان پر اعتماد کو زخمی نہ ہونے دیں ۔ مستقل مزاجی کے ایسے مظاہرے سے بچہ ایک طرف تو یہ سیکھتا ہے کہ اس کے جذبات و احساسات جیسے بھی ہوں، ان کی اہمیت ہے۔ دوسری جانب یہ بھی سیکھتا ہے کہ جس طرح اس کے والدین برداشت اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اسی طرح اسے بھی اپنے جذبات و احساسات کو اپنی دسترس میں رکھنا ہو گا۔ ہموار مزاج رکھنے والے والدین بچے کے جذبات و احساسات کے اتار چڑھاؤ سے گھبراتے نہیں کیونکہ انھیں اپنے جذبات و احساسات پر یقین ہوتا ہے۔
بچپن کے تجربات آنے والی زندگی پر فیصلہ کن اثرات کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے حال میں ہمارا ماضی موجود ہوتا ہے،جو ہمارے مستقبل کو معین کرتا ہے۔ بالغ ہو جانے کے بعد بھی بچپن کے تجربات بدستور ہمارے کردار میں بہتے رہتے ہیں بلکہ وہ رویوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ آج زندگی، لوگوں اور ارد گرد کی دنیا کے بارے میں ہمارے نظریات اور عمل کسی نہ کسی صورت ہمارے ماضی کے اور بالخصوص بچپن کے تجربات میں پیوست ہیں اور اسی کے سائے میں معانی پاتے ہیں۔ یعنی ہماری زندگی دراصل بچپن کے تجربات کی
لا شعوری تکرار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اپنے ر وزمرہ کے معمولات میں کسی دوسرے پر اعتماد نہیں کرتا ۔ ایسے شخص کے بچپن میں لازمی طور پر اسے غیر محفوظ ماحول ملا۔ اس کی فطری صلاحییتوں کا اعتراف نہ کیا گیا۔ اس نے جن فکری اور نظریاتی اسلوب کو اپنی زندگی کی اساس بنایا وہ سب جعلی تھے۔ ان کا تعلق سماجی تکلف اور رسوم سے تو تھا مگر اس کی ذات کی اصلیت سے ہر گز نہ تھا۔
ہمارے اندر ایک بچہ تھا ۔ اس بچے میں زندگی میں ممکنات تلاش کرنے کی فطری صلاحیتیں تھیں ۔ اس میں جذبات کا ایک دریا بہہ رہا تھا۔ بچپن کے تجربات نے اس بچے کو زخم خوردہ کر دیا۔ یہ سب اس کے اپنوں نے کیا۔ اس کی صلاحیتوں کو محدود کر کے اسے ایک ترکیب کا محتاج بنا دیا گیا۔ یہی زخم خوردہ بچہ ہمارے اندر موجود ہے اور اس کی آہیں آج بھی موجود ہیں مگر ہمارے پاس انھیں سننے کی ہمت نہیں اور وقت بھی نہیں۔ہوسکتا ہے کہ فطری بچے کی شبہیہ بھی باقی ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ ان دونوں کی شناخت کی جائے۔ اگر آپ اندھی تقلید کی بجائے اپنے آپ پر بھر وسہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، اگر آپ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت کر سکتے ہیں، اگر اردگرد رونما ہونے والے واقعات اور کیفیات پر متجسس ہوتے ہیں، اگر آپ میں اپنی خوشی کے لیے کوئی بھی کام کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔ ۔۔۔۔ اگر آپ دوسروں اور خود اپنے لیے خوش مزاج ہیں اور آپ دوسروں اور خود اپنے لیے خوش مزاج ہیں اور آپ لوگوں اور خود اپنے آپ کو حساسیت سے لیتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ میں ایک ’اچھا‘ بچہ موجود ہے۔ اس کے بر عکس اگر آپ میں اپنے آپ کو دوسروں سے ہیچ اور کمتر سمجھنے کا احساس موجود ہے ، اگر آپ میں کچھ غلط کیے بغیر بھی خلش یا گناہگار ہونے کا احساس رہتا ہے، اگر آپ اپنے آپ سے شر مندہ سے رہتے ہیں یا اپنے آپ کو دکھی یا غم زدہ محسوس کرتے ہیںیا غیر محفوظ تصور کرتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ میں ایک بچہ موجود ہے جو زخم خوردہ ہے اور اسے اچھی طرح پہچان کر اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بچہ آپ کو اپنے اندر سمٹنے یا دوسروں کے سائے میں عافیت تلاش کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ سب بڑی خاموشی سے اند رہی اندربہتا رہتا ہے اور آپ کو اس بچے کے اپنے اندر ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ان د ونوں بچوں کی شناخت نہ کی جائے تو یہ اپنی شناخت کے قضیے کو سرے سے بھول کر اپنی زیست میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اس طر ح ایک جعلی ذات کی تخلیق کر کے اس کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ اسی ذات کے پیچھے ان کے دکھ اور زخم بھی چھپ جاتے ہیں۔
اپنے اندر چھپے بچوں کی بازیاب کا مقصد اپنے والدین یا قریبی رشتہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا نہیں۔ انھوں نے جو کچھ کیا ، اس کے اثرات کا انھیں اندازہ نہ تھا۔ اگران دونوں بچوں کو بازیاب کر لیا جائے تو اس بات کی تشخیص ہو سکتی کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کی وجہ سے ایسے نا پسندیدہ حالات پیدا ہوئے۔ اگر ہم اپنے اندر موجود بچے کے ساتھ ایک تعلق بنا لیں اور پھر اس تعلق کو برقرار بھی رکھیں توہمارا اپنے اندر موجود بچے کے ساتھ ایک پر اعتماد واسطہ بنا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی جعلی ذات کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہم مسلسل اپنے بچپن کے تجربات سے جڑے رہتے ہیں۔ ہمیں کچھ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں رہتی کیوں کہ ہمارے بچپن کے تجربات میں کوئی بات یا تجربہ ایسا نہیں ہوتا جو نا قا بلِ برداشت ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی بچپن میں تکلیف دہ حالات سے گزرتا ہے۔ محض واقعات منفی اثرات پیدا نہیں کرتے۔ اصل بات یہ ہے کہ بچے کس طرح ان واقعات کو برداشت کرتے ہیں ۔ اکثر ایسے حالات میں والدین کا کردار ایسا ہوتا ہے کہ جس سے ناامیدی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس طرح ناپسندیدہ تجربات نا قا بلِ
بر داشت زخموں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
بچے کے اپنی صلاحیتوں کے سراغ اورانھیں مکمل تحریک دینے میں کسی قابلِ اعتبار شخص کی موجودگی کا بڑا حصہ ہو تا ہے۔ قابلِ اعتبار شخص محض بچے کو اعتماد ہی مہیا نہیں کرتا وہ اسے اپنی تلاش کے سفر میں ایک ہم سفر بن کر اسے ممکنات کی دریافت میں مدد کرتا ہے۔ بچہ اسی شخص پر اعتبار کی وساطت سے اپنے آپ پر اعتبار سیکھتا ہے ۔ ایسا اعتبار اسے ایک داخلی آزادی عطا کرتا ہے اور پھر وہ کسی خارجی اثر سے آزاد کسی بھی قسم کے تعلق کو سنوارنے سے نہیں گھبراتا۔ اس کے اندر کسی قسم کا تضاد نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو کسی نظام کے ساتھ باندھ کر خوش رہتا ہے۔ اس میں کھلا پن ہوتا ہے اور وہ کسی وسیلے کی پرواہ کیے بغیر نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے احساسات کو بھی فوری طور پر محسوس کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتا ہے۔ اسے کسی مکھوٹے یا سہارے کی ضرورت نہیں رہتی وہ اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے اسی روپ میں پیش کرتا ہے جیسا کہ وہ خود ہوتا ہے۔ یہیں سے ایک حقیقی اور انسان دوست معاشرے کی ابتدا ہو سکتی ہے۔
( یہ مضمون The misrecognised child in ourselves by Gaby Stroeckenسے لیے گئے خیالات پر مبنی ہے ۔ تاہم آسان بنانے کے لیے اس میں مثالیں شامل کر دی گئی ہیں۔)