کالمز

قدرتی وسائل سے مالامال گلگت بلتستان

گلگت بلتستان کا گورننس ارڈر 2018اب تک منظر عام پر نہیں آیا اس لئے اس پر قبل از وقت بحث کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے اسی ارڈر پر سوشل میڈیا میں آج کل جو باتیں ہورہی ہیں اس میں کتنی حقیقت ہے یہ تو اس ارڈر کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی پتہ چلے گااس حوالے سے حکومت کو بھی فوری طور پر گورننس ارڈر کو منظر عام پر لانے میں دیر نہیں کرنا چائیے چونکہ جتنا اس ارڈر کو سامنے لانے میں دیر ہوگی اتنا ہی عوام میں شہوک وشبہات بڑھتے جائے نگے جو کسی طرح بھی حکمران جماعت کے حق میں سودمند نہیں ہوگی اگر اس میں خامیاں ہیں بھی تو اس کو اپوزیشن اور حکمران جماعت ملکر دورکرسکتے ہیں حالانکہ خطے کو 2009میں بھی اس طرح کا ایک ارڈروفاق سے ملا تھااور پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کونہ صرف صوبائی سیٹ اپ دیا تھابلکہ علاقے کے عوام کے مطالبے پر خطے کا نام شمالی علاقہ جات سے تبدیل کرکے گلگت بلتستان رکھا تھاپی پی کی وفاقی حکومت کی طرف سے صو بائی سیٹ اپ دینے کے علاوہ عوامی خواہش پر اس علاقے کی پہچان (گلگت بلتستان) نام دیکر پوری دنیا میں اس خطے کو متعارف کرانے پر یہاں کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے خوشی اور دلی مسرت کا اظہار کیا تھاکہ اور کچھ نہ سہی علاقے کا نام تبدیل کرکے جو شناخت دی گئی ہے اس سے اس علاقے کی بھی دنیا میں ایک پہچان ہوگی گلگت بلتستان کو ایک صوبائی سیٹ اپ تو ملا تھااور یہاں کے عوام یہ توقع رکھتے تھے کہ اب گلگت بلتستان کے عوامی نمائندوں کوعلاقے کی تعمیرو ترقی کے اچھے مواقع میسر ہونگے چونکہ گلگت بلتستان کے پا س وسائل اتنے زیادہ نہیں تھے کہ یہ نوزائید ہ صوبہ چندہ سالوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔حکمرانوں نے وفاق سے اس نوزائیدہ صوبے کی تعمیر وترقی کے لیے کشکول لیکر اسلام آباد کی یاترا کرتے رہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے وفاق کی طرف سے آج تک صرف یقین دہانیوں کے علاوہ اور کچھ پیش رفت نظر نہیں آئی اور خطے کے عوام کو ہر وقت مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا صوبائی سیٹ اپ کو نو سال ہوگئے تاحال صوبے کے اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنے وسائل سے صوبائی حکومت کو چلا سکے گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو اپنے پا ؤں پر کھڑے ہونے کے لیے مناسب حکمت عملی طے کرنی ہوگی اگر گلگت بلتستان کے حکمران چاہے تو یہ علاقہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے گلگت بلتستان دنیا بھر میں آبی وقدرتی وسائل اور معدنیات سے مالامال خطہ ہے یہ وسائل قدرت کی طرف سے کسی ملک یا خطے کے حصے میں نہیں آئے قدرت نے آبی ذخائر اور قدرتی وسائل کا یہ نایاب ذخیرہ یہاں جمع کیا ہے اس لیے یہ خطہ دنیا کے تمام ممالک کا توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور دنیا کی نظریں یہاں پر لگی ہوئی ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان یہاں کے وسائل تک رسائی کے لیے دوڑودھوپ کا سلسلہ جاری ہے اب جبکہ گلگت بلتستان کے اس صوبائی سیٹ اپ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے مضبوط معیشت کی سخت ضرورت ہے تو ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ یہاں کے آبی ذخائر اورقدرتی وسائل کے تحفظ کا انتظام وانصرام کریں کیونکہ وفاق کے مختلف پیکیجزکے ذریعے دی ہوئی امداد ہمارے مستقبل کو نہیں سنوار سکتی ہمیں اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا ہوگا اور دوسروں سے بھیگ مانگنے کا یہ رویہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کرنا ہوگا کیونکہ ہمارے حکمران جب بھی کاسہ گدائی لیکر وفاق کے پاس جاتے ہیں تو خالی کشکول ہی لیکر ان کو واپس لوٹنا پڑتا ہے کیونکہ پاکستان کے حکمران آج خود بیرانی ممالک اور عالمی بینکوں کی گود میں جاکر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہاں سے جو کچھ ملتا ہے وہ پاکستانی حکمران اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں پر اڑادیتے ہیں اور بچا کچھا رقم پاکستان کے آئین میں شامل صوبوں میں تقسیم کر کے اپنے ہاتھ صاف کر دیتے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو پھینکنے کے لیے گوشت تو درکنار ان کے پاس ہڈیاں بھی نہیں بچتی صوبائی حکومت کے پاس حکومتی امور چلانے،نئے منصوبوں اور تعمیرات پر لگانے اور تعلیم و صحت پر خرچ کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے علاقے میں تعمیر کئے جانے والے تعمیراتی کام جمود کا شکار ہیں حکومت اس سے بھی خطرناک معاشی صورتحال اور بحرانوں کا سامنا کریگی اور بد نصیب قوم ہمیشہ محرومی کی چکی پستی رہ جائیگی اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قدرتی وسائل ،معدنیات،اور آبی ذخائر کا صحیح معنوں میں تحفظ کر کے اس کومعیشت کی بہتری کے لیے بروئے کار لایا جائے اور ان کی تحفظ کے لیے اسمبلی کے اندر باقاعدہ قانون سازی کی جائے اور بیرونی سرمایہ کاروں سے باقاعدہ ایک قانون کے تحت لگان وصول کی جائے اور اس لگان کوسرکاری خزانے میں جمع کر کے اس سے خطے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے ایک منصوبہ بندی کی جائے اور اس علاقے کا میزانیہ یہاں کے قدرتی وسائل معدنیات سے جنریٹ کی جائے۔کیونکہ اس حسین سر زمین کے سینے میں بے شمار قیمتی معدنیات اور پتھر کے علاوہ سیسہ ،سونا ،کرومائیٹ ،گرینائیٹ ،گریفائیٹ ،اور یوریینم کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور آبی ذخائر سے بھی یہ خطہ کھچا کھچ بھرا ہوا ہے بلکہ بعض جگہوں پر تیل کے ذخائر بھی موجود ہونے کے انکشافات ہوئے ہیں لیکن ہماری عدم توجہی اور لاپرواہی کے باعث یہ خطہ ہمارے لیے شوریلی اور بنجر زمین بن کر رہ گئی ہے اگر ہم زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اول تعلیم اوردوئم ان قدرتی وسائل پر توجہ دے تو ہم معاشی بحرانوں پر باآسانی قابو پا سکیں گے اور اس کے لیے شعورواگاہی پیدا کر کے ان کا اعتماد بھی حاصل کرنا اشد ضروری ہے تاکہ یہ قدرتی وسائل گلگت بلتستان کے کسی بھی ضلع میں تحصیل یا گاؤں میں بھی ہو تو کوئی بھی شخص اس کو اپنی ذاتی ملکیت سے منسلک کرنے کا مجاز نہ ہو سکے اور اگر کسی کے ذاتی ملکیتی زمین میں بھی ایسے معدنیات یا قیمتی پتھر نکلتے ہیں تو اس شخص کو حکمت عملی سے اس طرح مطمئن کرایا جائے کہ وہ خود اس محروم اور پسماندہ خطے کے ترقی وخوشحالی کے لیے ان معدنیات کو بطور قربانی پیش کرنے کا اس میں جذبہ پیدا ہوسکے اس لیے ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان نایاب قدرتی وسائل کو چائینزاور امریکن کمپنیوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر سخت قانونی اقدامات کرے اور کسی بھی ملک کو صوبائی حکومت اور عوام کی اجازت کے بغیر ان قدرتی وسائل پر ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہ دی جائے کیونکہ ہمارا مستقبل ان قدرتی وسائل یعنی معدنیات کی طرف دیکھ رہا ہے اور یہ وسائل لوٹ مار کے شکار ہوگئے تو ہم دنیا میں کبھی بھی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکیں گے ہماری رینگتی ہوئی معیشت،بڑھتی ہوئی غربت،جوان ہوتی ہوئی جہالت،اور خراب صحت ہماری مقدر بن جائیگی اور ہم ان مسائل کا کبھی بھی تدارک نہیں کر سکیں گے بدقسمتی سے ہمارے حکمران اس خطے کی جغرافیائی اہمیت سے بابلد اور ناواقف ہیں اس لیے اس حسین سرزمین کے مختلف علاقے جہاں قدرتی وسائل،معدنیات،قیمتی پتھر،اور آبی ذخائر،وافر مقدار میں موجود ہیں پر بیرونی ممالک اور غیر ملکی کمپنیوں کی لوٹ مار کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور ان قدرتی وسائل کی تحفظ آج تک ہم نے نہیں کی اور جہاں بھی قدرتی معدنیات برآمد ہوئے ان کو ہم نے وفاقی حکومت کی تجوری میں ڈال کر سنگین قومی بے حسی کا مظاہرہ کیا اگر ان برآمد شدہ معدنیات کی سرمایہ کاری ہم کرتے تو آج ہماری رینگتی ہوئی معیشت میں جان آچکی ہوتی اور ہمارے حکمرانوں کو کشکول لیکر دیس بدیس پھرنے کی کبھی نوبت نہیں آتی پھر بھی وقت کا نبض ہمارے ہاتھوں سے نکلا ہوا نہیں ہوتا ہمیں ان قدرتی وسائل کی تحفظ کر ے اور ان کو بروئے کار لاکر قومی خود انحصاری پر مبنی ایک مضبوط معیشت کے لیے ٹھوس پالیساں واضح کرنی ہوگی۔اور اس ذریعے سے ہم اس نیم صوبائی سیٹ اپ اور اس خطے کی معیشت میں جان ڈالنی ہوگی اور مضبوط معیشت سے ہی ہم اس نوزائیدہ صوبائی سیٹ اپ کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں اس حوالے سے ہمارے اسلام آباد کے بڑوں سے دوٹوک بات کرنی ہوگی کہ وہ گلگت بلتستان سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی آمدنی گلگت بلتستان کے عوام کی تعمیر وترقی پر خرچ کریں اور دریائے سندھ کی ریالٹی میں گلگت بلتستان کا بھی حصہ رکھا جائے سی پیک میں دیگر صوبوں کے برابر گلگت بلتستان کو بھی اس کا برابر کا حصہ دیا جائے چونکہ سی پیک سے جتنا گلگت بلتستان متاثر ہوتا ہے اتنا کوئی اور صوبہ نہیں ہوتا ہمیں ہمارا حصہ مل گیا تو مالی بحران کا شکار اس نوزائیدہ صوبے کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم ہوسکے گا اگر وفاق نے گلگت بلتستان کو اس طرح نظر انداز کیاتو70 سالوں سے محرومی کا شکار عوام کی مایوسی مزید آگے بڑھ جائیگی۔اب بھی حکومت پاکستان کے پاس وقت ہے کہ خطے کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا جائز حق دوسرے صوبوں کی طرح اس صوبے کو بھی فراہم کریں تاکہ احساس محرومی شکار اس خط کے عوام بھی دیگر صوبوں کے برابر ترقی میدان میں اگے اسکے گلگت بلتستان سے سی پیک گزر رہا ہے اور اب سی پیک کو روس کے علاوہ وسطی اشیائی ریاستوں سے بھی لنک کرنے کی باتیں ہورہی ہے اگر ایسا ہوا تو ہم اپنے معدنیات سے ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button