علاقہ کندرک کے باسیوں کو انصاف کب ملے گا؟
تحریر :محمد حسن جمالی
ویسے تو پورا خطہ گلگت بلتستان ناانصافی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، ستر سال سے انصاف کی فراہمی کے لئے اس کے مکین فریاد کررہے ہیں، حکومت پاکستان سے انسانی بنيادی حقوق مانگ رہے ہیں، وہ اپنی بے پناہ قربانیوں کے صلے میں مال ودولت اور زمین واقتدار اعلی کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں وہ تو فقط یہی کہرہے ہیں کہ حکومت پاکستان رسمی طور پر ہمیں پاکستانی شہری تسلیم کرکے اس پر مہر تصدیق ثبت کرے، مگر زمینی حقائق اور حالات سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے مسائل حل کرنے کے بجائے آئے روز نت نئے مسائل میں خطہ بے آئیں کے باسیوں کو گرفتار کرتی جارہی ہے اور اس خطے پر پاکستانی حکمران جبر اور دباؤ کی سیاست کے زریعے بادشاہت کرتے جارہے ہیں، وہ طرح طرح کے بے شعور اور تربیت فکری سے تہی افراد کو اس خطے کے مکینوں پر مسلط کرکے انہیں حقوق کی محرومی کی اتھاہ گہرائی میں پہنچانے کے لیے بھر پور کردار ادا کررہے ہیں – جب بھی گلگت بلتستان کے عوام نے بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت وقت کی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی ان حکمرانوں کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے ان کے حکم سے سرمو اختلاف نہ کرسکتے والے در حقیقت غلام و لوٹے اور بظاہر گلگت بلتستان کے وزیر اعلی یا چیف و…. نے مذہبی اور لسانی تفرقے کو ہوا دے کر اسے ناکام بنانے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں آج تک یہ خوبصورت خطہ ہر طرح کی محرومی کے دلدل سے نکل نہیں سکا – اہلیان گلگت بلتستان یہ بات ہرگز فراموش نہ کریں کہ آپ حکومت پاکستان سے اپنے جائز حقوق بزور بازو لے سکتے ہیں بشرطیکہ آپ متحد ومتفق رہیں، جی بی کے ہر فرد اپنے وقتی، ذاتی وشخصی مفادات پر پورے خطے اور اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی ہمت اپنے اندر پیدا کرے- گلگت بلتستان کے باشعور افراد خواہ وہ جس شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں اور جہاں کہیں رہتے ہوں ایک دوسرے سے مربوط رہیں اور مذہبی ولسانی وعلاقائی اختلافات کو پاؤں تلے رکھتے ہوئے منظم ہوکر فکری اتحاد کے زیر سایہ جمع ہوکر اپنے خطے کے حقوق کی جنگ لڑیں نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پوری دلچسپی کے ساتھ گلگت بلتستان کے حالات پر کڑی نظر رکھ کر جہاں کہیں بھی ظلم وستم ہوتا دکھائی دے خواہ اس کی نوعیت جیسی ہو ظلم بڑا ہو یا چھوٹا، مظلوم واقع ہونے والے لوگ ہوں یا ایک فرد، شہر ہو یا علاقہ، ظلم کرنے والا ایوان اقتدار میں رہنا والا ہو یا عام گلی کوچے میں پھرنے والا باشعور طبقہ ظالم کی سرکوبی اور مظلوم کی حمایت کے لئے آواز بلند کرے، کیونکہ ظلم ظلم ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق فرد واحد سے ہو یا پوری قوم سے اور یاد رہے کہ ظالم ہمیشہ ظلم کی کاروائی محدود پیمانے پر شروع کرتا ہے- وہ پہلے ایک فرد کو ستم کا نشانہ بناتا ہے جو اس کا آزمائشی مرحلہ ہوتا ہے، وہ فرد واحد پر ظلم کرکے اس کے رد عمل کا انتظار کرتا رہتا ہے، اگر اسی مرحلے پر لوگ اس کی مزمت نہ کریں، اسے لگام دینے کی کوشش نہ کریں یا لوگ سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرکے ظالم کے ظلم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں تو یقین جانیے اس سے ظالم شتر بے مہار بن جاتا ہے اور وہ پوری منصوبہ بندی کے تحت بڑے بڑے جرائم میں ملوث ہونے کی جرات پیدا کرتا ہے پھر ایسے لوگوں کے لئے ڈاکہ زنی کرنا، دوسروں کے ناموس کی عزت سے کھیلنا اور قتل و غارت گری جیسی قبیح حرکتوں کا مرتکب ہونا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے- حالات پر نظر رکھنے والے افراد سے پوشیدہ نہیں کہ گلگت بلتستان کے شہروں سے دور دیہاتوں میں زندگی بسر کرنے والے لوگ حکومتی کارندوں کے ستم کے علاوہ خود اپنے معاشرے کے افراد کے ہاتھوں بھی ظلم کا شکار رہتے ہیں، ان معاشروں میں یہ باقاعدہ رسم بنی ہوئی ہے کہ جب کسی پر ظلم ہوتا ہے تو اس معاشرے میں رہنے والے مظلوم کی داد رسی کرتے ہوئے ظالم کو سبق سکھانے کی تجویز پر غور کرنے کے بجائے علاقے اور رشتہ داری کی بنیاد پر مسئلے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور مظلوم انصاف کے لئے ترستا ہی رہتا ہے، در نتیجہ ظالم کو نہ مستحق سزا ملتی ہے اور نہ ہی مظلوم کو انصاف اور کیس کو دبانے کا آسان ترین طریقہ سیاسی اثر ورسوخ کااستعمال ہوتا ہے، جس کی حالیہ مثال ضلع کھرمنگ کے علاقہ کندرک سے تعلق رکھنے والےآخوند علی مرحوم ملاحسن پہ کے بیٹے نذیر یورنگوت کے ایک غنڈے کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننا ہے-
معتبر ذرائع کی اطلاع کے مطابق بشیر ولد صادق کی ایک گائے بروق آبادی میں آئی جسے نزیر کے بھائی حسنین نے آبادی سے پکڑ کر بند کردی اور مالک کو اطلاع دی اطلاع ملتے ہی مالک نے آکر حسنین سے کچھ کہے بغیر اسے اپنی تحویل میں لی اور چلا گیا، لیکن واپسی پر راستے میں اس کی ملاقات حسنین کا بھائی نزیر سے ہوئی تو اس نے وہیں پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا، دانت توڑے، سر پھوڑا اور بغیر کسی تقصیر کے گائے بند کرنے والے کا بھائی ہونے کے جرم میں اسے مار پیٹ کر لہولہان کردیا اور شنید ہے وہ وہیں سے سیدھا تھانے جاکر تشدد کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کروایا جس کے نتیجے میں تھانے سے تشدد کرنے والے کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس یورنگوت پہنچی مگر وہ اسے ڈھونڈتے ہی رہ گئی- انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس موقع پر اہلیان یورنگوت اس غنڈے کو پکڑ کر پولیس کی تحویل میں دے دیتے اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ کچھ پڑھے لکھے افراد نے مظلوم کی حمایت کرنے کے بجائے ظالم کے ظلم پر پردہ ڈالنے کے لئے سوشل میڈیا پر غلط پوسٹیں شئیر کئے گئے ہیں جو انتہائی قابل مزمت حرکت ہے-ایک صاحب نے فیس بک پر لکھا ہے کہ میں کھرمنگ خاص میں پولیس گردی کی مزمت کرتا ہوں- جناب کونسی پولیس گردی اور کہاں کی پولیس گردی؟ کیا مجرم کی تلاش میں پولیس کا آنا پولیس گردی کہلاتا ہے؟ اگر آپ میں انصاف کی رمق بھی ہوتی تو آپ ایسا نہ لکھتا، بلکہ تشدد کرنے والے کی مزمت میں لکھتا، ہم آپ کے اس بے بنیاد جملے کی بھر پور مزمت کرتے ہیں اور آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ آپ ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کرنے کو ہی اپنی اس محدود زندگی کا محور بنائیے، یہی دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی اور سعادت کا راز ہے- میرے بھائی بے شک یہ گھر کی لڑائی جھگڑا ہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اگر گھر میں کوئی غنڈہ گردی کرتا ہے تو گھر کے دوسرے افراد خاموش رہے اور اسے شتر بے مہار کی طرح کھلا چھوڑ کر اسے غلط حرکتوں کی طرف لپکنے میں مدد یاتقویت فراہم کریں آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ظالم کی حمایت کرتے ہوئے اس کے ظلم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرنا بھی ظلم ہے- آخری اطلاع کے مطابق کچھ سیاسی گروہ ان کے درمیان صلح کرانے کی غرض سے کندرک پہنچ چکے ہیں- صلح کرکے نزاع کو رفع دفع کرنا نیک اور پسندیدہ کام ہے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس بنیاد پر صلح کراتے ہیں- یاد رکھیں سیاسی دباؤ ڈال کر خاموش کرانے کا نام صلح نہیں بلکہ ہر حال میں حق اور باطل کے معیار پر مظلوم کو انصاف دلانا ہوگا، امید ہے کہ سید امجد زیدی اور ان کی معیت میں جانے والے نزیر کو انصاف دلانے میں کوئی کسر باقی چھوڑیں گے- ہم اپنی اس مختصر تحریر کے توسط سے ذمہ دار افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ نزیر کو انصاف دلانے میں ہرگز کوتاہی نہ کریں اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نزیر کو تشدد کا نشانہ والے جوان کو قانون کے دائرے میں کھینچ کر سزا دلوانے میں دیر نہ کریں-
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ظلم کا انجام برا ہوتا ہے- مریم عارفی کراچی یا صبا نزہت نے ظلم کا انجام کے عنوان سے ایک دلچسپ کہانی لکھی ہے جس کا اہم بڑا حصہ قارئین کرام کے مطالعے کے لئے ابتدائی سطر میں معمولی تبدیلی کے ساتھ نقل کررہا ہوں – کہانی یہ ہے کہ کسی جنگل میں ایک بڑا رحم دل شیر ہواکرتا تھا اس کا ایک بیٹا تھا جس کام موگا تھا جب وہ شیر اپنی طبعی عمر پوری کر کے مر چکا اس کا بیٹا شوگا بادشاہ منتخب ہوا سارے جانور خوش تھے مگر چند ہی دنوں میں جنگل کے جانوروں نے شوگا کے طور طریقے دیکھے تو ان کی سب خوشی زائل ہو گئی۔ وہ ایک ظالم اور خونخوار شیر تھا۔
شوگا! کل تم نے چار نیل گائے دو ہرن اور ایک زیبرے کا شکار کیا اور آج تم نے بلاوجہ تین بارہ سنگھوں پر حملہ کیا جن میں سے ایک شدید زخمی حالت میں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا مگر افسوس کے وہ بچ نہ سکا اور دریا کے کنارے پڑی اس کی لاش گدھوں کا نوالہ بن گئی۔ آخر تم ایسا کیوں کر رہے ہو‘‘۔ لورا شیرنی کی دھاڑ سے سارے پرندے بھی سہم کر اپنے گھونسلوں میں چھپ گئے۔ جو اب میں شوگا نے ایک کڑک دار قہقہہ لگایا ’’امی حضور کل میں نے لومڑی، لگڑبھگے اور گیڈر کی دعوت کی تھی نیل گائے اور زیبرا ان کے لیے تھا۔ اپنے لیے تو میں صرف ہرن پسند کرتا ہوں۔ اور آج ان بارہ سنگھوں کو میں ان کی گستاخی کی سزا دینا چاہتا تھا۔ شیروں کے سامنے ان کی مجال اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہماری موجودگی کا لحاظ کیے بغیر بھی گھاٹ پر پانی پیتے رہے تھے۔‘‘
شوگا کی اکڑ اور غرور نے لورا شیرنی کو موگا شیر کی سادگی اور انکساری کی یاد دلا دی تھی۔ ’’ان بارہ سینگھوں میں گستاخی کی مجال تمہارے رحم دل باپ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ کاش کہ تم بھی اپنے باپ کی طرح ہوتے تو سارے جانور تم سے ڈرنے کے بجائے تمہاری عزت کرتے اور گن گاتے لورا شیرنی اپنے بیٹے کے رویے پر بے حد شرمندہ اور غمگین تھی۔ ’’شیر کا اپنی رعایا پر رعب و دبدبہ ہونے میں ہی شان ہے۔ میں ابا حضور کی طرح نادان نہیں ہوں جو ان کمزور جانوروں کو سر پر چڑھاتا پھروں میں طاقت کے ذریعے حکومت کرنا جانتا ہوں‘‘۔ شوگا کی دھاڑ آس پاس میں دبکے ہوئے جانوروں نے بھی سن لی تھی۔ نئے بادشاہ کے عزائم سن کر اب ان کی خیریت اسی میں تھی کہ یا تو وہ یہ جنگل ہی چھوڑ جائیں یا پھر بادشاہ کی پہنچ سے کوسوں دور ہی رہیں۔ دوسری طرف لورا شیرنی کو اپنے بیٹے کے خیالات سن کر سخت ضدمہ پہنچا تھا۔
’’نادان تمہارا باپ نہیں تھا بلکہ تم ہو شوگا جو ظلم اور ناانصافی کو اپنی حکومت کی بنیاد بنا رہے ہو۔ محبت ان سے کہیں زیادہ طاقتور جذبہ ہے کاش کہ تم سمجھ سکتے۔ لیکن اتنا ضرور یاد رکھنا کہ تمہاری خونخواری تمہیں بالکل تنہا کر دے گی اور یہ بھی یاد رکھنا کے ظلم بالآخر مٹ کر ہی رہتا ہے۔‘‘
شوگا نے اپنی ماں کی باتوں پر کان نہیں دھرے اور نہ ہی کمزور اور معصوم جانوروں کا خون بہانا ترک کیا۔ اس کی روشن سے دل برداشتہ ہو کر لورا شیرنی جنگل ہی چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
تمام جانور بھی ہر وقت اپنی کمین گاہوں میں چھپے رہتے تھے یوں جنگل میں خوب و ہراس نے اپنا ڈیرا جما لیا تھا۔
شوگا کی خونخواری حد سے بڑھ گئی تو ایک دن تمام جانوروں نے آپس میں میٹنگ بلائی۔ جس میں تمام جانوروں نے شوگا سے نجات حاصل کرنے کے طریقوں پر غور و خوص کیا۔ بہت سوچ بچار کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اتحاد میں بڑی طاقت ہے لہٰذا آئندہ سے کوئی بھی جانور تن تنہا نہ شکار پر جائے گا اور نہ ہی پانی پینے گھاٹ پر بلکہ سب چار یا پانچ کی ٹولیوں کی شکل میں رہا کریں گے۔ تنہا کوئی بھی جانور شیر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن اگر وہ ہر وقت جتھے کی شکل میں رہیں گے تو شیر بلا ضرورت ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکے گا جانوروں کی ترکیب کار گر رہی اور یوں وہ بڑی حد تک شوگا کے حملوں سے محفوظ رہنے لگے۔
دوسری جانب رحمت الٰہی سے بھی ان مظلوم جانوروں کی حالت چھپی نہ تھی غضب خداوندی نے ازخود ان کی داد رسی کا انتظام کردیا۔
شکاریوں کا ایک ٹولہ جنگل کے اس حصے میں آپہنچا جہاں سے شوگا کا غار کچھ زیادہ دور نہ تھا۔ جیب کے انجن کی گھڑ گھڑاہٹ اور اسلحہ کی گھن گرج سن کر سارے ہی جانور دور بھاگ نکلے مگر شیر سے کشیدہ تعلقات کے باعث کسی نے بھی اسے شکاریوں کی آمد کی اطلاع نہ دی یوں شیر اپنے ہی غار میں محصور ہو کر رہ گیا کیونکہ شکاری ایک شیر کو پکڑنے کے لیے ہی گھات لگا کر بیٹھے تھے۔ اسے اپنے غار میں محصور دوسرا دن تھا جب قریب سے ہی اسے نیل گائے کی خوشبو سنگھائی دی۔ بھوک نے اسے پہلے ہی بہت بے تاب کر رکھا تھا اس لیے اس نے سوچا آج ہرن نہ سہی نیل گائے ہی سہی۔ اسی پر گزارہ کر لیتا ہوں۔ جب اس نے سونگھ کر اچھی طرح انسانوں کی غیر موجودگی کا اطمینان کر لیا تو بہت چوکنے انداز میں دبے پاؤں نیل گائے کی طرف بڑھنے لگا۔ دوسری طرف نیل گائے بھی شیر کی بو محسوس کرکے کرکے ہنھنانے لگی مگر بندھی ہوئی ہونے کی وجہ سے بھاگ نہیں سکی۔ جیسے ہی شیر نے اس پر جست لگائی وہ شکاریوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گیا۔ اس نے خوب دھاڑ لگائی اور بہت زور آزمائی کی مگر سب بے سود ہی رہا نہ ہی کسی جانور نے جال کاٹ کر اسے باہر آنے میں مدد دی۔ جلد ہی شکاریوں نے اسے ایک مضبوط پنجرے میں منتقل کر دیا اور بڑی سی گاڑی میں ڈال کر شہر لے گئے۔
یوں جانوروں کی شوگا سے نجات ملی۔ ظالم بادشاہ سے نجات پاتے ہی تمام جانوروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی بالآخر کئی دنوں تک جشن منانے کے بعد انہوں نے آپس کے صلاح مشورے سے لورا شیرنی کو اپنی ملکہ بنا لیا۔ لورا بوڑھی ضرور ہو گئی تھی مگر اس جیسا عقلمند شیر جنگل میں اور کوئی نہ تھا۔ دوسری طرف شوگا کو اپنے ظلم اور تکبر کی سزا مل چکی تھی۔ چڑیا گھر کے ایک پنجرے میں قید ہونے کے بعد جلد ہی اس کی ساری اکڑ خون اور غرور بہہ نکلا تھا۔ تازہ جنگلی ہرنوں کا شکار کرنے والا جب روکھی سوکھی بکریوں کا گوشت کھاتا تو اسے کبھی موگا شیر یاد آتا تو کبھی لورا شیرنی۔ اپنے آزادی کے دنوں کو یاد کرتے وہ اس قید میں اپنی زندگی کے باقی دن بڑی کسمپرسی میں گزار رہا تھا۔ سچ کہا ہے کسی نے اﷲ کے یہاں دیر ہے پر اندھیر نہیں۔