اعلانات اور بس اعلانات
تحریر: دردانہ شیر
پاکستان مسلم لیگ گلگت بلتستان کی حکومت عنقریب اپنے دور حکومت کا تیسرا سالگرہ منانے والی ہے اور صوبے میں (ن) لیگ کی حکومت کے تین سال پورے ہونے میں کچھ دن باقی رہ گئے ہیں گلگت بلتستان کی حکومت کے پاس اب اقتدارکے مزید اٹھارہ ماہ رہ گئے ہیں جس کے بعد خطے میں الیکشن کی تیاریاں ہونگی اور ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ ،پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار میدان میں کود پڑینگے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے بلندوبانگ دعوے کرکے خطے کے عوام سے ووٹ لیا جائے گا اور پھر وہی ہوگا جو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ہوا بلند بانگ دعوے کرکے اقتدار میں ائینگے اور کامیاب ہونے کے بعد حکومت بنالینگے اور اس کے بعد عوام کے مسائل بھول جائینگے مگر گلگت بلتستان کے عوام کو ان دونوں پارٹیوں کے منشور اور عوام سے کئے گئے وعدے اب بھی یاد ہیں خطے عوام نہیں بھولے ہیں آنے والے الیکشن میں گلگت بلتستان کے عوام نے وقت کے حکمرانوں سے اپنا پورا حساب لینا ہے اور بہتر احتساب عوام ہی کر سکتے ہیں اور وہ ہے ووٹ کا درست استعمال پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گلگت بلتستان میں حکومت بنے تین سال ہونے کو ہیں اس عرصہ میں خطے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے راقم نے حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کی جہاں کسی علاقے کو نظر انداز کیا گیا اس کی بھی نشاندہی بھی اپنے مختلف کالموں میں کیا ہے گلگت بلتستان میں جب صوبائی الیکشن ہوئے تو بدقسمتی سے غذر سے مسلم لیگ (ن) کو ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہیں ملی اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ غذر کے عوام نے اس پارٹی کو ووٹ نہیں دیا ہومسلم لیگ (ن) کے تینوں امیدواروں نے اپنے مخالف امیدواروں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا جبکہ حلقہ نمبر ایک میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اپنے مخالف امیدوار سے چند ہی ووٹوں سے ہارگئے تین نشستوں میں سے ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے حکمران جماعت نے بھی اس ضلع کو یکسر نظر انداز کرنا شروع کر دیا حالانکہ اس وقت آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو غذر گلگت بلتستان کا تیسرا بڑا ضلع ہوگا مگر جب خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی سیٹوں کی بات آگئی تو بھی غذر کو نظر انداز کیا گیا مشیروں کی بات چلی تو بھی غذر کا کوئی نام شامل نہیں تھا مگر اب جب حکمران جماعت نے اپنے تین سال پورے کرنے کے چند ماہ قبل سینئر سیاسی شخصیت و مسلم لیگ کے رہنما غلام محمد کو مشیر لیا ہے جبکہ مسلم لیگ نے اپنے دور اقتدار کے دو سال پورے کرنے کے بعد فداخان فدا کو وزیر بنایا اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مسلم لیگ نے اپنے دور اقتدار کی نصف مدت میں غذر سے کسی بھی منتخب نمائندے یا سنیئر سیاسی شخصیت کو اپنی کابینہ میں صرف اس وجہ سے نمائندگی نہیں دی کہ غذر سے (ن) لیگ کا کوئی امیدوار کامیاب کیوں نہیں ہوا حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی جب جی بی میں حکومت بنی تو سب سے پہلے کابینہ میں نمائندگی غذر کو ملنی چاہئی تھی وہ اس لئے کہ مشرف کے دور اقتدار میں یہ غذر ہی تھا جس نے گلگت بلتستان میں (ن) لیگ کو زندہ رکھا تھا پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ (ن) کو گلگت بلتستان میں زندہ رکھنے والے اس وقت کے ممبر قانون ساز اسمبلی سلطان مدد ہی تھے جس نے اس وقت کے حکمرانوں کی طرف سے کئی عہدوں کا لالچ دینے کے باوجود پارٹی سے غداری نہیں کی اور جب نواز شریف کی ملک میں حکومت نہیں تھی ان کو غذر بلایا اور اپنی مدد اپ کے تحت بنایا گیا سلپی پل نواز شریف کے نام کر دیا اس پل سلطان مدد نے کس طرح تعمیر کیا یہ غذر کے عوام جانتے ہیں مگر وہی ہوا کہ پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت بنی تو پارٹی کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے والے سلطان مدد کو وقت کے حکمرانوں نے مکمل طور پر نظر انداز کیا بلکہ ان کو پارٹی ٹکٹ بھی اس وقت دیا گیا کہ ان کے مخالف امیدوارں نے الیکشن کمپین مکمل کرلی تھی اور تو اور وفاق یا گلگت بلتستان کے کوئی پارٹی کے سرکردہ رہنما نے ان کے حلقے کا دورہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا مسلم لیگ (ن) کے لئے قربانی دینے والے یہ شخص آج کا زیر زمین چلے گئے ہیں.
تین سالوں میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے غذر کی تعمیر وترقی کے لئے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جس کی تعریف کی جائے ہاں وزیراعلی کی طرف سے کچھ اعلانات ضرور ہوئے جس کے مطابق گلگت سے گاہکوچ تک کے کے ایچ طرز کا روڈ بنانے کی نوید سنائی وزیراعلی حافظ حفیظ الرحمان نے کہا تھا کہ جنوری 2017کے پہلے ہفتے میں گلگت غذر روڈ پر کام شروع ہوگا مگر تاحال کام تو دور کی بات ٹینڈر تک نہیں ہوا ہاں یہ ضرور ہوا کہ گلگت سے گاہکوچ تک وہ سڑک جو سیلاب کی زد میں اگئی تھی اس کی مرمت کے لئے کچھ رقم مختص کر دی گئی اور جہاں تارکول اکھڑ گیا ہے وہاں پر ٹاکی لگانے کے لئے کچھ رقم فراہم کردی گئی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ غذر سے گاہکوچ تک روڈ کی مرمت کا کام جلد ہونے والا ہے اب عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ کہاں گئے حکمرانوں کے وہ وعدے ،گلگت غذر کو سی پیک میں شامل کرنے کی وہ باتیں اور کدھر ہے وہ پھنڈر 87میگاواٹ پاور پراجیکٹ غذر کے عوام سوال کرتے ہیں کہ کدھر گلگت گاہکوچ ایکسپریس وئے کا وہ منصوبے جس میں وزیر اعلی نے گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ سے یہ شاہراہ مکمل کرانے کی غذر کے عوام کو نوید سنائی تھی کب ہوگا شیر قلعہ ار سی سی پل کی تعمیر مکمل وزیر اعلی نے کہا تھا کہ ہم پی پی پی کے لیڈروں کی طرح جھوٹے اعلانات نہیں کراتے شیر قلعہ پل جون میں مکمل کراکے دیکھا دونگا مگر کدھر ہوا یہ پل مکمل اور گوپس یاسین کے عوام یہ امید لگا بیٹھے تھے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان گوپس یاسین کو ضلع بنا لینگے مگر کچھ نہیں ہو ابس صرف وعدے وعدے ہی رہے اس سے اگے بات نہ بڑہ سکی چونکہ دنیا امید پر قائم ہے نا امیدی گناہ ہے غذر کے عوام بھی یہ امید لگا بیٹھے ہیں کوئی نہ کوئی تو ضرور ائیگا جو ان کے جائز مطالبات پورے کرنے بس، اس کے لئے چند مہینے انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔