تعلیم

ہنزہ میں‌تعلیم کا گرتا معیار، لمحہ فکریہ

ہنزہ ( سروے رپورٹ، اجلال حسین ) ہنزہ میں تعلیم کا میعار صفر ، تعلیم ،تعلیم نہیں رہا، تعلیم مکمل طور پر کاروبار بن گیا جس کا ثبوت گزشتہ دنوں قراقرم بورڈ کے نہم و دہم رزلٹ نے دیا، ہنزہ میں نہ صرف نجی سکولوں بلکہ سرکاری سکولوں کی بُری کارکردگی کی وجہ سے تعلیمی میعار آئے روزگرتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں KIUبورڈ کے زیر نگرانی نہم اور دہم کے امتحان میں رزلٹ کا اعلان کیا گیا جس میں ضلع ہنزہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی طالبعلم نے پوزیشن حاصل نہیں کیا۔

ہنزہ میڈیا سروے کے مطابق ہنزہ میں بڑھتی ہوئی نجی سکولز جو کہ مکمل طور پر کاروباربن چکا ہے بے زور گار اور پڑھے لکھے افرادتعلیم کو کاروبار کا کا ذرئعہ بنا کر سکول کی بنیاد رکھتے ہیں جن کی وجہ سے ہنزہ میں تعلیمی معیار دن بدن برُی طرح گرتا جارہا ہیں، کو ئی پوچھنے والا نہیں ۔

جبکہ دوسری جانب والدین پریپ ون سے لیکر میٹرک تک اپنے بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم دینے کے خاطر نہ صر ف قرضے مختلف بنکوں سے لیتے ہیں بلکہ اپنی جائیداد کوبھی فروخت کرکے بچوں کی تعلیم پرخرچ کرتے ہیں مگر نتائج اُن کی توقعات کے برعکس ہوتے ہیں ۔ میڈیا سروے کے علاوہ نجی سکولوں میں پڑھانے والے والدین کے مطابق اس وقت ہنزہ میں پرایؤیٹ سکولوں میں سواء روپے کمانے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا ہے ۔

اس موقع پر میڈیا سروے ٹیم نے تعلیم سے وابسطہ افراد سے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ کسی بھی بچے کا تعلیمی بنیاد ابتدا ء سے مضبوط کرنا لازمی ہے جس کے لئے ابتدا یعنیECDسے بچے کی ذہین اور سیکھانے کے لئے پروفیشنل اساتذہ کی ضرورت ہے جہاں پر بچے کی نشو ونما اور تعلیمی ذہن بنانا پڑتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابتد میں بچے کی کھانے پینے کے طریقہ کار کے ساتھ لکھنے اور پڑھنے کے ہنز سکھانا لازمی ہو تا ہے جس کے لئے تربیت یافتہ استانی ضروری ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اخلاق ، تعلیم اور دیگر معاشرتی اقتدار سکھانا پڑتا ہے۔

تعلیم سے وابسطہ ماہر ین نے مزید کہا کہ ہنزہ میں آئے روز تعلیم کا معیار گرنے کی وجہ بچے تعلیم سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف مثلاً کھیل کود اور دیگر میوزیکل سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہے، لیکن نصابی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان نے تعلیم کو روزگار سمجھ کر تعلیمی ادارے کھول دیئے ہیں اور والدین ایک ا چھا تعلیمی ادارہ سمجھ کر اپنے بچوں کی خاطر سالانہ ہزاروں روپے ان اداروں کی فیس کی شکل میں دیتے ہیں، مگر سرکاری سکول ہو یا نجی سکول، نتائج والدین کے توقعات پر نہیں اترتے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ والدین کو خوش کر نے کے لئے کلاس ون سے آٹھویں جماعت تک سکول سطح پر نمایاں رزلٹ دیتے ہیں مگر کلاس نہم اور دہم میں کسی بورڈ کے زیر نگرانی امتحان دیتے ہیں تو ان کا رزلٹ والدین کی سوچ کےبرعکس ہو تا ہے۔اس لئے چاہیے کہ کسی بھی نجی یا سرکاری سکول میں اساتذہ پیشہ وارانہ مہارت کے حامل ہوں، اور بچوں کی کلاس اور ہوم ورک روزانہ یا ہفتے کی بنیاد پرچیک کرنے کے ساتھ کلاسوں کا معائینہ بھی کرے اورہر استاد اپنے مضامین کا رزلٹ سکولوں اور والدین کو دے، اور بچوں کی کارکردگی کے متعلق ہدایات اور مشورے بھی دے۔ اگر ایسا ہوا تو ضلع ہنزہ میں تعلیم کا معیار دوبارہ سے بحال ہو سکتا ہے۔

اگر موجودہ حالت برقرار رہی تو ہنزہ میں تعلیم کا معیار مزید گرتا چلا جائے گا۔

ہنزہ میں تعلیم کے معیار کو دیکھتے ہوئے نہ صرف والدین کی ذمہ داری ہے بلکہ محکمہ تعلیم کے حکام کے علاوہ ضلعی انتظامیہ نہ صرف نجی سکولز بلکہ سرکاری سکولوں کی کارکردگی کی ماہانہ بنیاد پر نگرانی کرتے، اور والدین کی جانب سے دی جانے والی فیسوں کو حلال کروانے میں بھی اپنا کردار ادا کرے بصورت دیگر آئندہ تین سے چار سالوں کے اندر ہنزہ میں تعلیمی معیار بُری طرح متاثر ہو نے کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button