سکردو کی پہاڑیاں اور ہم
سکردو آمد کے ساتھ جہاں یخ ہواؤں نے لب و رخسار کا بوسہ لیا وہاں سردی نے بنیان اور کوٹ بھی پہنا دی۔ ان یخ ہواؤں سے لطف لیتے رہیں اور ان پہاڑوں میں اور ان پہاڑوں کے پس منظروں میں کھو کر ان یادوں کو کھوجتے رہیں جو کبھی ان وادیوں میں گزری تھیں۔ میرے ساتھ جو خوبصورت آدمی کھڑے ہیں یہ بھارتی اداکار اکشے کھنہ نہیں بلکہ نومل کے ہمارے دوست بشیر احمد صاحب ہیں۔ آپ کو کیا گلہ مجھے خود بھی ایسا لگا تھا۔ پچھلے سال اسلام آباد سے کراچی جاتے ہوئے جہاز میں میرے ساتھ آشا بھی تھی۔ ننھی شرارتی آشا جہاز میں اِدھر اُدھر گھومتی رہتی تھی۔ جب آشا کو لینے پچھلے سیٹ کی طرف گیا تو وہاں میں نے بشیر صاحب کو پہلی بار دیکھا تھا۔ میری پہلی نظر بھی ان کو اکشے کھنہ ہی سمجھ رہی تھی۔ میں نے شرارتاً ساتھ بیٹھے دوست سے پوچھا تھا ’’اکشے کھنہ یہاں کیسے؟‘‘ انہوں نے پھر ان کا تعارف کروایا تھا۔ بشیر احمد صاحب جیتنے خوبصورت ہیں اس سے کئی گنا زیادہ خوب سیرت بھی ہیں۔ شرافت ایسی کہ ان کی انگ انگ سے ٹپکے۔ بشیر احمد آغا خان یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں۔ اطرب جائن کرنے سے پہلے وہ یو ایس ایڈ کے ایک پروجیکٹ میں سکردو میں چار سال رہ چکے ہیں۔ اس لیے ہمارے ساتھ بات کرتے ہوئے وہ کہیں کھو جاتے تھے ایسا لگتا تھا کہ وہ ان وادیوں میں اپنی گم گشتہ یادیں تلاش کر رہے ہیں۔
یہ تصویر شگر سے آتے ہوئے صرفہ رنگا صحرا کے آس پاس پہاڑیوں کے دامن میں کھینچی گئی ہے۔
پروفیسر کمال الہامی نے خوب ہی کہا ہے؎
پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیچ میں ہم ہیں
مثالِ گوہرِ نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں