جنوں اور پریوں کا دیس ایسا نہ ہوگا تو پھر کیسا ہوگا؟
کل کا دن اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ جب ہم سکردو سے براستہ دیوسائی گلگت نکل پڑے تھے۔ دُھوپ چاروں اور پھیل چکی تھی۔ دُھوپ کی ہلکی تپیش بدن کو گداگدا رہی تھی۔ ہم تھے، ہماری گاڑی تھی، نشیب میں بہتا سدپارہ ڈیم کا پانی تھا اور سب سے اہم معاملہ دیوسائی جانے کا شوق تھا۔ پھر بڑا پانی آیا، کالا پانی کو عبور کرنا پڑا۔ اب ہم دیوسائی جھیل کے کنارے تھے اور اس حسیں منظر سے لطف لے رہے تھے۔ اس سے پہلے بھی دیوسائی کئی بار جانے، وہاں کے پھولوں سے اٹکھیلیاں کرنے، وہاں کی سندر جھیل کی بانہوں میں کھڑے ہونے، کچھ شکاری پرندوں کی دانے دنکے کی تلاش میں جھیل میں موجود مچھلیوں کو نگلنے اور دیگر معصوم پنچھیوں کی شرارتوں سے لطف اٹھانے، اور ہاں دیوسائی سے آسمان کو چھونے اور آسمان کو اپنی بانہوں میں سمیٹنے کا ارمان پورا ہوچکا ہے۔ اب کی بار چونکہ موسم گرمی سے سردی کی طرف پا بہ رکاب تھا، جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملے کی طرح پھولوں کی پتیوں کا نوحہ احمد فراز کے اس مصرع کی طرح کتابوں میں نہیں بلکہ نیلگوں جھیل کے پانیوں میں رقص کر رہی تھیں اور زندگی کی بے ثباتی کا نوحہ پڑھ رہی تھیں اس لیے ہمیں خوش آمدید پھولوں نے نہیں بلکہ دیوسائی کے ذردی مائل مناظر نے کیا۔ پروفیسر کمال الہامی کے اشعار جو کل ہی انہوں نے ہمیں سنائے تھے۔ اس منظر کی ترجمانی کر رہے تھے؎
اے پیرِ مرد تیری جوانی کدھر گئی؟
تیرے شباب کی وہ کہانی کدھر گئی؟
گلشن سے اب بہار گئی، آگئی خزاں
دن کا وہ راجہ، رات کی رانی کدھر گئی؟
اب پروفیسر میاں کو کون سمجھائے کہ جہاں دن کا راجہ ٹھہر نہیں سکتا وہاں رات کی رانی کا کیا بھروسہ؟ رانی تو رانی ہوتی ہے یہ رات کی رانی ہو یا حُسن کی، دغا دے ہی جاتی ہے۔
ہم دیوسائی کے آسمان میں اور وہاں کے ویسع و عریض میدان میں کھو گئے تھے اور غالباً خود سے پوچھا تھا کہ ’’جنوں اور پریوں کا دیس ایسا نہ ہوگا تو پھر کیسا ہوگا؟ زمین تو کیا پوری کائنات میں ایسا منظر دوسرا کاہے کو ہوگا!‘‘
روح کی گہرائیوں تک اُترنے والی فرحت بخش ہوائیں ایسی کہ دامن اور گلہ بند ہی نہیں بلکہ دل بھی اُڑا لے جاتی ہیں۔ ان ہواؤں کے دوش میں رقص کرتی عجیب آوازیں بھی کانوں سے ٹکراتی ہیں۔ جب میرا گلہ بند ہوا میں لہرا رہا تھا مجھے محسوس ہوا کہ کوئی چیز مجھے اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ ہوا میں اتنی طاقت کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے سرگوشیاں کرتی پریاں ہوں جو نظر تو نہیں آتی ہیں لیکن پس منظر کی گہرائیوں میں کہیں ان کا وجود ضرور ہے۔ اچھا ہوا کہ ان پریوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اگر ان سے ملاقات ہوجاتی تو ہماری سوسن پری کا کیا ہوتا۔ سنا ہے پریاں بھی آپس میں جیلس ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ہم جلدی وہاں سے نکل گئے کہ گلگت میں ہماری پری ہمارا انتظار کر رہی تھی۔
دیوسائی جاتے ہوئے راستے کی ایک تصویر کل کے پوسٹ میں آپ سے شئیر ہوچکی ہے۔ جس پر کچھ قدردانوں کی جانب سے یہ شکایت بھی آئی کی کاش! دیوسائی کی تصویر بھی ہوتی۔ تو لے لیجئیے صرف ایک تصویر ہی نہیں بلکہ وہاں کے مناظر کی کئی ایک تصاویر آپ کی محبتوں کی نذر ہے۔ یہ تصویریں آپ سے شئیر کرتے ہوئے نہ جانے ’’بانگِ درا‘‘ میں پڑھے شاعرِ مشرق کے یہ اشعار کیوں بے اختیار یاد آئے۔ حضرتِ اقبالؒ نے خوب کہا ہے؎
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستیِ ناپائدار دیکھ
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، میرا انتظار دیکھ
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقش کفِ پائے یار دیکھ