الواعظ رائے سید خلیل – چند یادیں، چند باتیں
فکرونظر: عبدالکریم کریمی
نوٹ: کل ہی کی بات ہے ویک اینڈ پر گھر گیا تھا۔ اپنی عادت سے مجبور گھر پر پرانی تصویریں دیکھ رہا تھا کیونکہ میں ماضی میں اور بھولی بسری یادوں میں رہنا چاہتا ہوں۔ ایسی ہی اس شغلِ تصویر بینی کے دوران الواعظ رائے سید خلیل مرحوم کی زیر نظر تصویر مجھے ملی۔ تو گویا یادوں کی ایک دُنیا آباد ہوئی۔ یہ ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان کی گولڈن جوبلی کی بات ہے۔ بوبر پونیال کی ایک تقریب میں میرے ساتھ الواعظ مرحوم بھی مدعو تھے۔ انہوں نے وہاں ’’قرآن میں امامت کا تصور‘‘ کے موضوع پر ایک فکرانگیز تقریر کی تھی۔ یہ تصویر اس تقریب کی ہے۔ جس کی عکس بندی میں نے کی تھی۔ اس تصویر نے مجھے ایک پرانی تحریر کی یاد دلائی جو الواعظ موصوف کی وفات کے فوراً بعد میں نے لکھا تھا جو ’’فکرونظر‘‘ کے کسی شمارے میں چھپی بھی تھی۔ خواہش ہوئی کہ قند مکرر کے طور پر آپ بھی پڑھے۔ یہ تحریر کچھ سال پہلے کی ہے۔ اس کو اس تناظر پڑھا اور محسوس کیا جائے۔ تشکر بسیار!
………………..
اُس دن دفتری مصروفیات سے فارغ ہوکر میں گاہکوچ بازار میں شاپنگ میں مصروف تھا۔ اگلے دن نوروز تھا۔ گھر جانے کی تیاری ہورہی تھی۔ نوروز کی خوشیاں گھر والوں کے ساتھ منانے کا پروگرام طے ہوچکا تھا۔
شاپنگ سے فارغ ہوکر میں نے گھر کی طرف رختِ سفر باندھا۔ آج پورا دن مصروف رہا تھا اِس لیے تھکن سے بدن ٹوٹ رہا تھا۔ ایک آدھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جب گاڑی گھر کے نزدیک پہنچی، تب شام کے سائے بھی گہرے ہوچکے تھے۔ گاڑی رُکی۔ ابھی میں گاڑی سے اُتر رہا تھا بلکہ ایک پاؤں گاڑی کے باہر رکھا ہی تھاکہ میرے موبائل کے ٹیکسٹ مسیج کی آواز نے مجھے بے اختیار موبائل کی طرف متوجہ کیا۔ جیسے ہی میں نے مسیج پڑھا زمین میرے پاؤں کے نیچے سے سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دھڑکتے دِل اور بکھرے خیالات سے میں نے اُسے دوبارہ پڑھنے کی کوشش کی کہ مباد!ا پڑھنے میں غلطی نہ ہوئی ہو۔ کسی دوست کی طرف سے یہ المناک خبر دی گئی تھی کہ ’’اسماعیلی طریقہ بورڈ برائے پاکستان کے مایۂ ناز اسکالر جناب الواعظ رائے سید خلیل حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے اِنتقال کرگئے ہیں۔‘‘ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنo
الواعظ رائے سید خلیل کی المناک موت کی خبر سن کر بے اختیار یادوں کے دریچے وا ہوتے گئے۔ وادیِ گوپس کے خوبصورت گاؤں سمال میں 2؍ جنوری 1945ء کو پیدا ہونے والے سید خلیل اپنی عمر عزیز کے 47؍ سال امامتی اداروں میں گزار چکے تھے۔ امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کی ڈائمنڈ جوبلی سے تعمیر ہونے والے شمالی علاقہ جات میں ڈائمنڈ جوبلی اسکولوں کا آغاز 1946ء سے ہوا تھا۔ سید خلیل نے پہلے ان اسکولوں سے کسبِ فیض کیا۔ پرائمری کے بعد صرف 13؍ سال کی عمر میں یکم؍ جون 1958ء کو بحیثیت مدرس ڈائمنڈ جوبلی سکول سمال سے انہوں نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز کیا۔ 15؍ سال اسی سکول میں خدمات دینے کے بعد 20؍ ستمبر 1973ء کو اِسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کی طرف سے وہ بحیثیت ٹیوٹر شاہ کریم ہوسٹل کنوداس گلگت تعینات ہوئے۔ 2؍ سال شاہ کریم ہوسٹل میں گزارنے کے بعد 1975ء کو بحیثیت الواعظ باقاعدہ طور پر اِسماعیلیہ ایسوسی ایشن اور بعد ازاں اِسماعیلی طریقہ بورڈ برائے پاکستان سے منسلک ہوئے۔ وہ سپریم کونسل برائے وسط ایشیاء کے ممبر بھی رہے ہیں۔
شمالی علاقہ جات کے مکتب دینیہ کے ٹیچرز کے لیے جب 1976ء میں اوّلین ٹیچر ٹریننگ پروگرام جو گلگت میں رکھا گیا تھا، جس میں اُس وقت کے اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کے سینئر واعظین شیخ دیدار علی (مرحوم) اور شیخ محمد اقبال بھی بحیثیت ٹیچر ٹرینر گلگت آئے تھے، ان کے ساتھ الواعظ رائے سید خلیل بھی بطور ٹیچر ٹرینر شریک ہوئے۔ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کی جانب سے شمالی علاقہ جات میں یہ پہلا تاریخی پروگرام تھا۔
الواعظ رائے سید خلیل ایک مایۂ ناز عالمِ دین تھے۔ 1969ء کو جب ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان کی طرف سے وسطی ایشیا کی اِسماعیلی جماعت کو آئین دیا گیا تو الواعظ سید خلیل نے سرزمینِ غذر کے طول و عرض میں جاکر جماعت کو اِمام زمانہ علیہ السلام کی جانب سے نئے آئین کی نوازش پر مبارکباد دی اور سپریم کونسل برائے وسطی ایشیاء کے ممبر کی حیثیت سے انہوں نے جماعت میں اِس آئین کا اعلان فرمایا۔ سب سے اہم بات یہ کہ جب 1960ء کو اِسماعیلی تاریخ میں پہلی بار مولانا حاضر امام شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ ارضِ شمال تشریف لائے تو اُس دوران امام زمانہ نے گوپس میں بھی جماعت کو اپنے دیدارِ مبارک سے نوازا تھا۔ پنڈال میں الواعظ سید خلیل صاحب کے اسکول کی طالبات نے منقبت پڑھی تھی۔ امام کے حضور منقبت پڑھنے والی ان طالبات میں راجہ گوپس کی دُختر نیک اختر بھی تھی۔ راجہ گوپس کا تعلق اہلِ سنت و الجماعت برادری سے تھا لیکن اُس وقت ان کی صاحبزادی نے نہ صرف قصیدہ پڑھا بلکہ خود راجہ صاحب نے مولانا حاضر امام کی مہمان نوازی کا شرف بھی حاصل کیا تھا۔ راجہ گوپس کے محل کا وہ کمرہ اب بھی گوپس کے گاؤں گاؤت میں موجود ہے جہاں امام نے شب بسر کی تھی۔
الواعظ رائے سید خلیل کو جماعتی و اِمامتی اداروں میں خدمت کے سلسلے میں وطنِ عزیز کے کونے کونے میں جماعت سے ملنے کا شرف حاصل تھا خواہ یہ سندر چترال ہو یا شمشالِ بے مثال………… آپ کی خدمات تا دیر یاد رکھی جائیں گی۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب اِن علاقہ جات میں سڑک کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ دُشوار گزار پگڈنڈیوں سے پیدل چل کر انہوں نے اسماعیلی جماعت کی فلاح و بہبود کے لیے جو کام کیے وہ سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔ شمشال پیدل جانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ مجھے ایک آدھ بار شمشال جانے کا اتقاق ہوا ہے۔ 2006ء کو جب میں ہنزہ میں ہوتا تھا تو ایک فور ویلز جیپ میں گوجال پھسو سے شمشال گیا تھا، دُشوار گزار راستہ اور پگڈنڈی نما سڑک پر جب جیب چلتی تو نیچے دریا ایک چھوٹی سی لکیر معلوم ہوتا تھا، ٹھیک تین گھنٹے کی مشقت آمیز سفر کے بعد احساس ہواکہ اسی شمشال میں الواعظ سید خلیل کئی دفعہ دو دو دن پیدل چل کر آئے ہوئے تھے۔ تب سڑک نہیں بنی تھی، یہ تو گزشتہ سالوں میں AKRSP (آغاخان رورل سپورٹ پروگرام) کے تعاون سے بنی ہے۔ اس سے پہلے لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ جب میں گاڑی سے اُتر رہا تھا تب مجھے شرمندگی سی ہو رہی تھی کہ مجھے گاڑی میں آتے ہوئے اتنی تھکاوٹ ہوئی تھی جبکہ سید خلیل سمیت ہمارے دیگر سنیئر الواعظین پیدل چل کر جماعت میں جو خدمات دیا کرتے تھے وہ تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ ان سنگلاخ پہاڑوں میں ان الواعظین کرام کی بے پناہ خدمت کی وجہ سے جو انقلابی تبدیلی آئی اس کا ایک زمانہ شاہد ہے۔ تب تو مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ نے 1986ء کو شاہ کریم الحسینی ہوسٹل گلگت میں نوجوان واعظین کے ساتھ ایک نشست میں اپنی اِس خواہش کا اِظہار کیا تھاکہ ’’مستقبل میں نوجوان واعظین مذہب کے ستون کے طور پر کام کریں۔‘‘ مولانا حاضر امام کی اِس خواہش کی بدولت یقیناًواعظین نے ان علاقہ جات میں علم کے نور کو پھیلانے میں مثالی خدمات انجام دیں۔
واعظین کے لیے جماعت کے دِل میں جو احترام ہے وہ ’’ایں سعادت بزور بازو نیست‘‘ کے مصداق ہے۔ واعظین چونکہ ذہن سازی کرتے ہیں اُن کا کام بڑی بڑی بلڈنگیں یا ترقیاتی کام کرنا نہیں جو نظر آجائے، ذہن سازی نظر نہیں آتی۔
یہ وضاحت جملۂ معترضہ کے طور پر آئی۔ بات ہورہی تھی الواعظ سید خلیل کی۔ محترم الواعظ صاحب کو جماعتی اور اِمامتی اداروں میں بے لوث اور مثالی خدمات انجام دینے پر اِمام کی طرف سے پہلے حضور موکھی، پھر عالیجاہ اور بعدازاں رائے کا ٹائٹل ملا تھا۔ آپ 2؍ جنوری 2005ء کو اپنی طویل خدمات کے بعد رسمی طور پر اِسماعیلی طریقہ بورڈ برائے پاکستان سے ریٹائر تو ہوئے تھے لیکن جماعت سے اپنی بے پناہ چاہت و محبت کی وجہ سے بحیثیت ایک سنیئر اسکالر آپ کی خدمات کا سلسلہ تادمِ مرگ جاری تھا۔ یوں 20؍ مارچ 2013ء کی شام علم و دانش کا یہ چراغ 68؍ سال کی عمر میں اپنے پسماندگان میں 2؍ بیوگان، 3؍ بیٹے اور 4؍ بیٹیوں کو داغِ مفارقت دیکر اِس جہانِ فانی سے ابدیت کی طرف سدھار گئے۔
’’ربّ مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘
مجھے بھی ارضِ شمال کے دیگر واعظین کی طرح الواعظ سید خلیل مرحوم سے اِکتسابِ فیض کرنے اور آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ یہ اُن کا بڑا پن تھا کہ انہوں نے کبھی اُستاد و شاگرد کا روایتی رشتہ نہیں رکھا بلکہ وہ ایک دوست کی طرح پیش آتے تھے۔ آپ ہر محفل کی جان تھے۔ آپ کے بغیر محفلیں سونی سونی اور مجلسیں ویراں ویراں سی لگنے لگتی تھیں۔ آپ کے وعظ کا کیا کہنا………… وہ کہے اور سنا کرے کوئی………… آپ اپنی تند و تیز اور طنزو مزاح سے بھرپور باتوں سے لوگوں کا دِل جیت لیتے تھے اور محفل زعفراں زار ہوجاتی………… وہ کبھی کبھی ایسے بہک جاتے کہ سنجیدہ سے سنجیدہ محفلوں میں بھی لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتے۔ وہ اِنتہائی حاضر جواب تھے۔
وہ اکثر ایک واقعہ مجھ سے شیئر کیا کرتے تھے خود بھی لوٹ پوٹ ہوجاتے اور مجھے بھی ہنساتے۔ اپنے کسی الواعظ دوست کا قصہ سنارہے ہوتے کہ الواعظین جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ پیدل ہی سفر کیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہنزہ کے ایک سینئر الواعظ غذر کی فیلڈ ڈیوٹی پر پنگل سے پھنڈر جا رہے تھے۔ راستے میں ایک بے آب و گیاہ بیاباں آجاتا ہے۔ جولائی کی گرمی میں الواعظ موصوف پسینے میں شرابور اس بیابان میں پیدل جارہے تھے کہ ایک گاڑی نمودار ہوئی۔ الواعظ صاحب نے لفٹ مانگی مگر بقول اُن کے لفٹ دینے کی بجائے جب گاڑی مزید گرد و غبار اُڑاتی ہوئی گزر گئی تو الواعظ صاحب نے بڑی بے چارگی میں یہ مصرع گنگنایا
’’ہم تڑپتے رہ گئے وہ مسکرا کے چل دئیے‘‘
بہت ساری باتیں اور یادیں جو الواعظ صاحب سے منسوب ہیں۔ میں کھل کے بیان نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ جاہل لوگوں کی ذہنیت اور ان پڑھ معاشرہ ہے۔ ضیا علی شہید پر میری گزشتہ تحریر جہاں اہلِ علم و دانش میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی وہاں چند ذہنی پستی کے شکار لوگوں نے شدید ردِعمل کا اظہار بھی کیا۔ اس لیے میں بعض چیزیں لکھنے سے قاصر ہوں۔ بس دُعا کیجئے گا کہ اللہ ہمارے ذ ہنی معیار کو اُٹھان دے تاکہ ہم آزاد فضاؤں میں کچھ لکھنے اور کہنے کی جسارت کرسکیں۔ بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے
جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا
میں پچھلے سال کے اُس دن کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ جب میں اور ماموں جان (میں الواعظ رائے سید خلیل صاحب کو ماموں جان کہہ کر ہی پکارتا تھا) فیلڈ ڈیوٹی پر غذر کے بالائی علاقوں میں تھے۔ دن بھر جماعت اور نوجوانوں کے ساتھ مختلف پروگراموں میں لیکچرز دینے اور وعظ سے فراغت کے بعد تھکن سے ہمارا بدن ٹوٹ رہا تھا۔ سر درد کر رہا تھا اور الواعظین بیس کیمپ میں تھوڑی دیر سستانے کے بعد چائے کی غرض سے برلبِ روڈ ایک کیبن پر جب گئے۔ کیبن پر DBS لکھا گیا تھا۔ پہلی نظر میں محسوس ہوا کسی فوجی ادارے کی طرف سے کھولا گیا ہوگا کیونکہ نام ہی کچھ ایسا تھا مگر جب اندر گئے اور اس نام کے بارے میں معلومات لی گئیں تو پتہ چلا کہ یہ فوجی ادارہ نہیں بلکہ فوج سے حولدار (ر) دینار بہار شاہ کا کیبن تھا جس نے اپنے نام کے مخفف سے یہ انوکھا نام رکھا تھا۔ واہ! DBS کی چائے کا کیا کہنا۔ نمکین چائے کی چسکی ایسا لطف دینے لگی کہ دن بھر کی تھکن کافور ہوگئی مگر کم بخت سر درد تھا کہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے بمصداق بڑھتا جا رہا تھا۔
وہاں سے نکل کر ہم ہوٹل آگئے۔ ساتھ ہی ایک نجی ہسپتال تھا۔ سوچا بلڈ پریشر کا مألہ ہوگا۔ ماموں جان سے پانچ منٹ کی اجازت لے کر میں وہاں گیا۔ حسن عابدی نے اپنی ایک شہرۂ آفاق نظم میں خوب ہی کہا تھا
’’اُس روز ہسپتال کا منظر عجیب تھا‘‘
بس کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ خیر میں گیا کیوں تھا، میں اچھی طرح جانتا تھا مگر وہاں سے آیا کیسے………… وہ مجھے نہیں معلوم…………پروین شاکر کا یہ شعر بے اختیار یاد آیا تھا
اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
رُوح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
یہ خیالات بھی بڑے بے لگام ہوتے ہیں انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں۔ خیر، میں غالباً پانچ منٹ میں ہی واپس ہوٹل پہنچا تھا مگر بعض دفعہ پانچ منٹ کتنے لمبے ہوتے ہیں اس کا احساس وہی کرسکتا ہے جس کو پانچ منٹ سے واسطہ پڑا ہو………… پھر ماموں جان کی رنگین و سنگین باتوں کی نشتر کا چلنا یقینی تھا، سو، ایسا ہی ہو۱۔ شام رات میں ڈھل چکی تھی۔ چاند کی ابتدائی تاریخیں تھیں یا آخری………… آسمان پر کہیں نظر نہیں آرہا تھا جبکہ ستاروں سے کوئی جگہ خالی نہیں تھی۔ فرحت بخش ہوا کی لہریں ایک عجیب سرشاری طاری کر رہی تھیں۔ ویٹر نے ہماری میز پر کھانا بھی لگا دیا تھا۔ معمول کی خبریں ٹی وی پر چل رہی تھیں۔ اچانک ایک ’’بریکنگ نیوز‘‘ نے گویا ہمارے حواس باختہ کر دئیے۔ سینکڑوں مسافروں کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد آنے والی بوجا ائیرلائنز کی پرواز اسلام آباد کے قریب حادثے کا شکار ہوئی تھی۔ جس میں اعلیٰ فوجی و سول آفیسران کے علاوہ کچھ ایسے جوڑے بھی تھے جن کی ابھی ابھی شادی ہوئی تھی اور وہ ’’ ہنی مون‘‘ منانے اور نئی زندگی کا آغاز کرنے اسلام آباد آرہے تھے۔ انہوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ اُن کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔ افسوس تو تب ہوا جب دو دن بعد جہاز کے ملبے سے ایک دُلہن کا کٹا ہوا ہاتھ ملا تھا، جس میں شادی کی مہندی بھی ابھی باقی تھی، سونے کی انگوٹھی اور چوڑیاں بھی صحیح سلامت تھیں مگر زندگی روٹھ چکی تھی………… روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی تھی………… نہ جانے اُس دُلہن کی روح دِل میں ارمانوں کا ایک ہجوم لیے اپنی اس بے وقت موت پر کتنی حیران و پریشان ہوئی ہوگی۔ خیر، یہی تو زندگی ہے کہ اس نامعلوم سفر میں نہ جانے کب کس کو جانا ہے۔ پروفیسر کمالؔ الہامی نے کیا خوب کہا ہے
دُنیائے حادثات کا کیا اِعتبار ہے
اِنسان کی حیات کا کیا اِعتبار ہے
کھلتے ہیں پھول گاتے ہیں بُلبُل بہار میں
لیکن کسی کی بات کا کیا اِعتبار ہے
قدموں کی لغزشوں سے جو ملتی ہے خاک میں
خوشیوں کی اُس بارات کا کیا اِعتبار ہے
دریائے حادثات میں ڈوبے ہیں سارے لوگ
کشی کی اب نجات کا کیا اِعتبار ہے
ہے اِس کے پاس گاہے، کبھی اُس کے پاس ہے
طغیانئِ فرات کا کیا اِعتبار ہے
نیچے گراتی رہتی ہے دُنیا بلندیاں
پستی میں اونچی ذات کا کیا اِعتبار ہے
شعلہ بیاں خطیب و مقرّر ہی جب نہیں
تقریر کی نکات کا کیا اِعتبار ہے
ماہِ کمال کا بھی مقدّر ہے جب غروب
تو چودھویں کی رات کا کیا اِعتبار ہے
الواعظ رائی سید خلیل کی شعلہ بیانی پر پروفیسر صاحب کا یہ شعر صادق آتا ہے
شعلہ بیاں خطیب و مقرّر ہی جب نہیں
تقریر کی نکات کا کیا اِعتبار ہے
وہ شعلہ بیاں مقرر ہی نہیں بلکہ ایک ایسے کھرا انسان تھے کہ غیر ضروری لوگوں کو جوتی کی نوک پر رکھتے تھے۔ اب یہ مت پوچھنا کہ یہ غیر ضروری سے کیا مراد ہے۔ ہم بس اتنا ہی کہہ سکے کہ جتنا کہنے کی سکت تھی۔ جاننے والے خود جان جائیں گے کہ ان سے میری مراد کون لوگ ہیں۔ فیض احمد فیضؔ نے خوب ہی کہا ہے
جان جائیں گے جاننے والے
فیضؔ فرہاد وجم کی بات کرو
الواعظ مرحوم سچ بات کہتے ہوئے کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ کچھ لوگ ایسے موقع پرDiplomacy سے کام لیتے ہیں اور اس کو اچھا سمجھتے ہیں۔ الواعظ مرحوم کہا کرتے تھے کہ Diplomacy کا اردو ترجمہ منافقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھ سے منافقت نہیں ہوسکتی۔ الواعظ سید خلیل مرحوم اکثر مجھ سے کہتے تھے ’’کریمی! زرق اللہ دیتا ہے۔ اس ذات پر بھروسہ ہونا چاہئے۔ نوکری کی آڑ میں کسی کے تلوے نہیں چاٹنا چاہئے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی ملازمت کے دوران دیگر لوگوں کی طرح فائدہ نہیں لے سکیں۔ ہاں جماعت کے اندر الواعظ موصوف نے اپنا جو مقام بنایا تھا وہ ’’این سعادت بزور بازو نیست‘‘ کے مصداق ہر کسی کے نصیب میں کہاں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مزاج کے ہم بھی ذرا الواعظ مرحوم کی طرح کھرے ٹھہرے۔ اس لیے اب تک فائدے کم اور نقصانات کا بوجھ زیادہ لیے پھرتے ہیں۔
خیر! الواعظ مرحوم سے منسوب بہت ساری باتیں ہیں لیکن دامن تحریر میں گنجائش کی کمی ہے۔ اُس دن جب میں تعزیت کے لیے اُن کے گھر سمال گوپس گیا ہوا تھا۔ اُن کا خوبصورت گھر، اُن کے باغات اور اُن کی زمینوں میں وہ رونق نہیں تھی جو اُن کے دم قدم سے ہوتی تھی۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ میں اُن کی زندگی میں کئی بار اُن کے ہاں مہمان بنا تھا خود کھڑے ہو کر مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔
فاتحہ پڑھنے کے بعد دِل مچل رہا تھاکہ میں محترم الواعظ مرحوم کی آخری آرام گاہ پر بھی حاضری دوں۔ اب جبکہ میں مٹی کے اُس ڈھیر کے سامنے کھڑا تھا۔ علم و ادب کا یہ آسمان منوں مٹی تلے جاکے ابدی نیند سو چکا تھا۔ میرے ہاتھ تو دُعا کے لیے اُٹھے تھے مگر آنکھیں اِس المناک حادثے پر نم ہوچکی تھیں۔ تب مجھے عزیزم سفیرؔ عباس کے یہ اشعار یاد آگئے
جن کی گُفتار تھی دریا کی روانی کی طرح
آج خاموش ہیں تالاب کے پانی کی طرح
اِس زمین میں نہ معلوم کتنے آسمان دفن ہیں۔ ربّ مغفرت کرے۔