کالمز

گلگت بلتستان کے تندوروں میں بکنے والی بیماری

تحریر: اسرارالدین اسرار

دنیا بھر میں ہر سال ۱۶ اکتوبر کو عالمی یو م خوراک منایا جاتا ہے ۔ اس کا مقصد لوگوں کو بھوک سے بچانے ، صحت افزاء خوراک تک رسائی کو ممکن بنانے، مضر صحت خوارک سے بچنے اور خوراک کے ضیاع کو روکنے سے متعلق آگاہی دینا ہے۔ خوراک کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں اس لئے بروقت اور بہتر خوراک تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔ دنیا میں اسی کروڑ سے ایک ارب کے قریب لوگ شدید بھوک کا شکار ہیں جن کو پیٹ بھر کے کھانا نہیں ملتا ہے۔دنیا میں روزانہ مرنے والی ساٹھ فیصد خواتین اور پانچ سال سے کم عمر کے پچاس لاکھ بچوں کی اموت کی وجہ خوراک کی عدم دستیابی یا مضر صحت خوراک ہے۔ خوراک کی کمی یا مضر صحت خوراک پر قابو پانے سے نہ صرف ان خواتین اور بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں بلکہ ایک صحت مند ، خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرہ بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا خوراک کے عالمی دن کے موقع پر اس ضمن میں ممالک کو خاص اقدامات اٹھانے کی تر غیب دیتی ہے۔

پاکستان میں خوراک کے مسائل بہت گھمبیر ہیں۔ خوارک کی کمی اور مضر صحت خوراک سے ماہانہ ہزاروں اموات ہوتی ہیں۔ لاکھوں لوگ روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔ تھر اور دیگر غربت زدہ علاقوں کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ایک طرف ایک بڑی آبادی ایک ایک نوالے کے لئے ترستی ہے جبکہ دوسری طرف فائیو سٹار اور دیگر بڑے ہوٹلوں میں لاکھوں ٹن خوراک روزانہ ضائع ہو جاتی ہے ۔ جس کی وجہ اس اہم مسلے کے حوالے سے ارباب اختیار کی عدم تو جہی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے دیگر صوبوں میں مضر صحت غذا ء کے قصے روز میڈیا میں سننے کو ملتے ہیں۔ مگر گلگت بلتستان کا کہیں ذکر نہیں ہوتا ہے ۔ حالانکہ یہا ں بازار میں مضر صحت اشیا ء کی بھر مار ہے۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت وقتا فوقتا اعلانات کرتی ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتا ہے۔ اس دفعہ پھر فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے کچھ اقدامات کا اعلان کر رکھا ہے ان پر کتنا عمل ہوگا وہ وقت بتا ئے گا ۔ ہم خوراک سے متعلق تمام مسائل کا ذکر کئے بغیر صرف چند ایک کا ذکر کریں تو صورتحال کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

کچھ کا م ایسے ہوتے ہیں جن کے کرنے میں حکومت کے پیسے خرچ نہیں ہوتے ۔ تھوڑی بہت سمجھ سے کام لیا جائے تو یہ کام آسانی سے ہوسکتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے آنے سے قبل گلگت بلتستان کے تندوروں میں صحت افزاء روٹی ملتی تھی مگر اس حکومت نے دو سال قبل تندوروالوں پر پابندی لگادی کہ وہ صرف فائن آٹا خریدیں گے۔ اس فیصلے کے بعد اب تندوروں میں فائن آٹا کی روٹی ملتی ہے۔ جب تک یہ روٹی گرم ہوتی ہے تب تک اس کو کھا یا جا سکتا ہے ۔ ٹھنڈی ہونے کے بعد یہ روٹی ربڑ کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کو توڑنے کے لئے باقائدہ کھینچا تانی شروع ہوجاتی ہے۔ اس روٹی کو چبانے کے لئے تیز دانتوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جس کے دانت گوشت خور جانوروں کی طرح تیز نہ ہوں ان کو پوری پوری روٹی نگلنا پڑتا ہے۔ بیچار ے بڑھے اور بچوں کے لئے تو یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔

گذشتہ دنوں ایک میڈیکل سٹور کیپر نے اس روٹی کی شان میں راقم کو پورا لیکچر بدیاتھا اور گزارش بھی کی تھی کہ اس بات کو حکام تک پہنچایا جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ فائن آٹا کی روٹی پاکستان کے دیگر شہروں میں کم استعمال ہوتی ہے جبکہ گلگت بلتستان کے تندوروں میں اس کے علاوہ روٹی ملتی ہی نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں ہر دوسرا فرد قبض کا مریض ہے جس کی بنیادی وجہ تندور کی یہ روٹی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قبض صرف بیماری نہیں بلکہ بیماریوں کی ماں ہے۔ اس سے انسان کا اندورنی نظام سارا کا سارا متاثر ہوتا ہے۔دائمی قبض کے مریض عمر کے آخری حصے میں آکر بواسیر کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔قبض کا علاج خوارک کے علاہ کسی چیز میں نہیں ہے ۔اس لئے قبض کا باعث بننے والے خوراک سے بچنا ضروری ہے۔ پانی کا زیادہ استعمال اور ورزش اس کی دوسری شرط ہے۔ مگر بنیادی طور پر خوارک میں احتیاط لازمی ہے ۔مگر یہاں لوگوں کو جب ڈاکٹر ہدایت کرتے ہیں کہ وہ تندور کی روٹی سے اجتناب کریں تو وہ اس پر عمل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ تندور کی روٹی ہزاروں لوگ مجبوری میں کھاتے ہیں۔

پاکستان کے دیگر شہروں میں تندوروں میں لوگوں کی فرمائش پر روٹی بنائی جاتی ہے جس میں نان، شیرمال، پتیری روٹی ، روغنی نان، تل والے نان، خمیری روٹی، چکی کے آٹے کی روٹی، آلو پراٹھا، بکرکھانی، چپاتی، کلچہ، مکئی کی روٹی، رومالی روٹی، تافتان سمیت کئی اقسام شامل ہیں جبکہ یہاں صرف ایک ہی طرح کی روٹی ملتی ہے جو کہ فائن آٹا سے بنائی جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس میں بڑی مقدار میں سوڈا ملا یا جاتا ہے جو کہ انتہا ئی مضر صحت ہے ۔ بظاہر یہ ایک معمولی مسلہ لگتا ہے مگر یہ اجتماعی مسلہ ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ تندور والوں کو فائن آٹا خریدنے پر مجبور نہ کر ے۔ بلکہ فائن آٹا پر مکمل پابندی لگا کر عام آٹا فراہم کیا جائے۔اگر ایساممکن نہیں تو ان کو ہر طرح کا آٹا رکھنے اور لوگوں کی فرمائش کے مطابق روٹی تیار کرنے کے پابندکیا جائے۔ خوراک کے عالمی دن کے موقع پر دنیا کے کئی ممالک میں بہتر خوارک کے ضمن میں بہت اہم اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ۔ ہم اگر وہ تمام اقدامات نہ اٹھا سکیں تو کم از کم گلگت بلتستان کے تندوروں میں بکنے والی بیماری پر قابو تو پا سکتے ہیں۔ راقم نے دو سال قبل اپنے ایک کالم میں حکومت سے استدعا کی تھی کہ گلگت بلتستان میں خوراک اتنا بڑا مسلہ ہے کہ خوراک کی ایمرجنسی لگا دی جائے ۔ مگر حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ اب اگر تندوروں میں بکنے والی اس بیماری پر قابو پالے تو لوگ حکومت کے مشکور ہونگے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button