کالمز

میں اور الواعظ ۔۔۔ ایک مکالماتی سلسلہ، قسط اول

 

میں جب جب پریشاں ہوتا ہوں میرے اندر کا واعظ مجھ سے مخاطب ہوتا ہے، مجھ سے مکالمہ کرتا ہے اور مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سوچا کیوں نہ یہ مکالمہ قسط وار آپ کے ساتھ شئیر کروں۔

تو لیجئیے اس کی پہلی قسط حاضر خدمت ہے۔

آج کل اسلامی جموریۂ پاکستان کے حالات دیگر گوں ہیں۔ ہر ذی شعور کی طرح میں بھی پریشان ہوں۔ ناموسِ رسالت کا مجھے بھی پاس ہے۔ ایسے میں میرے اندر کے واعظ نے جو تاریخی واقعہ میرے گوش گزار کیے۔ وہ آپ کی نذر کیے دیتا ہوں۔

حضرت علی نے گستاخِ رسول (ص) کی زبان کاٹ دی۔

رسولِ خدا صلعم کے مدنی دور میں (جب وہ مدینہ ہجرت کرچکے تھے، تب) کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔

اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضور کے سامنے پھینک دیا..

سرکار دوعالم نے حکم دیا: اس کی زبان کاٹ دو۔

تاریخ لرز گئی، مکہ میں جو پتھر مارنے والوں کو معاف کرتا تھا. کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمار داری کرتا تھا… اسے مدینے میں آکے آخر ہو کیا گیا۔

بعض صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟

حضور نے فرمایا: نہیں، تم نہیں۔

تب رسولِ خدا نے حضرت علی کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو…

مولا علی بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے..

اور حضرت قنبر کو حکم دیا: جا میرا اونٹ لے کر آ۔

اونٹ آیا مولا نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیے اور اس کو اونٹ پہ بیٹھایا، پھر فرمایا: تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لونگا…

اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ، حضرت علی نے تو رسول کی نافرمانی کی۔

رسول خدا کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: یا رسول اللہ آپ نے کہا تھا زبان کاٹ دو، علی نے اس گستاخ شاعر کو 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا…

حضور مسکرائے اور فرمایا علی میری بات سمجھ گئے…

افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔

وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ: یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو … علی نے تو کاٹی ہی نہیں…

اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتا ہے وہ شاعر وضو کررہا ہے.. پھر وہ مسجد میں جا کر حضرت محمد ص کے پاؤں چومنے لگتا ہے. جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے: حضور آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں…

اور یوں ہوا کہ حضرت علی نے گستاخ رسول کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔

حوالہ: (دعائم الاسلام، جلد 2، صفحہ 323)

میرے اندر کے واعظ کا آخری جملہ مجھے شرمندہ کرنے کے لیے کافی تھا کہ صرف نام کے عاشقِ رسول بن کے اپنی املاک کو تباہ کرنے کی بجائے اس پاک و پاکیزہ رسولؐ کی سیرت کو اپنے کردار کا حصہ بناؤگے تو دنیا میں مزید تماشا نہیں بنو گے۔

یکے از تصنیفاتِ کریمی

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button