کالمز

ڈیم متاثرین کی آبادکاری یا بربادی

تحریر۔اسلم چلاسی

تاریخ میں چنگیز خان حلاکو خان جیسے درندے صفت لوگوں کا زکر ملتا ہے۔ یہ لوگ شکل و شباہت سے تو انسان تھے ۔اٹھنا بیٹھنا بھی انسانوں میں تھا مگر اندر سے انسان نہیں حیوان تھے یہ نہ صرف انسانوں کے قاتل تھے بلکہ انسانیت کے قتل عام پر یقین رکھتے تھے ان کے آگے کوئی ضابطہ اصول تھا نہ ان چیزوں پر یقین رکھتے تھے جو بھی سامنے آئے بلا امتیاز روند ڈالتے تھے ان کی کتاب میں قول و فعل نام کا کوئی لغت ہی نہیں تھا یہ بوقت ضرورت نا کامی کی صورت میں حکمت عملی کے تحت معاہدات بھی کرتے اور محل وقوع کی حساب سے اپنے کیے معاہدات کو روند ڈالتے اور دیکھتے ہی دیکھتے مکر بھی جاتے تھے یہ وحشی قسم کے جاہل جنگجو تھے زمانہ بھی جہالت کا تھا انسان بھی نہتے تھے دنیاں بھی بہت بڑی تھی ایجادات بھی محدود تھے علم و شعور کی کمی تھی تو انسان کٹ مرتے تھے لیکن بد قسمتی سے اب دنیاں بھی گلوبل ہے علم و شعور بھی ہے نت نئے ایجادات وضح کردہ آئین طے شدہ قوانین ریاست طاقتور ادارے عدل و انصاف کا باقاعدہ نظام موجود ہونے کے باوجود چنگیز خان اور حلاکو خان کا وہی بربریت جاری ہے وہ بھی ایک ایسی قوم کے خلاف جو ہر حوالے سے قابل رحم ہے جس نے ملک و ملت کے خاطر ایسی قربانی پیش کی جس کی مثال اس ملک کی ستر سالہ تاریخ میں کہیں بھی نہیں ملتی ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا صنعتیں بند پڑی تھی معیشت کا پہیہ جام تھا آ بی قلت کی وجہ سے ملک بنجر ہورہا تھا ایسے وقت میں اس دور کے حکمران جنرل پرویز مشرف صاحب نے کالا باغ ڈیم بنانے کی خواہش ظاہر کی تو سندہ اور کے پی کے سے بھارت کے ایما پر سخت مخالفت سامنے آیا حالانکہ یہ لوگ باقاعدہ پاکستانی ہیں تمام ملکی مراعات لیتے ہیں وزارتیں اور اہم ریاستی عہدے انجوائے کرتے ہیں مگر دشمن کے بہکاؤ اور دہن کی لالچ میں آکر اس اہم ترین منصوبے کی مخالفت کر کے دشمن کے عزائم کی تکمیل کردی جبکہ دیامر کی عوام کو ملکی ضرورت اور مستقبل میں ملک کو درپیش آنے والی خدشات سے آگاہ کیا گیا تو ملک کے وسیع تر مفاد میں بے شمار تحفظات کے باوجود حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیامر بھاشہ ڈیم بنانے کی اجازت دے دی اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بے مثال قربانی کے بدلے میں قومی سطح پر اس جزبہ حب الوطنی کو اجاگر کرتے ہوئے اس قوم کو عزت اور وقار کی نظر سے دیکھتے اور وہ مراعات دیتے جس کا یہ قوم حقدار تھی مگر بدقسمتی سے ہر دور کے نام نہاد جمہوریت نے اس تاریخ ساز قربانی کی قدر کرنے کے بجائے نہ صرف متاثرین کی جگ ہنسائی کی بلکہ ہر دور کے برائے نام دیسی حکمرانوں نے اس لٹی پٹی قوم کے حقوق پر شب و خون مارتے ہوئے بہتی گنگا سمجھ کر ہاتھ صاف کیا اورسا تھ ہی اپنی معیشت کو بھی چار چاند لگا دیے۔زمینوں باغات مکانات اور داسز کی پیمائش میں جو کچھ ہوا اور پھر ڈبل شاہ کا جو کردار رہا ہوائی خسرے پٹواریو ں کا وار یہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے املاک کی معمولی قیمت اور پھر معاوضات میں تاخیر پھر مقامی سود خوروں کے ہاتھوں لٹنے کی کہانی ایک لگا کر دس اصول کرنے کی داستانیں کچھ مضاربہ سکینڈل کے ضد میں آنے کے بعد روپوشی کچھ پراپرٹی رئل سٹیٹ والوں کے ہتھے چڑ گئے کچھ لگشری گاڑیوں کے چکر میں آگئے اب حالت یہ ہے کہ جن لوگوں کوان کے املاک کا کاٹ پیٹ کر جو معاوضہ ملا تھا ان میں سے پانچ فیصد لوگ بھی ایسے نہیں کہ جن کے پاس گزر بسر کیلے کچھ وسیلہ موجود ہو زمین جائداد بھی چلے گئے اپر سے کچھ فائدہ کے بجائے منتشر ماحول اور نہ ختم ہونے والے مقدمات کی صورت میں بے چینی مل جائیں تو زمینی حقائق کا اندازہ با اسانی لگایا جا سکتا ہے خیر علاقے کی مزاج کے مطابق رات گئی بات گئی کے مصداق سب کچھ در گزر کردیئے گئے مگر کفر پر کفر تو دیکھیں اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اب آخر میں جاکر معمولی سا فائدہ یعنی ایک چھت تک فراہم کرنے میں اس قدر زلت کا سامناہے کہ اس سے راہ فرار اختیار کرنے کیلے میر صادق اور میر جعفر کو پیدا کیا جارہا ہے جس قوم نے سترا ہزار ایکڑ سونہ اگلنے والی زمین مفت دے دی آج اس قوم کو سر چھپانے کیلے ایک کنال زمین دینے کیلے بھی کوئی تیار نہیں ہے

حالانکہ طے شدہ معاہدہ ہے کہ محکمہ واپڈا تمام متاثرین کو ری سٹل کرنے کا پابند ہے مگر آہستہ آہستہ میر جعفر اور میر صادقوں کے زریعے معاہدہ کی شقیں تحلیل ہوتی جارہی ہیں ایوارڈ ۲۰۱۴ میں بنا ہے زمینوں کی باقاعدہ پیمائش ہوئی ہے انتظامیہ نے ایوارڈ بنا یا ہے تمام کاروائی ریکارڈ پر موجود ہے پانچ سے چھے مرتبہ ویریفیکیشن کے بعد ایوارڈ کو حتمی شکل دیا گیا ہے تمام لینڈ اکوزیشن لا کو فالو کرتے ہوئے مختلف سیکشن لگا کر باقاعدہ اشتہار لگایا گیا پھر سیکشن ۹ لگا کر لوگوں کے تحفظات دور کرتے ہوئے ایک بار پھر ویریفکیشن کے زریعے درستگی کی گئی تمام گھرانوں کی تعداد بمع رقم اسسٹنٹ کلکٹر ڈیم کے آفس کے باہر باقاعدہ زون وائیز مشتہر کیا گیا باقاعدہ سپارکو سے کام لیا گیا گوگل میپ موجود ہے کل متاثرین کی تعداد آٹھ سے نو ہزار گھرانے ہیں جو باقاعدہ انتظامیہ کے پاس ریکارڈ کے طور پر موجود ہیں لیکن حیران گی کا مسلہ یہ ہے کہ پھربھی واپڈا بیس فیصد یعنی ۴۲۲۸ پر بضد ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ فعل ماورائے قانون اور آئین ہے ۔اس سروے میں اس قدر بدنیتی اور مکرو فریب ہے کہ منظور نظر لوگوں کو نوازا گیا ہے یعنی کہے ایک گھر کے لوگوں کو تین سے چار گھرانے لکھا ہے تو کہیں چار سے پانچ خاندانوں کو ایک گھر یا ایک خانہ لکھدیا ہے اور اس چار ہزار میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک کمرہ کسی کے زمین پر بنا کر یا زمین اپنے نام پر لکھوا کر یا پھر ملی بھگت کے زریعے متاثرین کے لسٹ میں شامل ہوگئے ہیں بقیہ دو ہزار لوگ ایسے ہیں جن کا نام خارج کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ قدیم زمانے سے آباد لوگ تھے جو بڑی اراضیات کے مالک تھے ان کے کسی بزرگ کا نام لکھ کر دس گھرانوں کو ایک گھریعنی ایک چولہا لکھ دیا گیا ۔اور جنگل کا قانون تو دیکھیں ایوارڈ ۲۰۱۴ میں بنتا ہے اور متاثرین کی سروے دس سال پر انی ہے اس تمام بارگین کا نہ قانون میں کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی عوام ماننے کیلے تیار ہیں بیس فیصد لوگوں کو فسلٹیٹ کر کے باقیوں کو زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ پورا منصوبہ کو ہی ناکام بنا دینا ہے ظاہر ہے کسی کو ان کا حق نہ ملے تو وہ اٹھ کھڑے ہونگے اور معاملات بگڑجائینگے گو یا یہ پورا پلان عوام کو مشتعل کرنے کیلے راستہ ہموار کیا جارہا ہے تھوڑا عقل سے کام لو کل کو نقل مکانی بھی ضروری ہے لوگوں کو یہاں سے نکال کر علاقے کو خالی بھی کرانا ہے آج بیس فیصد کو فسلٹیٹ کر کے باقی اسی فیصد سے علاقہ کیسے خالی کراینگے ؟ کیا اس وقت آج کے یہ میر جعفر اور میر صادق لوگوں سے ان کی زمینیں خالی کرا سکینگے ؟ کمجھے تو لگتا ہے یہ غلط مشہورہ دے رہے ہیں تا کہ یہ ڈیم متنازعہ ہو اور یہ اپنی دکانداری چلاتے رہیں متاثرین کے نام پر اپنالو سدھا کرتے رہیں ۔دانشمندی ایسی میں ہے کہ معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے انتہائی دور اندیش فیصلے کریں اس طرح کے ہتھکنڈوں سے بعض رہے ڈپٹی کمشنر کا فارمولہ بہت بہترین ہے اس پر عمل کیا جائیں مگر اس کا دائرہ مخصوص لوگوں کے بجائے تما م متا ثرین تک بڑھائیں بلے رقم میں کمی کریں یا پلاٹ کے سائز کم کردیں مگر ہر ہر متاثرہ گھر کو جائز حق فراہم کریں تاکہ انصاف کا تقاضہ بھی پورا ہو آپ ظالم بھی نہیں کہلاینگے اور تمام لوگوں کو یکساں حقوق بھی مل جائنگے جس سے ڈیم کی تعمیر کا راستہ بھی ہموار ہوگا اگر لوگ اپنے حقوق کیلے کھڑے ہوگئے تو معاملہ بہت دور تک جائے گا اور یہ بات زہن نشین کر لیے اس طرح کے مکرو فریب کے زریعے ہلاکو خان کے نقش قدم پر چل کر کسی کے نسلوں کو بھکاری بنانے کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہونگی اور نہ کوئی اپنی آنے والی نسلوں کی اس اجتماعی خد کشی کیلے تیار ہے لہذا وقت ہے اس بر بادی والا پلان کو ختم کر کے قانون قائدے میں رہتے ہوئے متا ثرین کے ساتھ رحم والا برتاو کیا جائیں تو بہتر رہے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button