کالمز

مدینہ یا کربلا؟

ساہیوال کی قیامت کے بعدمجھے رہ رہ کر برسوں قبل پڑھا ہوا ایک کالم یادآرہا ہے جس میں لکھا تھا کہ حکیم سعید جب ہجرت کر کے پاکستان آرہے تھے تو ان کے بڑے بھائی نے ان سے کہا تھا کہ سعید نہ جاو یہیں رہ جاو،جس پر سعید کا جواب تھا بھائی جان نہیں میں تو جاوں گا کیونکہ میں جہاں جا رہا ہوں وہ مدینے کی طرح پر امن جگہ ہے جہاں کھل کر اپنے دین پر عمل بھی کر سکوں گا اور آزادانہ زندگی بھی گزاروں گا اور آپ جہاں رہنے کا کہہ رہے یہ کربلا ہے ،بھائی نے آھ بھری اور خاموش ہو گئے ،پھر ایک دن حکیم سعید کے بڑے بھائی کو خبر ملی کہ حکیم سعید شہید کر دئیے گئے تو ان کے بھائی نے کہا سعید تو مدینے میں بھی محفوظ نہ رہ سکا اور میں کربلا میں بھی نوے برس کی عمر میں مسجد جاتا ہوں مجھے کوئی خوف نہیں اور آزادانہ زندگی بھی گزار رہا ہوں ۔۔

تبدیلی حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد ایک دفعہ پھر سے مدینے کی ریاست کا تصور دیا گیا لیکن ہائے افسوس ،،،نام مدینے کا ظلم سارے کربلا والے ،،،،

۔مدینے کی ریاست تو ایسی ہوا کرتی تھی کہ جہاں خلیفہ سوئم داماد رسول حضرت عثمان نے مظلوم بن کر جام شہادت نوش تو کیا لیکن نبی کے شہر میں جنگ و جدل سے اجتناب کیا ،مدینے کی ریاست تو ایسی تھی جہاں میرے مولا حسینؓ نے کربلا کی طرف سفر اس لئے شروع کیا کہ امن کے شہر سے باہر نکل کر دشمنوں سے جنگ کروں ،مدینے کی ریاست تو ایسی تھی جہاں غیر مسلم بھی اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے تھے،،،خدا کے لئے مدینے کے مقدس نام کی توہین تو نہ کرو ،،،ہم کہیں تو شکایت ہوگی خود ہی غور فرماو ۔۔۔

کیا مدینے کی ریاست میں قاضی شراب اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور وہ بعدمیں شہد نکلتی ؟؟؟؟،مدینے کی ریاست میں جن کو ڈاکو اور قاتل ٹھہرایا جاتا کیا انہیں آپ کی حکومت کی طرح حکومتی عہدوں سے نوازا جاتا ،،،،،مدینے کی ریاست میں کیا اقتدار کے لئے انسانوں کی بولی لگائی جاتی تھی؟کیا جہانگیر ترین کی طرح وہاں بھی اقتدار کے لئے خریدو فروخت ہوتی تھی ،مدینے کی ریاست میں احتساب کا ایسا امتیازی نظام بھی نہیں تھا جہاں صاحب اقتدار کے جرائم پر پردہ اور سیاسی مخالفین کو انتقام کی بھٹی کے سپرد کیا جاتا ہو،مدینے کی ریاست میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل بھی نہیں کیا جاتا تھا ،میرا سوال ہے کیا مدینے کی ریاست میں وعدوں کو وفا کرنے کا وقت آئے تو یوٹرن لیا جاتا تھا؟مدینے کی ریاست میں کیا جھوٹ ،دغا بازی ،دھوکہ دہی اور گالم گلوچ کی سیاست کی اجازت تھی؟مدینے کی ریاست میں نعوز باللہ فواد چوھدری جیسے وزیر لغویات اور شیخ رشید جیسے وزیر واہیات رکھے جاتے تھے جو صبح شام لوگوں کی پگڑیاں اچھالیں؟بس کرو بہت ہو چکا اپنی اقتدار کی خواہشوں کی تکمیل کے لئے مدینے کے مقدس نام اور مقدس تصور کی توہین تو نہ کریں۔

مدینے کی ریاست تو ایسی تھی جہاںٍحضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے کئی گورنروں کو بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی پر برطرف کرتے ہیں. مصر کا گورنر ایک غریب کو اس لیے تھپڑ مارتا ہے کہ غریب کا بیٹا دوڑ میں گورنر کے بیٹے سے آگے نکل جاتا ہے. بات حضرت عمر رضی اللہ تک پہنچتی ہے. ثابت ہونے پر گورنر کو تھپڑ مروانے کے ساتھ عہدے سے بھی ہٹایا جاتا ہے. حضرت عمر کے بیٹے پر وہی قانون لاگو ہوتا ہے جسے قرآن نے سب کے لیے مقرر فرمایا ہے، کیونکہ قرآن کا مخاطب انسان ہے۔تبدیلی کے پروانو اور مدینے کی ریاست کے دوعو یدارو ،،زرا اپنے گورنروں اور وزرائے اعلی کی اداوں پر غور تو کرو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مدینے کی ریاست بنا رہے ہو یا اقتدار کی اندھی ہوس کے لئے مدینے کا نام لے رہے ہو.

مدینے کی ریاست تو ایسی تھی جہاں حضرت علیؓ ایک کافر کو مارنے سے اپنے ہاتھ اس لیے واپس کھینچ لیتے ہیں کہ ان کے منہ پر تھوکنے کے بعد یہ ایک ذاتی مسئلہ بن جاتا ہے۔ کیا آپ ان اصولوں پر بھی کاربند ہو یا صرف دعوے ہیں ،۔۔۔۔ساہیوال کی قیامت کے بعد بھی کیا آپ مدینے کی ریاست کے دعویدار ہو ،جب معصوم بچوں کے نہتے والدین کے سینوں پر ان کے سامنے گولیاں ماری جا رہی تھیں تو آپ کے وزیر لغویات فواد چوھدری فرما رہے تھے کہ دہشت گرد مارے گئے ہیں ،خدارا دل پر ہاتھ رکھ کر کہوکیا مدینے کی ریاست میں رحمت العالمین نے غیر مسلم بادشا کی بیٹی کے سر پر چادر نہیں رکھی تھی کیا ،آپ کی تبدیلی ریاسست میں تو معصوم بچے محفوظ رہے اور نہ ہی غریب کے منہ میں نوالہ جا سکتا ہے ،اور کیا مدینے کی ریاست میں سود بھی عام تھا؟کیا مدینے کی ریاست میں غریبوں کے گھروں پر بلڈوزر بھی چلائے جاتے تھے ،،،اب اس دکھی قوم کو اور کتنے زخم دینے ہیں یہ ڈرامے بند کیوں نہیں کر رہے،،،بہت ہو گیا اب خدارا بس بھی کرو۔ظلم سارے کربلا والے ڈھاتے ہو اور نام مدینے کا استعمال کر رہے ہو۔فیصلہ خود کریں کہ آپ یہ سب کر کے کربلا بنا رہے ہو یا مدینہ؟؟؟ْ

حبیب جالب کی یاد آرہی ہے جنہوں نے کہا تھا۔

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری

کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری

وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا

چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا

بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو

نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو

گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے

ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے

یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا

سر محنت کشاں پر تاج ہوگا

نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی

ملے گی سب کو دولت زندگی کی

نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں

بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں

کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا

کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا

لٹی ہر گام پر امید اپنی

محرم بن گئی ہر عید اپنی

مسلط ہے سروں پر رات اب تک

وہی ہے صورت حالات اب تک

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button