جرائمکالمز

"درندگی کا کوئی فرقہ نہیں ہوتا”

تحریر: فیض اللہ فراق

ضلع غذر کی بستی تشنلوٹ میں پیش آنے والا انسانیت سوز واقعہ انتہائی دل گرفتہ اور قابل مذمت ہے. انسان جب انسانی معراج سے گرتا ہے تو حیوانیت اس کے وجود میں اپنا ٹھکانہ بنا لیتی ہے اور پھر وہ بہ ظاہر تو انسان نظر آتا ہے لیکن باطن میں ایک وحشت ناک رجحان پروان چڑھ رہا ہوتا ہے.

تشنلوٹ بستی کے دیدار حسین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور بعد ازاں اس کا سفاکانہ قتل بنیادی طور پر معاشرے کا قتل ہے، سماج کے چہرے پر بدنما داغ ہے اور ہماری اجتماعی بے حسی کی ایک واضح تصویر ہے. چند درندہ صفت افراد نے دیدار حسین کو جس اذیت سے دوچار کر کے شہید کیا ہے اس پر خنجراب سے باب چلاس تک ہر فرد اشکبار اور ہر سوچ سکتے کی کیفیت سے دوچار ہے۔

گلگت بلتستان کی مجموعی عوام نے اس افسوس ناک واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پرزور مطالبہ بھی کیا ہے.

اس میں دو رائے نہیں کہ یہ واقعہ ظلم کی انتہا ہے۔ انسانی قدروں کی موت ہے اور سماجی ڈھانچے کے ماتهے پر رسوائی کا ٹیکہ ہے. خوش آئند بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان پولیس اور غذر انتظامیہ نے بڑی جانفشانی اور مہارت کے ساتھ نصف درجن سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے جبکہ دوسری جانب فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل احسان محمود خان نے بهی واقعہ پر سخت نوٹس لیتے ہوئے پسماندگان کو انصاف کی فراہمی کی یقین دلایا ہے.

قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ اس بدترین واقعے کے اصل مجرم کون ہیں؟ ان کا تعاقب ناگزیر ہے.اس واقعے میں تمام تر دباو اور مصلحت سے بالا ہو کر سائنسی بنیادوں پر غیر جانبدار تفتیش ہونی چاہئے کیونکہ اس وقت عوام سے زیادہ غم زدہ دیدار حسین کے ماں باپ اور گھر والے ہیں.

دنیا میں ظلم، تشدد اور درندگی کی نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی فرقہ البتہ ظالموں کا بہ ظاہر تعلق کسی فرقے یا مذہب سے ضرور ہوتا ہے. اس دلدوز واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش نہ تو گلگت بلتستان کے مفاد میں ہے اور نہ دیدار حسین کے پسماندگان سے یکجہتی کا اظہار ہے.

ضلع غذر میں اس واقعے کی آڑ میں بعض سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی تقاریر دل آزار اور شرپسند رویے کا اظہار ہے. یہ موقع سیاست چمکانے کا نہیں ہے بلکہ دیدار حسین کے اصل مجرموں کی گرفتاری کا ہے۔ پسماندگان کے غم بانٹنے کا ہے اور انہیں سکون مہیا کرنے کا ہے. دکھ کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندان کی اشک جوئی کرنی ہے انہیں گلے سے لگانے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑهہ کر اس خاندان کو انصاف فراہم کرنا ہے.

سوچنے کی بات یہ بھی ہے اس نوعیت کے واقعات کیوں پیش آتے ہیں ؟ اس کے محرکات کیا ہیں ؟ یہ سوالات ہمیں اجتماعی سطح پر اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی دعوت دیتے ہیں. اس طرح کی بربریت کی اجازت نہ ہمارے مذہب میں ہے نہ اخلاقیات میں بلکہ عالم انسانیت کے کسی بھی چارٹر میں اس طرز کی وحشت جائز نہیں ہے لیکن پھر بھی مسلم معاشرے میں اس طرح کے مظالم کا آئے روز ظہور ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے. یہ تو ایک دیدار حسین کا قتل ہے نہ جانے کتنے دیدار معاشرتی حیوانوں کے ہاتھوں روز روز ہراساں ہوتے ہوں گے.

ضلع غذر میں اس طرح کی ہم جنسی جبر کا واقعہ اس سے پہلے بھی پیش آیا تھا جب اوباش لڑکوں کے ایک گروہ نے ایک لڑکے کے ساتھ جنسی جبر کے بعد اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کیا تھا.

واقعے پر واقعہ اور جبر پر جبر کی یہ کہانی آخر کب انجام کو پہنچے گی۔ لگتا تو ایسا ہے کہ ایسے واقعات کے ہم سب مجرم ہیں اور پورا معاشرہ ایسے گهناونے واقعات کا ذمہ دار بهی ہے. ہمارے اجتماعی رویے انتہائی بھیانک ہیں. ہماری سوچیں محدود ہیں، ہم ہوس کے پجاری، فرقے کے ٹھیکیدار، علاقائی تقسیم کے شکار بکهری ہجوم ہیں ۔ہم انسانی بستی کے مجرم ہیں، ہم حیوانی تصور کے علمبردار اور ظلم کے طرفدار ہیں. احتجاجی مظاہرے اور پرجوش تقاریر کے ذریعے اپنی محدود فہم کا اظہار انجانے میں بھی کرتے رہتے ہیں لیکن معاشرتی بیماریوں کا تریاک ہمارے پاس نہیں ہے کیونکہ کسی نہ کسی سطح پر ہم سب جرم دار ہیں.

حکومت دیدار حسین کے ساتھ ہونے والے ظلم کو بے نقاب کرتے ہوئے اصل مجرمان کو عبرت کا نشان بنائے گی مگر سماج کی جڑوں میں پیوست درندگی کی یہ سوچ کب ختم ہوگی اور انسانی اقدار کو کب عروج ملے گا۔ عالم انسانیت ازل سے اس کی منتظر ہے.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button