از قلم : پروفیسر ڈاکٹر عطا ء اللہ شاہ ، شیخ الجامعہ ، جامعہ قراقرم گلگت بلتستان
تحقیق یعنی ریسرچ کا بنیادی مقصد تخلیق علم ہے ۔ یعنی علم کے نئے زاویے اور حدود تحقیق کے ذریعے ہی جنم لیتی ہیں۔ انسانی علم بنیادی طور پر محدو د اور ارتقاء پذیر ہوتی ہے اور ریسرچ کے ذریعے جدید نظریات و قوانین جنم لیتی ہیں۔ جن کے ذریعے انسان ایک طرف خود کو درپیش مسائل کے دیرپا اور کم قیمت حل تلاش کرتا ہے اور دوسری طرف کائنات اور قوانین فطرت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ درحقیقت تحقیق کے ذریعے ہی انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت و فیاضی کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی سرشت میں تحقیق و جستجو کا مادہ ازل سے ہے اور تا ابد قائم رہے گا۔
جامعات کا تصور جدید تحقیق کے بغیر نامکمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعات کی عالمی درجہ بندی میں تحقیق کو کمال اہمیت حاصل ہے ۔ دنیا میں چوٹی کے جامعات کا اگر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تحقیق یعنی ریسرچ پر کافی وسائل صرف ہوتے ہیں اور اسی ریسرچ کے ذریعے ہی یہ جامعات ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسائل کو حل کرانے میں جدید علوم و نظریات اور ان کی بنیاد پر بننے والی اشیاء کی ایجاد کی بنیاد ی محرک ہیں۔ یہ جامعات جہاں قوانین فطرت کی گھتیا سلجھانے میں اصاتی تحقیق (Pure Research) کرتی ہیں۔ وہاں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اطلاقی تحقیق (Applied Research) کے ذریعے انسانوں کی بنیادی ضروریات کیلئے نت نئی چیزیں ایجاد کرتے ہیں۔ تحقیق کی یہ دونوں صورتیں جامعات کی ترقی اور بقاء کیلئے ضروری ہیں ۔ جامعات میں تحقیق کیلئے درکار وسائل اور ماحول پر بحث کرنے سے قبل تحقیق کے چند بنیادی اصول کا ذکر کرنا بے جا نہیں ہوگا۔
تحقیق یعنی ریسرچ کو آسان الفاظ میں ٹیل آرم سٹرانگ نے ’’ جدید علم کے تخلیق کا ذریعہ کہا ہے ‘‘۔ آئن سٹائن کے نزدیک تحقیق ایک فطرت میں گم ہونے کا نام ہے اور اگر تحقیق کے دوران محقق پر یہ عیاں ہوجائے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو یقیناًتحقیق کا سلسلہ مفقود ہوجا تاہے گو یا تحقیق ایک گورکھ دندہ ہے ۔
دنیا میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ (R&D) کے حوالے سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ سرفہرست ہے ۔ جہاں دنیا کا تقریبا ایک تہائی تحقیق ہورہی ہے اور اس ضمن میں صرف سائنسی ریسرچ پر ۲۰۱۱میں کم و بیش 35ارب ڈالر صرف ہوئے ۔ اسی طرح صدر اوباما نے 150ارب ڈالر کا خطیر رقم تحقیق کیلئے مختص کیا تھا ۔
اس ضمن میں فی زمانہ صحت ، خلاء ، توانائی اور ماحول سے متعلق تحقیق سرفہرست ہیں۔ تقریباً دنیا کے دو تہائی R&Dوسائل ان میدانوں میں صرف ہورہے ہیں۔ تحقیق و ترقی کے میدان میں امریکہ کے علاوہ جاپان ، چین ، جرمنی ، کوریا اور فرانس کے ممالک سر فہرست ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت بھی R&Dکے میدان میں مسلسل آگے آرہا ہے اور دنیا کے 10ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہے ۔ جس میں وہاں کی جامعات اور تحقیقی اداروں کا ایک بنیادی کردار ہے ۔
کسی بھی معاشرے میں R&Dکے فوائد مختلف صورتوں میں ہو سکتی ہیں۔ سب سے اہم یہ نئی اشیاء کی ایجاد کاموجب بنتی ہے یا پہلے سے موجود اشیاء ، خدمات کو مزید بہتر بنانے کیلئے ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔ اس کے ذریعے اقوام عالم دنیا میں اپنے کاروبار کی وسعت کراتی ہیں اور ملکی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں موجود افرادی قوت کے اندر تخلیقی صلاحیتیں وافر مقدار میں موجود ہوں تو وہاں جدید اشیاء کی تخلیق اور پیداوار کیلئے زیادہ محنت اور سرمایہ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس کو بسا اوقات ’’Knowledge Economy‘‘ (علمی معیشت )بھی کہا جاتا ہے ۔ مشہور بزنس ٹائیکون اور مائیکرو سافت کے چیف ایگزیکٹیو بل گیٹس کہتا ہے کہ ’’پچاس سال قبل ہماری علم و تحقیق زیادہ تر زراعت، صنعت گری اور مینو فیکچرنگ وغیرہ سے وابستہ تھیں لیکن آج ہم اطلاعاتی ٹیکنالوجی (Inforamtion Technology) کے دورمیں ہیں۔
جامعات میں تحقیق کے جستجو کے عمل کو تقویت دینے کیلئے درج ذیل امور پر توجہ کی ضرورت ہے ۔
۱۔ تحقیق کا محور علاقائی ، ملکی اور بین الاقوامی مسائل ہونا چاہئے ۔ اگرہم تحقیق کو ان مسائل کے حل کیلئے موثر طورپر استعمال کریں گے اور اس کا اثر واضح طور پر معاشرے کی ترقی میں نظر آئے گا۔ جب ہم جامعہ قراقرم کی خصوصیت اور اہمیت کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ’’پہاڑی سلسلوں اور فلک بوس چوٹیوں اور شہرہ آفاق گلیشیئرز پر محیط اس علاقے کی اہمیت ہی یہاں تحقیق کیلئے ایک بہترین ذریعہ بن سکتا ہے ۔ بحیثیت ایک پہاڑی علاقے کی یونیورسٹی یعنی ’’ماؤنٹین یونیورسٹی ‘‘ جامعہ قراقرم کو ان مخصوص عنوانات پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس سے یہاں کے لوگ اور علاقہ دوچار ہے ۔ اس ضمن میں مستقل طور پر اطلاقی تحقیق یعنی اپلائیڈریسرچ کی انتہائی ضرورت ہے ۔
چند اہم مسائل یا Research Areasجس میںKIUکو تحقیق کرنے کیلئے مخصوص عنوانات کی نشاندہی کرانی ہوگی ۔ ان میں درج ذیل عنوانات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۔ ماحولیاتی آلودگی ، گلوبل وارمنگ ، آب و ہوا کی تبدیلی اور ان کی بدولت گلیشیئرز کو درپیش خطرات کے حوالے سے تحقیق کی اشد ضرورت ہے ۔ اس وقت گلگت بلتستان میں تقریباً 5ہزار چھوٹے بڑے گلیشئرز ہیں۔ جن میں تقریباً 30گلیشئرز انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں۔
درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے ان گلیشئرز کے اندر جھیلیں بن گئی ہیں ۔ جن کو گلیشئر لیک کہا جاتا ہے ۔ ان جھیلوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور درجہ حرارت میں مزید اضافے کی صورت میں ان جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بہت تیزی کے ساتھ سیلاب آسکتے ہیں۔ اس کو گلیشئرز جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب کہا جاتا ہے ۔ (Glacial Lake Outburst Flow) (Glof) GBمیں پچھلے چند سالوں میں Glofواقعات یا حادثات میں اضافہ دیکھاگیا ہے ۔ اس ضمن میں عطاء آباد جھیل کا قیام /ظہور قابل ذکر ہے ۔ اس وقت ہنزہ حسن آباد میں شسپر گلیشئر کی حرکت اور ممکنہ سیلاب کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے ۔ جامعہ قراقرم میں مربوط مرکز برائے تحقیق کوہ (Integrated Mountain Area Research Centre)آئی مارک کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے ۔ گلیشئرز پر تحقیق کے حوالے سے ان کا باقاعدہ Mappingکراکے ان کے حجم اور وقت کے ساتھ ان کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لیا جاسکے ۔ اس کے ساتھ یہاں کے لوگوں کو Glofکی صورت میں ممکنہ سیلاب اور ان کے خطرات سے آگاہی فراہم کرنا بھی ضروری ہے ۔ چونکہ عمومی طور پر GBکے باسی مختلف نالوں کے ساتھ آباد ہیں۔ لہٰذا کسی بھی ممکنہ سیلاب کی صورت میں ان آبادیوں کو انتہائی خطرات لاحق ہیں۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ ان انتہائی خطرناک گلیشئرز کے کنارے پر آباد لوگوں اور ان کے گھروں کا جائزہ لیا جائے اور ان کو سیلابی خطرے کی صورت میں احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہ کیا جائے ۔ اس کے علاوہ گلیشئرز سے متعلق ان کے حجم میں کمی کے حوالے سے بھی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ خصوصاً وہ گلیشئرز جو زیادہ بلندی پر نہیں کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی کی وجہ سے یہ گلیشئرز زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ان گلیشئرز کی وجہ سے لوگوں کی بود و باش اور معمولات زندگی بھی انتہائی متاثر ہو سکتی ہے ۔
جامعہ قراقرم میں ایک باقاعدہ آب و ہوا کی تبدیلی اور گلیشئرز کے مطالعے کے حوالے سے ایک ریسرچ گروپ بنایا گیا ہے ۔ جس میں مختلف محققین درج بالا مسائل پر مسلسل تحقیق کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اس گروپ کے اراکین اور طلبہ و طالبات نے شسپر گلیشئر کا دورہ کیا اور ممکنہ سیلاب کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا۔
دوسرا اہم میدان برائے تحقیق زراعت اور خوراک کی ضمانت کے حوالے سے ہے ۔ گلگت بلتستان میں خوراک کی کمی اور خوراک کی کم معیار کی وجہ سے نوازئیدہ بچوں کی صحت کے حوالے سے کافی مسائل کا سامنا ہے ۔ ایک جائزے کے مطابق GBمیں تقریباً 50فیصد بچے خوراک کی کمی اور صحت کے مسائل کے شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے ان بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کی ترقی میں رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔
اس ضمن میں قراقرم یونیورسٹی کے شعبہ زراعت و فوڈ ٹیکنالوجی نے کئی قابل ذکر تحقیق کیں ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ شعبہ جات مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر اس تحقیق کو مزید آگے لے جائے ۔ اس ضمن میں موسیمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں زراعت کی ترتیب میں وقوع پذیر تبدیلیاں بھی انتہائی اہم ہیں۔ جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں زراعت پر ہونے والی تبدیلیوں پر بھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔
تیسرا اہم میدان جس میں تحقیق کی ضرورت ہے وہ ’’قابل تجدید توانائی ‘‘ ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں کم و بیش 50سے 70ہزار میگاواٹ کی پن بجلی کی پیداوار کی گنجائش موجود ہے ۔ اس ضمن میں پن بجلی کے پیداوار کے چھوٹے منصوبوں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔ جامعہ قراقرم نے حال ہی میں پاکستان کونسل برائے قابل تجدید توانائی ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط کئے ہیں۔ قراقرم یونیورسٹی میں عنقریب ’’ مرکز برائے قابل تجدید توانائی ٹیکنالوجی ‘‘ Center for Renewable Energy and Appropriate Technology(CREAT) کا آغاز کیا جائے گا۔ جس میں قابل تجدید توانائی کی تحقیق اور لوگوں کو آگاہی و تربیت دینے کیلئے اہتمام کیا جائے گا۔
چائینہ پاکستان تجارتی راہداری (CPEC)کے حوالے سے GBکی اہمیت کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ CPECکا دروازہ ہونے کی وجہ سے اس خطے میں عنقریب وسیع پیمانے پر تجارتی اور معاشی سرگرمیاں شروع ہونے کا بھی قوی امکان ہے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ یہاں کے لوگوں کو اعلیٰ تعلیم و تربیت کے ذریعے اس قابل بنایا جائے کہ وہ ان مواقع سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ قراقرم یونیورسٹی میں CPECسنٹر کا قیام پہلے ہی عمل میں لایا جاچکا ہے ۔ اور اس مرکز کے زیر اہتمام مالی سطح پر CPEC سے متعلق مختلف موضوعات پر کانفرنسز ، ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کی گئیں ہیں۔ CPECسنٹر اس وقت مختلف اہم متعلقہ امور پر تحقیق بھی کرا رہا ہے ۔ قراقرم یونیورسٹی نے مختلف پروگرامز میں CPECکے حوالے سے اہم مضامین بھی نصاب میں شامل کی ہیں۔ کنفوشس سیٹ کے ذریعے تمام طلبہ و طالبات کیلئے لازم ہے کہ کم از کم دو(2) لیول چائنیز زبان سیکھیں ۔ اس ضمن میں طلبہ و طالبات کو چائنیز زبان پڑھانے کیلئے چائنہ سے اساتذہ کرام کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ان کا امتحان آن لائن کنفوشس سنٹر بیجنگ کے ذریعے ان اساتذہ کرام کی نگرانی میں لیا جاتا ہے ۔ توقع ہے کہ چائنیز زبان سیکھنے کے بعد ان بچوں اور بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے چائنیز حکومت کے وظائف کے حصول میں آسانی ہوگی ۔
CPECکے حوالے سے مزید تحقیق کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ گلگت بلتستان میں فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کیلئے نوکری کا حصول بھی ایک مشکل امر ہے ۔ GBریجن میں ٹورزم کی تیزی سے ترقی کی وجہ سے وہاں مختلف قسم کے کاروبار کرنے کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا اس علاقے میں لوگوں میں کاروباری صلاحیتیں بڑھانے کیلئے بھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔ اس ضمن میں قراقرم یونیورسٹی میں کاروبار ی رجحان پیداکرنے کے لئے سنٹر قائم کیا ہے ۔ یونیورسٹی آف اوریگن امریکہ کے ساتھ ایک پراجیکٹ کے ذریعے خواتین میں کاروباری صلاحیتیں بڑھانے کیلئے سٹاف کی تربیت کی جارہی ہے ۔ اس سنٹر کو فعال بنانے کیلئے اہم ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر طلبہ و طالبات کو کاروبار شروع کرانے کیلئے تیار کیا جائے اور ان کو کاروبار شروع کرانے کیلئے درکار سرمایہ فراہم کرنے کیلئے تگ و دو کرے ۔
گلگت بلتستان میں ٹورزم سیکٹر کی تیزی سے ترقی یہاں کے باسیوں کیلئے مزید مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے سال تقریباً 16لاکھ لوگوں نے GBمیں سیاحت کی جو یہاں کی مجموعی آبادی کے برابر ہیں۔ سیاحت کی اس ترقی سے یہاں کے قدرتی وسائل کوشدید دباؤ کا سامنا ہے ۔ کیونکہ ٹریفک ، آلودگی ، سیوریج نظام کی عدم موجود گی اور خشک فضلے کو ٹھکانے لگانے کیلئے مناسب سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں کی قدرتی خوبصورتی بہت تیزی سے خراب ہورہی ہیں۔ اس کے تدارک کیلئے ضروری ہے کہ ماحولیاتی سیاحت (Eco-Tourism) کے بارے میں علم و تحقیق کے ذریعے یہاں کے باسیوں اور سیاحوں کے اندر آگاہی پیدا کی جائے ۔ قراقرم یونیورسٹی ہنزہ کیمپس کے زیر اہتمام ایک ’’بین الاقوامی کانفرنس برائے ایکو ٹورزم ، ہاسپٹلٹی اور کوہ پیمائی ‘‘کا بھی جون کے آخر میں منعقد کرانے کا بھی ارادہ ہے تاکہ عوام اور سیاحوں کے اندر ماحولیاتی ، سیاحت، مہمانداری اور کوہ پیمائی کے بارے میں جدید رجحانات سے آگاہ کیا جائے ۔ توقع ہے کہ اس کانفرنس میں بین الاقوامی مندوبین کے علاوہ ملک کے مایہ ناز کوہ پیما اور محققین شرکت کریں گے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے جامعہ قراقرم ہنزہ بین الاقوامی تعلیمی و تحقیقی اداروں کے ساتھ روابط بنا کر سیاحت ، مہمانداری اور کوہ پیمائی میں مزید تحقیق کریں گے ۔ اس وقت گلگت بلتستان میں نجی سطح پر ابتدائی ترقی اطفال Early Childhood Development(ECD)کے ضمن میں کافی تجربات ہو رہے ہیں۔ اس میں روپانی فاؤنڈیشن اور آغاخان ایجوکیشن سروسز کا کام قابل ستائش ہے۔
پچھلے سال قراقرم یونیورسٹی نے روپانی فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر ایک قومی کانفرنس کا بھی انعقاد کیا ۔ اس سمت میں دونوں اداروں کے باہمی اشتراک سے Early Childhood Research Centreکا قیام بھی ہو رہا ہے ۔ جسمیں بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے حوالے سے تحقیق کا اہتمام کیا جائے گا۔
گلگت بلتستان کا خوبصورت اور لاثانی خطہ نباتاتی خزانوں سے مالامال ہے ۔ اس ضمن میں کم و بیش 300-200ادویاتی نباتات کی موجودگی اس علاقے کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہے ۔ جامعہ قراقرم کے کیمسٹری اور حیاتیاتی سائنسز شعبہ جات کے ذریعے ادویاتی نباتات پر تحقیق ہورہی ہے ۔ سال 2018میں قراقرم یونیورسٹی نے ملکی تعلیمی و تحقیقی اداروں کے ساتھ ملکر ادویاتی نباتات کی تحقیق پر ایک ملکی کانفرنس منعقد کیا گیا ۔ ان اداروں میں ہائر ایجوکیشن کمیشن ، HEJسنٹر ، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس سمت میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہاں کی نباتاتی ادویات کو دریافت کی جاسکے اور ان کو ملکی سطح پر فروغ دے ۔ GBکا علاقہ دنیا کی قدیم ترین زبانوں اور ثقافت کا بھی مسکن ہے ۔ اگر ایک طرف شینا،بلتی، بروشسکی ، کھوار ، گوجری ، ڈومکی جیسی زبانیں GBمیں بولی جاتی ہیں۔ وہاں ہر علاقے کی جداگانہ اور الگ ثقافت اور روایات ہیں۔ ان زبانوں اور ثقافتوں میں کچھ تو انتہائی معدومیت کی طرف گامزن ہیں ۔ چنانچہ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان زبانوں اور ثقافتوں پر تحقیق کراکے ان کی رسم الخط وغیرہ کو جمع کرکے محفوظ کیا جائے ۔ اس ضمن پچھلے سال قراقرم یونیورسٹی نے بلتستان فاؤنڈیشن برائے ثقافت کے اشتراک سے ایک ملکی کانفرنس کا بھی انعقاد کیا ۔ یونیورسٹی نے جدید زبانوں کے شعبے کو لسانیات و ادب کا شعبہ بنا کر اس کے اندر مقامی اور ملکی زبانوں کی تحقیق کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے ۔ قراقرم یونیورسٹی میں مرکز برائے فروغ ثقافت بھی قائم کیا گیا ہے ۔ جو متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ملکر علاقائی زبانوں اور ثقافت پر مزید تحقیق کر سکتا ہے ۔ اس سمت میں افواج پاکستان اور بالخصوص فورس کمانڈر میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود خان کی علم و تحقیق دوستی اور گلگت بلتستان کے ساتھ جذباتی لگاؤ بھی قابل ذکر ہے ۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل قراقرم یونیورسٹی میں علاقائی زبانوں اور ثقافت پر تحقیق کیلئے دس لاکھ روپے کا خطیر گرانٹ مرحمت فرمایا ۔ قراقرم یونیورسٹی کے جملہ اراکین ، طلبہ و طالبات اور GBکے عوام جناب فورس کمانڈرکی اس علم دوستی کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ (جاری ہیں)